Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

دوستی نام ہے وفا کا

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: December 12, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
انور اور یوسف بچپن کے پکے دوست تھے۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ لوگ ان کی دوستی کی قسمیں کھاتے تھے۔یوسف اگر شکل و صورت میں یوسف تھا تو انور بھی کچھ کم نہ تھا۔ وہ دونوں رقیہ بیگم کی آنکھوں کا تارا تھے۔ یوسف بھی انور کو اپنے سگے بھائی سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا اور رقیہ بیگم کو اپنی ماں سے زیادہ۔ آخر کیوں نہ کرتا؟ رقیہ بیگم نے یتیم یوسف کی اپنی اولاد کی طرح ہی پرورش جو کی تھی اور کبھی بھی ان کے دل نے انور اور یوسف  میں کوئی فرق  محسوس نہیں کیا۔ انور جب کوئی شرارت کرتا اور اس کی چوری پکڑی جاتی تو یوسف اس کی ذمہ داری خود پر لے کے انور کو رقیہ بیگم کی مار سے بچا لیتا۔ رقیہ بیگم یوسف کے اس پیار کو اچھی طرح سمجھتی تھیں۔ دل ہی دل میں دونوں بچوں کے لئے اللہ سے دعا کرتی’’کہ اے اللہ! میرے دونوں بچوں میں اسی طرح تا قیامت تک محبت بنی رہے یہاں تک کہ ان کی آنکھوں سے آنسوں چھلکنے لگتے۔
وقت گذرتا گیا اور دیکھتے دیکھتے انور اور یوسف نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو دل میں ہزاروں لاکھوں امنگوں اور ترنگوں کی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔
ایک روز انور بازارسے کچھ خرید رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر تھوڑی دور ی پر کھڑی ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی جس نے سفید رنگ کا غرارہ پہنا تھا۔ اس کے چاندی جیسے گورے چہرے  پر نیلی آنکھیں اور کالی زلفوں کی لٹوں نے لڑکی کے چہرے کو اور بھی پُرکشش بنا دیا تھا۔ لیکن لڑکی نے اپنے ہونٹوں تک چہرے کو دوپٹے سے چھپا رکھا تھا اس لئے انور اس کے چہرے کو پوری طرح نہیں دیکھ سکا۔ ابھی انور اس کو دیکھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ لڑکی اچانک بھیڑ میں کہیں غائب ہوگئی۔ لیکن زمیں پر پڑی اس کے ایک پیر کی پازیب ہاتھ میں لئے لڑکی کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ آخر ہار کرپازیب کو اپنی جیب میں ڈالا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔گھر آنے کے بعد یوسف کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ پڑھائی میں مصروف ہے۔ توانور نے خود کو بستر پر گراتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے قراری سے کہا’’ہائے! کیا لڑکی تھی!۔ ‘‘ یہ سنتے ہی یوسف کتابوں کو ایک طرف کرتے ہوئے فورا انور کے ساتھ بستر پر لیٹ گیااور بولا’’ کون لڑکی؟ اما یار ! جلدی بولو کون تھی؟ کہاں ملی؟ کیا نام تھا؟ کہاں رہتی ہے؟کچھ بات وات ہوئی اُس سے؟ ‘‘
’’نہیں یار! پتا نہیں کون تھی؟ جو بھی تھی بس قیامت تھی۔ مجھے بازار میں ملی تھی اور پھر اچانک غائب ہوگئی۔‘‘
’’دھت تیری کی! ملاقات ہوئی اور وہ بھی ادھوری!!‘‘
