ریاست میں پارلیمانی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اختتام کو پہنچ گیا ہے اور سبھی حلقوں کی جانب سے اس امر پہ اطمینان اور شُکر کا اظہار کیا جار ہا ہے کہ ووٹ اندازی کا یہ مرحلہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں پُر امن طریقے سے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ اس دوران ووٹ اندازی کے ساتھ ساتھ بائیکاٹ کےٹھیک ٹھاک مناظربھی دیکھنے کو ملے ہیں تاہم یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ صورتحال مجموعی طور پر پُر امن رہی۔چونکہ پہلے مرحلے کے اختتام پر ہندوراہ میں ایک نوجوان کی ہلاکت کا دلدوز واقعہ پیش آیا تھا،جس نے سبھی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔اگر چہ کہیں کہیں پر بائیکاٹ کے اثرات کے تحت پتھرائو اور ٹکرائو کے واقعات بھی پیش آئے لیکن امن عامہ کی مجموعی صورتحال پر اسکے اثرات زیادہ نمایاںنہ رہے۔ حالانکہ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی عمل کے حوالے سے کشمیر اور کشمیریوں کو بدنام کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا اور ایک مخصوص زہینت رکھنے والے الیکٹرانک میڈیا کےحلقوں کے ذریعہ صورتحال کو انگیخت کرنے کی بہت کوششیں کی جاتی رہی ہیں، زمینی سطح پر اس کے اثرات معدوم رہے ہیں۔ سرکاری حلقے یقینی طور پر اسے اپنی کامیابی سے تعبیر کرینگے مگر عوامی حلقے، جو ہمیشہ ٹکرائو اور تصادم کے بیچ نقصان کا شکار ہوتے رہے ہیں، کسی گزند یا نقصان سے محفوظ رہے۔ یہ اس بڑے حلقے کی خاطر اُمید افزاء بات ہے۔انتخابی عمل لازمی طور پر عوام کی رائے اور اُمیدوں سے پیوستہ ہوتا ہے اور ووٹ اسی توقع کے ساتھ ڈالے جاتے ہیں کہ منتخبہ اُمیدوارعوامی اُمنگوں پہ پورا اُترینگے اور عوام کی خواہشات کے احترام کو اپنی اولین ترجیح تصور کرینگے۔ خاص کر نوجوان نسل میں ہمہ گیر سطح پر یہ شکایت ہے کہ عوامی نمائندے انکی آراء، امنگوں اور ضرورتوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنے مفادات اور مقاصد کی تکمیل پر زیادہ تر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ جس پیمانے پر ریاست کے نوجوانوں کو بے روزگاری کا بحران درپیش ہے، ایسے میں انکی اس سوچ کو غلط بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ موجودہ انتخابی مرحلے کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں نے رائے دہندگان کو لُبھانے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کےلئے کوئی کسر اُٹھائے نہیں رکھی ۔ اس تعلق سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلئے ہر ممکن جتن بھی کئے گئے ، بلکہ کہیں کہیں تو گڑھے مُردے اُکھاڑنے سے بھی پرہیز نہیں کیا گیا۔ مگر بہر حال اس ساری صورتحال کے باوجود خدا نخواستہ ٹکرائو کی کوئی ایسی صورت سامنے نہ آئی جو دشمن داریوں کے فروغ کا سبب بن سکتی تھی۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین نےبھی یہ ایں ہمہ اپنی انتخابی مہموں کے دوران جس حزم و احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے اُسکو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ غالباً اس میں مرکز میں برسراقتدار جماعت اور اس کے حلیفوں کی جانب سے ریاست کے آئینی تشخص کو نشانہ بنانے کی مہم چھیڑنے کے عمل نے وادی کی جماعتوں کو احتیاط کی حکمت عملی اختیار کرنے کی تحریک دی ، جو ایک حوالے سے سود مند ثابت ہوا ہے۔ کم ازکم سبھی مقامی جماعتیں، حتیٰ کہ بھاجپا کےکچھ حمایتی بھی، اس مہم کےخلاف کھلے طور پر سامنے آئی ہیں۔ بہر حال پولنگ کے اب تک کے دو مراحل میں مختلف خطوں میںڈالے گئے ووٹوںکی شرح فیصد میں کافی فرق ہوسکتا ہے مگر یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ وادی میں دوسرا مرحلہ پُر امن طو ر پر انجام کو پہنچا ہے ، جس پر ریاست کے سیکورٹی اداروں نے بھی چین کی سانس لی ہے۔منتخب ہو کر کون لوگ سامنے آتے ہیں،اس کے حقائق ووٹ شماری کے بعد ہی سامنے آئینگے، لیکن یہ اُمید ضروری کی جانی چاہئے کہ جو بھی لوگ کامیاب ہوکر سامنےآتے ہیں وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی، عوامی امنگوں کی بر آری اور ریاست کے آئینی تشخص کے تحفظ کو اولیت دینگے نہ کہ اپنے اقتداری مفادات کی تکمیل کو ترجیح دینگے اور اُمید یہی کی جائے گی کہ ووٹنگ کا آخری مرحلہ بھی پُر امن طریقے سےانجام پذیر ہو اور اس کےلئے حکومت مثبت اور معقول طریقہ ٔ کار اختیار کریگی۔