کرتار پور گلیارے کی تقریب ِسنگ بنیاد پر وزیراعظم پاکستان نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت میں اگر عزم و حوصلہ ہو تو ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔اس ضمن میں عمران خان نے کہا کہ اگر نئی دہلی امن کے حصول کیلئے ایک قدم بڑھائے تو پاکستان جواب میں دو قدم بڑھا کر استقبال کرے گا۔انہوںنے بھارت کو سارک کانفرنس کی منجمد شریانوں میں حرکت اور حرارت کا خون دوڑانے کیلئے اسلام آباد آنے کی پھر سے دعوت دی۔انہوں نے اس تاثر کو بھی زائل کردیا کہ اسلام آباد میں طاقت اور فیصلہ سازی کی دو متصادم قوتیں ہیں جیسا کہ نئی دہلی میں براجماں بھاجپا حکومت الزام عائد کرتی آئی ہے ۔عمران خان نے یقین دلایا کہ جی ایچ کیو(General Headquarters)اور ان کی سربراہی والی حکومت ایک ہی سوچ اور اپروچ رکھتی ہیں۔
امن و استحکام اور دوستی کی اس پہل کا بدقسمتی سے نئی دہلی نے سرد مہری سے جواب ہی نہ دیا بلکہ حقارت سے ٹھکرادیا۔اس پر مستزاد یہ کہ بھارت کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے فارئن منسٹری (وزارتِ خارجہ )سے ایک قدم بلکہ دس قدم آگے بڑھ کر اور بھی سخت لہجے میں بات کی ۔ایسا انداز ِ سخن جیسے کہ بھارت میں کوئی سیاسی حکومت موجود نہیں ،بس ایک آمریت ہے ۔ابھی تک جو الزام نئی دہلی پاکستان پر عائد کرتی رہی ہے ،اب خود اس کا ارتکاب کررہی ہے ۔ایک سیاسی بیان پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے آچکا تھا اور اس کاجواب بھی وزارتِ خارجہ کی طرف سے دیا جاچکا تھاجو ویسے بھی سخت تھا۔کوئی ضرورت نہیں تھی فوجی سربراہ کو کہ وہ اس میں ٹانگ اَڑائیں ۔یہ اُن کا ڈومین (Domain)نہیں تھا،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ وقت سے بھارت کی فوجی قیادت ان امور میں اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے جو خالصتاً سیاسی قیادت سے متعلق ہوتے ہیں اور جن کو ایڈرس کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔لگتا ہے اس شوقِ عشق میں بھارتی فوج نے پاکستانی فوج کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور طاقت اور اختیارات میں وہ ہر نئے آنے والے دن کے ساتھ اپنے وجود اور دبدبہ کے ساتھ خود کو منوانے میں کوشاں ہے۔
گزشتہ جمعہ کو فوجی سربراہ نے پاکستان سے بہت کچھ کرنے کو کہا۔جنرل راوت نے کہا کہ اگر پاکستان کو بھارت کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے تو اسے اسلامی ریاست کے نظریہ کو چھوڑ کر ’’سیکولر ریاست ‘‘میں خود کو تبدیل کرناہوگا۔’’ہم لوگ تو سیکولر سٹیٹ ہے ۔وہ تو اسلامک سٹیٹ ہے۔اگر وہ ہماری طرح سیکولر سٹیٹ بننے پر تیار ہیں تو ان کیلئے موقع ہے‘‘۔