’’لیکن اس کی یہ پازیب میرے پاس ہے جو اس کے ایک پیر سے گر گئی تھی۔ دیکھو!!‘‘
یوسف نے پازیب کو ہاتھ میں لیا اور غور سے دیکھا اور دیکھنے کے بعد کہا’’واقعی! جس کی پازیب اتنی خوبصورت ہے تو وہ کتنی حسین ہوگی!!‘‘
اتنے میں رقیہ بیگم نے اپنے کمرے سے دونوں کو آواز لگائی تو دونوں دوڑتے ہوئے ان کے کمرے میں پہنچے اور رقیہ بیگم کو بہت احترام سے سلام کرکے ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ 
’’جیتے رہو ! کہتے ہوئے رقیہ بیگم نے دونوں کے سروں پر بہت پیار سے ہاتھ پھرتے ہوئے بہت ساری دعائیں دیںاور بولیں’’آج اگر تمہارے ابا مرحوم زندہ ہوتے تو تم دونوں کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتے ‘‘ اور چشمے کو آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے دوپٹے کے کونے سے آنسو پوچھنے لگیں۔ 
’’امی ! ہم ہیں نا آپ کے پاس! آپ ۔۔۔۔۔‘‘ یوسف امی کو دلاسہ دے رہا تھا۔
’’اچھا اچھا!! تمہارے ماموں جان نے تم دونوں کا  انجینیرنگ کے لئے ولایت میں داخل کروا دیا ہے۔ ‘‘
’’لیکن امی! ہم آپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ آپ یوں کیجئے کہ انور کو ولایت بھیج دیجئے اور میں آپ کے پاس رہ کر آپ کی خدمت بھی کروں گا اور یہاں رہ کر پڑھائی بھی کروں گا۔ یوسف کی ضد پر طے ہوا کہ انور پڑھائی کے لئے ولایت جائے گا۔
انور کی ولایت جانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سامان پیک کرنے کے وقت انور نے الماری سے پازیب نکالی اور دیر تک اس کو دیکھتا رہا جبھی یوسف کمرے میں داخل ہوا۔ یہ کیا تم ابھی تیار نہیں ہوئے ؟چلو بھئی! دیر ہو رہی ہے امی تمہارا نیچے انتظار کر رہی ہے۔ ‘‘
’’ہاں چلتا ہوں۔ لیکن میرے بھائی تم اس لڑکی کو ضرور تلاش کروگے نا؟‘‘
’’میں تم سے وعدہ کرتا ہوں انور، میں اس لڑکی کو تمہارے لئے ضرور تلاش کروں گا۔‘‘
انور نے پازیب یوسف کو تھماتے ہوئے کہا ’’ یہ میری امانت ہے تمہارے پاس جو تمہیں ہمیشہ تمہارا وعدہ یاددلاتی رہے گی۔ ‘‘ اور انور ولایت کے لئے نکل گیا۔
آج انور کو ولایت گئے ہوئے چھ مہینے ہو چکے تھے۔ جب بھی وہ یوسف سے بات کرتا تو اس لڑکی کے بارے میں ضرور پوچھتا۔
        ایک روز یوسف کالج سے لوٹا تو دیکھا کہ رقیہ بیگم کچھ مہمانوں کے ساتھ بیٹھی ہیں یہ دیکھ کر یوسف اپنے کمرے کی طرف جوں ہی جانے کے لئے مڑا تو رقیہ بیگم نے یوسف کو اپنے پاس بلا یا۔ ’’یہاںآؤ بیٹا! ان سے کیا شرمانا، یہ نادرہ بیگم ہیں اپنے حکیم صاحب کی اہلیہ اور یہ ان کی بیٹی نیلوفر!، یہ میرا بیٹا یوسف ہے، انجینیرنگ کالج میں پڑھتا ہے‘‘ ۔رقیہ بیگم نے نادرہ بیگم کو ہاتھ سے یوسف کی طرف اشارہ کیا  اور پھربات کو بڑھاتے ہوئے بولیں’’لیکن اس کو افسانے اور غزلیں لکھنے کا بھی بہت شوق ہے۔ اکثر رسالوں اور اخباروں میں اسکے افسانے اور غزلیں چھپتی ہیں۔ ‘‘ یہ سنتے ہی نادرا بیگم نے جھٹ سے کہا’’ اچھا بیٹا!  تو تم ہی وہ یوسف ہو! بھئی واہ کیا لکھتے ہو! ما شاء اللہ ، اللہ تمہارے قلم میں اور زور پیدا کرے ،ہماری بیٹی کو بھی افسانے اور غزلیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ اور یہ آپ کی بہت بڑی فین ہے۔‘‘
