معراج وانی
انسانی معاشرہ حقوق و فرائض کے حسین توازن پر قائم ہے۔ جہاں ہر شخص اپنا فرض صحیح طور پر ادا کرتا ہے، وہاں دوسرے کے حقوق خود بہ خود محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دین ہو یا ہمارے ملک کا آئین —دونوں یہی بنیادی اصول دیتے ہیں کہ فرائض کی حفاظت ہی حقوق کی ضمانت ہے۔
اسلام نے فرائض اور حقوق کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا ہے۔ قرآن و حدیث میں واضح طور پر یہ تعلیم موجود ہے کہ جو فرض اللہ نے انسان پر رکھا ہے، اس کی ادائیگی کا حقیقی مقصد معاشرے میں دوسروں کے حقوق کی حفاظت ہے۔اسلام میں فرائض دو طرح کے ہیں (۱) حقوق اللہ — جو اللہ کے ساتھ تعلق سے متعلق ہیں(۲) حقوق العباد — جو انسانوں کے حقوق سے متعلق ہیں۔اسلامی تعلیمات یہ واضح کرتی ہیں کہ حقوق العباد کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے حق میں کوتاہی تو معاف کر دیتا ہے، مگر بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کرے۔نبی کریمؐ نے فرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔‘‘اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا:’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔‘‘یہ واضح کرتا ہے کہ ہر شخص کا فرض — خاندان میں ہو، سوسائٹی میں ہو، یا ریاست میں — کسی نہ کسی کے حق سے جڑا ہوا ہے۔قرآن بھی حکم دیتا ہے:’’اللہ انصاف اور بھلائی کا حکم دیتا ہے۔‘‘اسلامی فقہ کا اصول بھی یہ ہے:’’نہ خود نقصان پہنچاؤ، نہ کسی اور کو نقصان پہنچاؤ۔‘‘امانت و دیانت کا قرآنی حکم بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے:’’اللہ حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچاؤ۔‘‘یہ امانت صرف مالی معاملہ نہیں بلکہ ہر ذمہ داری، ہر عہدہ اور ہر وہ چیز ہے جو دوسروں کے حق سے وابستہ ہو۔
ہمارے ملک کا آئین بھی دین کی طرح حقوق اور فرائض دونوں کی تعلیم دیتا ہے۔آئین میں:(۱) بنیادی حقوق (Fundamental Rights)آرٹیکل 12 تا 35 میں ہر شہری کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، جیسےمساوات کا حق،آزادیِ اظہار،مذہب کی آزادی،جان و مال کی حفاظت،تعلیم کا حق،ظلم و زیادتی سے تحفظ۔لیکن یہ حقوق اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب شہری ایک دوسرے کے حقوق کا احترام نہ کریں۔(۲) بنیادی فرائض (Fundamental Duties) — آرٹیکل 51(A)۔آئین ہر فرد پر کئی فرائض عائد کرتا ہے، جیسے:ملک کی سالمیت کا تحفظ،قانون کی پابندی،عوامی املاک کی حفاظت،ہم آہنگی، بھائی چارہ اور انسانی وقار کا احترام،ماحول کی حفا ظت ۔یہ سارے فرائض دراصل دوسروں کے حقوق کی حفاظت کی بنیاد ہیں۔
آج کل ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقعوں پر رات بھر گانے بجانے کی محفلیں سجانا عام ہو گیا ہے۔ لوگوں کو یہ آزادی ضرور ہے کہ وہ خوشی منائیں، ناچیں اور گائیں، مگر لاوڈ اسپیکر کے ذریعے پوری رات دوسروں کو جگانا کہاں کا انصاف ہے؟بچے، بیمار، بوڑھے، بزرگ، محنت مزدور، طلبہ اور عام شہری — سب کو انتہائی تکلیف پہنچتی ہے۔ مگر افسوس کہ گانے بجانے والے افراد کو اس ایذا رسانی کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ان کی خوشی پورے محلے کے لیے اذیت بن جاتی ہے۔ شادی محلے کے ایک گھر میں ہے وہ کیا کچھ کریں مگر بند کمرے کے اندر اس طرح سے ایسا لاوڈ سپیکر سسٹم رات کو لگا کر رکھنا جس کی آواز کئی کلومیٹر تک پہنچ کر لوگوں کو رات بھر عذاب میں رکھے یہ اپنی خوشی منانے کا کونسا حق ہے ۔ اس پر الله یہ افراد الله کے عذاب کے مستحق تو ہوتے ہی ہیں لیکن ان پر حکومت بھی سنجیده ہونی چاہیے۔یہ بات نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ دوسرے کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔حکومت اور سماج کے ذمّہ دار افراد کو بالکل خاموش نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ قانون اور اخلاق دونوں یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ’’ایک انسان کو اتنی ہی آزادی حاصل ہے جب تک اس کی آزادی کسی دوسرے کی آزادی سے نہ ٹکرائے۔‘‘یہی فرائض کی اصل روح ہے کہ اپنی آزادی کو دوسروں کی تکلیف کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔
خلاصہ: ’’فرائض کی اصل ادائیگی دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔‘‘یہ نہ صرف ایک اخلاقی اصول ہے بلکہ اسلام کا بنیادی حکم اورآئین ہند کا بنیادی فلسفہ بھی ہے۔
اسلام کہتا ہے:’’اپنے فرائض ادا کرو تاکہ دوسروں کے حقوق پامال نہ ہوں۔‘‘آئین کہتا ہے:’’اپنے فرائض پورے کرو تاکہ ہر شہری اپنے حقوق سے فائدہ اٹھا سکے۔‘‘
یوں دونوں نظام انسانیت، عدل، مساوات اور ذمہ داری کے اصول پر قائم ہیں۔اگر فرد اپنا فرض پورا کرے تو معاشرہ خود بخود امن، سکون اور انصاف سے بھر جاتا ہے۔