جنرل صاحب کے اس قسم کے بیان سے صاف مترشح ہوجاتا ہے کہ وہ امن اور دوستی کو دو ملکوں کی نہیں ،صرف پاکستان کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ان کی نظر میں پاکستان مذاکرات کی پہل کرکے اپنی کمزوری کو ثابت کررہا ہے ،اسی لئے اس کے کشکول میں بھارت اپنے مطالبا ت کی فہرست ڈالے جارہا ہے ۔بھارت جنگ کے میدان میں نبرد آزما ہونے سے قبل ہی پاکستان پر’’ٹریٹی آف ورسیلز‘‘(Treaty of versalies)کی طرز کے ذلت آمیز شرائط عائد کرکے اس کو اپنے نظریاتی قبلے کی تحویل کا حکم صادر کرنے جارہا ہے ۔یہ دیدہ دلیری اس ملک سے کی جارہی ہے جو عسکری قوت کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھارت کا ہمسایہ ملک ہے۔پوچھا جاسکتا کہ کیا کوئی ملک دوسرے خود مختار ملک سے اس قسم کے طفلانہ انداز تکلم کا متحمل ہوسکتا ہے ؟کیا چین کو بھارت سے یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ باہمی تعلقات تب ہی بہتر ہوسکتے ہیں جب نئی دہلی کو ’’سیکولرڈیموکریٹک ‘‘آئینی اساس سے منحرف ہوکر خود کو کمیو نزم کے سانچے میں ڈال دے ؟یا بھارت چین کی طرف سے بڑھتے ہاتھ کو تھامنے سے قبل یہ شرط عائد کرے کہ وہ کمیو نسٹ نظریہ پر مبنی ریاست کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرے؟خود فریبی کی اس حشیش سے چند لمحوںکا ’’بیش قیمت ‘‘سکون تو مل سکتا ہے مگر ظاہر کہ اس سے باہمی تعلقات کو خوشگوار نہیں بنایا جاسکتااور نہ دوسروں پر اپنی آقائیت اس طرح مسلط کی جاسکتی ہے ۔آسکر وائلڈ نے اس قسم کی ذہنیت پر یوں تبصرہ کیا ہے:’’میں اتنا چالاک ہوں کہ کبھی کبھار خود اپنی کی ہوئی باتوں کا ایک لفظ بھی میرے پلے نہیں پڑتا‘‘۔
اب جنرل راوت کے اس طرز ِگفتار کا جائزہ لیتے ہیںجس کے نشے میں وہ دوسروں کو کم تر سمجھ کر انہیں مطعون کرناچاہتے ہیں۔کیا واقعی بھارت ایک سیکولر سٹیٹ ہے ؟یا سیکولرازم کی پردہ داری میں ہندو فرقہ پرستی خوب پھل پھول رہی ہے، جس کے سیاہ کار نامے دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں کیونکہ آج کی دنیا میں کوئی چیز زیادہ دیرآ ہنی پردوں میں بھی چھپ کر نہیں رہ سکتی ۔جس ملک میں آر ایس ایس سنگھ پریوار کا سیاسی چہرہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو راشٹر کے فلسفے پر قومی ریاست کو تعمیر کرنے جارہی ہواور جہاں کانگریس جیسی ’’سیکولر‘‘جماعت خود کو بھاجپا سے زیادہ ہندو پرست ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہو،وہاں سیکولر ازم کی دہائی دینا جنرل راوت جیسے فوجی سربراہ کے شایان ِ شان نہیں۔ان کے دور میں وہ بہت کچھ ہوا جس کو کسی بھی صورت سیکولر قرار نہیں دیا جاسکتا۔مشتے نمونہ از خروارے کے طورچند واقعات پیش کئے دیتے ہیں ۔یاد رہے کہ یہ رپورٹیں اور جائزے اسی ملک کے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کے ہیں اور خود اسی ملک کے اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔یہ کہنا اس لئے ضروری ہے کہ یہاں خود بھارت نوازلیڈروں اور پارٹیوں پر بھی ’’پاکستانی ایجنٹ ‘‘کی لیبل چسپاں کی جاتی ہے ،ہمارے جیسے آزاد سوچ کے حامل تجزیہ نگاروں کی بات ہی تو نہیں۔