’’اچھا! ‘‘یوسف نیلوفر کی طرف رخ کر کے بولا’’آپ کو میرے کون کون سے افسا نے اور غزلیں پسند ہیں؟‘‘
نیلوفر نے شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں اور دھیمی آواز میں بولی’’جی ! سبھی‘‘
اس کے بعد نیلوفر اور یوسف کی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور دن بہ دن محبت پروان چڑھتی رہی۔پھر ایک دن یوسف نے نیلوفر سے اپنی محبت کا اقرار بھی کر ڈالا اور فون پر انور کو بھی نیلوفر کے بارے میں بتا دیا۔
’’وہ مارا!!! میرے یار نے، شاباااااااش، یہ ہوئی نا کوئی بات‘‘ انور بس خوشی سے بولے جا رہا تھا۔ یہ خوش خبری میں امی کو ابھی سناتا ہوں کیوں کہ تو تو بولے گا نہیں۔ مجھے ہی امی سے بات کرنی ہوگی  ‘‘۔ کہتے ہوئے امی سے فون پر جھٹ سے بات کی تو ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔
امی نے یوسف کا بیاہ نیلوفر سے طے کر کے انور کو فون پر خوش خبری سنائی اور کہا کہ نیلوفر کے ابا اس سال حج کرنے کا ارادا رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں۔ بیٹا! تم آؤگے نا ؟
’’امی ! 
’’اچھا لو تم خود ہی یوسف سے بات کر لو ‘‘اور امی پاس کھڑے یوسف کو فون کا ریسیوردیکر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
’’یوسف ! میرے بھائی بہت بہت مبارک‘‘
’’لیکن میں یہ شادی تمہارے بغیر نہیں کر سکتا‘‘
’’تم یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟ تم جانتے ہو کہ میں ایک سال سے پہلے واپس نہیں آ سکتا!چھ مہینے گذر چکے ہیں اب صرف چھ مہینے اور بس‘‘
انور نے یوسف کو اپنی قسم دے کر شادی کے لئے راضی کر اہی لیا۔ گھر میں شادی کے شادیانے بجنے لگے اور نیلوفر دلہن کے لباس میں یوسف کے گھر آگئی۔
نیلوفر کے بہو بن کر آنے سے گھر میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ امی اپنی بہو کو دیکھ کر اللہ کی بارگاہ میں فورا ہاتھ اٹھاتیں اور ہزاروں ہزاروں شکر اللہ کے ادا کرتیں۔ یوسف کی زندگی جیسے پھولوں سے مہک اٹھی ہو۔خوشیوں کے ماحول میں نہ جانے کب چھ مہینے گذر گئے پتا ہی نہیں چلا اور انور آج امی کے سامنے کھڑا تھا۔ امی رو رو کر بول رہی تھیں ’’میرا بیٹا کتنا دبلا ہوگیا ہے‘‘۔ 
’’ہاں ! امی ! آپ کے ہاتھوں کا کھانا جو نہیں ملتا تھاوہاں اب دیکھنا کیسے موٹا ہو جاتا ہوں۔ ‘‘انور نے امی کو ہنسانے کی کوشش کی۔اور پھر یوسف کے گلے لگ کراس کے کان میں چپکے سے بولا ’’بھابھی کہاں ہیں؟‘‘
نیلوفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امی بولیں’’بیٹا! انور! یہ ہیں تمہاری بھابھی۔‘‘ اب تو بھی شادی کر لے جلدی سے‘‘۔
’’یوسف نے انور کو چھیڑتے ہوئے کہا’’بھائی نے تو لڑکی کب سے دیکھ رکھی ہے۔ بس آپ کے ہاں کا انتظار ہے‘‘
’’ ہاں ہاں !! کیوں نہیں بیٹا ! میں تو تم لوگوں کی خوشی میں خوش ہوں۔ جو انور کی پسند وہ میری پسند ۔‘‘ امی سب کو گھر کے اندر لے گئیں۔