’’انڈین ایکسپریس ‘‘نے7جون2018ء کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ کرناٹک کے بھاجپا ایم ایل اے بسنت گوڈا پاٹل نے کارپوریٹرس کو ہدایات دی کہ انہیں صرف ہندوئوں کیلئے کام کرنا چاہئے جنہوںنے انہیںووٹ دئے ہیں،نہ کہ مسلمانوں کیلئے ۔ویڈیو میں وہ صاف یہ کہتے سنے جارہے ہیں کہ برقعہ اور ٹوپی والے میرے آفس میں نہ آئیں اور نہ میرے سامنے سے گزریں۔یہ موصوف ممبر پارلیمنٹ بھی رہے ہیں اور واجپائی حکومت میں منسٹر آف سٹیٹ بھی رہ چکے ہیں۔ایک اور بھاجپا ممبر اسمبلی سنجے پاٹل نے گوڈا کے حق میں اپنی حمایت درج کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک کے چنائو ’’ہندو بمقابلہ مسلمان‘‘ہیں۔پاٹل نے خم ٹھونک کر کہا کہ یہ الیکشن سڑک ،پانی جیسے ایشوز کیلئے نہیں ہیں بلکہ ’’رام مندر بمقابلہ بابری مسجد ‘‘کیلئے ہیں۔(انڈین ایکسپریس ،24اپریل2018)۔
اے جی نورانی ،جو بھارت کے مشہور ماہر قانون ،قلم کار اور صحافی ودانشور ہیں ،نے اگست2018کے اپنے ایک مضمون ’’ politics of lynching‘‘میںلکھا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور گائے کے نام پر ہجومی تشدد (mob lynching)کے واقعات میں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد کافی اضافہ ہوا ہے ۔انہوںنے ایک سٹیڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے98؍فیصد واقعات مودی حکومت میں پیش آئے، (2014ء میں مودی کی قیادت میں بھاجپا نے اقتدار سنبھالا تھا)۔ان واقعات میں 33؍لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں29(یعنی88فیصد)مسلمان تھے ۔تولین سنگھ مودی حکومت کی کئی برس تک حمایتی رہی ہے لیکن مودی سرکار میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جو سلوک کیا گیا،اس پر اُن کا کلیجہ بھی پھٹ گیا اور وہ اپنے مضمون’’The First Lynching‘‘(انڈین ایکسپریس ،15ستمبر2018)میں کہتی ہیں کہ مودی حکومت میں گائو رکھشکوں (cow vigiliants)کے ذریعے ہجومی ماردھاڑ کے واقعات میں جو زبر دست اضافہ ہوا،اُس سے ہندو خود کو اتنے دلیر سمجھنے لگے کہ انہیں کسی قانون کا خوف نہیں جب کہ مسلمان خود کو دوسرے درجے کے شہری سمجھنے لگے ہیں۔
مودی حکومت نے وگیان بھون سے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک (سربراہ)موہن بھاگوت کے لئے ریڈ کارپٹ بچھاکر دکھا دیا کہ بی جے پی فی الحقیقت آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے ۔اسی طرح راجیہ سبھا ٹی پی کے ذریعے بھگوت کے تین روز ہ لیکچر سیریز کا ٹیلی کاسٹ کرنا اسی تعلق کا مظہر ہے۔حال ہی میں تاریخی قصبوں اور شہروں کے مسلم نام تبدیل کئے گئے ۔ان فیصلوں کے پیچھے جو ذہنیت کام کررہی ہے ،وہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ مسلمانوںکے حوالے سے جو کچھ ملک وقوم بنانے کے لئے کنٹربیوٹ (contribute)کیاگیا ہو اور جس قسم کا کلچر ان کی خدمات کا شاہد اور مظہر ہو،اس کو ختم کیاجائے۔آر ایس ایس کے نزدیک مسلمانوں کی عہد حکومت ’’بارہ سو سال کی غلامی‘‘کی ’’تاریک یاد ‘‘ہے جس کو دلوں سے محوکرنا چاہتی ہے ۔خود مودی جی نے وزیراعظم بننے کے بعد پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں مسلمانوںکے دور حکومت کو ان ہی القابات سے نوازا تھا۔پرشانت بھوشن نے 30؍اگست کو’’ انڈین ایکسپریس‘‘ میں اپنے مضمون میں کہا تھا کہ ایک طرف ہجومی مار دھاڑ کے مرتکب مجرموں کو حکومت ہاتھ تک نہیں لگاتی تو دوسری جانب حقوق انسانی کے علمبرداروں پر ’’دیش دروہی‘‘کے الزامات لگا کر انہیں پابند سلاسل کررہی ہے ۔معروف مصنفہ اور دانشور ارون دھتی رائے نے حکومت کے ان اقدامات کو ’’آئین کے خلاف بغاوت‘‘سے تعبیر کیا۔
ایسے سینکڑوں واقعات میںسے ان چند واقعات کا ذکر کرنے کا مقصود یہ ہے کہ جنرل صاحب جن سیکولر اقدار اور آدرشوں پر فخر کا اظہار کرتے ہیں،کاش زمینی سطح پر ان کا ظہور دیکھنے کو کہیں ملتا ۔آخر آر ایس ایس اور سیکولر ازم میں قدر مشترک کیا ہے؟ دونوں اپنے اساسی نصب العین اور فکر کے حوالے سے ایک دوسرے سے قطبین کا فاصلہ رکھتے ہیںبلکہ باہم متصادم ہیں۔جہاں ایک ہوگا ،وہاں دوسرا نہیں ہوگا۔رہی بات کانگریس کی تو اس جماعت نے اگر چہ سیکولر ازم کا چولا پہن رکھا ہے مگر سچر کمیٹی کی رپورٹ اور اس کے دور میں کرائے گئے ہزاروں مسلم کش فسادات اور بابری مسجدکی شہادت ،دلتوں پر ڈھائے گئے مظالم ،یہ سب ا س امر کے شاہد عادل ہیں کہ یہ نظریہ محض مسلمانوں اور اقلیتوں سے زبانی ہمدردی دکھانے اور ان کے ووٹ لینے کیلئے مشتہر کیاگیا،ورنہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ 1949میں عدالت کی ممانعت کے باوجودبابری مسجد کا تالا کھلواکر کر اوروہاں رات کی تاریکیوں میں مورتیاں رکھوا کر اس عبادت گاہ کو متنازعہ نہ بنایا گیا؟پھر راجیو گاندھی نے شیلا نیاس ا س میں رکھنے کی اجازت دی ۔اب اگر راہل گاندھی ،جو اب ہر مندر پر ماتھا ٹیکتا ہے اور خودکو بھاجپا سے زیادہ ’’جنیون‘‘ہندو سمجھتا ہے ،کل دعویٰ کرے کہ رام مندر کی تیاری میں ہمارا کلیدی کردار رہا ہے اور ہم ہی اس کو بنائیں گے تو کون اُن کو جھٹلا سکتا ہے !
اور ہاں، پاکستان میں آج سیاسی نظام چل رہا ہے ۔وہ اسلامی نظریہ کم اور سیکولر نظریہ زیادہ ہے جب کہ بھارت ،جس کو سیکولر اساس پر قائم کیاگیا تھا،وہاںآج کل سیکولر نظام کی جگہ آر ایس ایس والے نظام فکر و ثقافت کا غلبہ ہے ۔پھر بھی جنرل راوت صاحب کو غصہ یا شکوہ ہے کہ پاکستان سیکولر کیوں نہیں ہے جیسے کہ خود اُن کے دیس میں گنگا جمنا بس سیکولر ازم کی مالا جپتے ہوئے بہتے رہتے ہوں۔
(بشکریہ ہفت روزہ ’نوائےجہلم ‘سرینگر)