نیلوفر یوسف کے لئے الماری سے کپڑے نکال رہی تھی کہ اچانک کپڑوں کے بیچ سے پازیب نکل کر باہر زمین پر گر گئی۔ اس نے پازیب کو غور سے دیکھا تو خوشی سے اچھل پڑی ۔ ’’یہ پازیب آپ کے پاس کیسے؟ اس نے یوسف کو پازیب دکھاتے ہوئے پوچھا؟ ابھی یوسف کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ نیلو نے اپنی الماری سے اس پازیب کا جوڑا نکالا اور یوسف کو دکھاتے ہوئے بولی’’ دیکھو!یوسف! یہ میری پازیب ہے۔آپ جانتے ہیں؟ بہت دنوں پہلے یہ بازار میں کہیں گر گئی تھی اور مجھے تو اس کے ملنے کی کوئی امید بھی نہیں تھی۔ لیکن یہ اس طرح آپ کے پاس ملے گی! مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا۔ نیلوفر نے خوشی خوشی دونوں پازیبوں کو جلدی سے اپنے پیروں میں پہنتے ہوئے یوسف کو دکھایا اور پوچھا’’یوسف! دیکھئے نا ! کیسی لگتی ہیں یہ پازیب؟‘‘
یوسف پھٹی پھٹی آنکھوں سے بس پازیب کو دیکھ رہا تھا تو نیلو اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولی ’’یوسف صاحب! کہاں کھو گئے آپ؟‘‘
یوسف گھبرایا اور ہکلاتے ہوئے بولا’’کہیں نہیں، کہیں تو نہیں اور کپڑے پہن کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
دیر رات تک نیلو یوسف کا انتظار کرتی رہی۔ باہر آج موسم بھی خراب تھا۔ لگتا تھا جیسے کوئی طوفان آنے والا ہے۔ آسمان میں بجلی ایسے کڑک رہی تھی جیسے کہ یہ بجلی یوسف کی زندگی پر گری ہو۔یوسف سڑکوں پر پاگلوں کی طرح بھٹک رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں بس ایک ہی بات گونج رہی تھی۔’’نیلو ہی  وہ لڑکی ہے جس سے انور بے پناہ محبت کرتا ہے؟ اس  سے شادی کرنا چاہتا ہے؟  یا اللہ !یہ مجھ سے انجانے میں کیسا گناہ ہوگیا؟ میں نے تو انور سے وعدہ کیا ہے کہ اس کی شادی اس کی محبت سے ہی ہوگی۔ اب میں کیا کروں؟ یا اللہ اب تو ہی کوئی راستہ نکال۔‘‘ کچھ دیر میں زور دار بارش ہونے لگی۔ یوسف بارش میں بھیگتے ہوئے گھر آیا ۔ ’’ارے ! آپ تو بارش میں بالکل ہی بھیگ گئے ہیں۔ جلدی کپڑے بدل لیجئے ورنہ ٹھنڈ لگ جائے گی۔‘‘ نیلو نے جب دیکھا کہ یوسف اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔تو گھبراتے ہوئے بولی ’’ سنئے! سب ٹھیک ہے نا؟ ‘‘ آپ کہاں تھے، میں کتنی پریشان تھی، آپ مجھ سے کوئی بات چھپا تو نہیں رہے؟ بولئے؟ نہ جانے میرا دل کیوں گھبرا رہا ہے؟ 
’’ کچھ نہیں بس تھوڑا سر میں درد ہے‘‘۔
’’اچھا! نیلوفر نے یوسف کے سر میں بام لگایا اور چائے بنانے کے لئے جیسے ہی اٹھی تو یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور کہا ’’نیلو! بیٹھو میرے پاس!‘‘
’’ہاں ! یوسف، بولئے کیا بات ہے؟ ‘‘
’’نیلو! دراصل میں ایک افسانہ لکھ رہا تھا لیکن افسانے کا اختتام سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیسے ہو؟‘‘
’’بس اتنی سی بات! بولئے کیا ہے افسانہ؟‘‘
جب یوسف سارا قصہ نیلو کو سنا چکا تو بولا’’ اب بولو دوست کو کیا کرنا چاہئے؟‘‘
نیلو نے کچھ دیر سوچا اور کہا’’ دوست کو اپنی بیوی کو طلاق دینی چاہئے کیونکہ اس کے دوست کے اس پر بہت احسانات ہیں اور یہی موقع ہے اس کے سارے احسانات کا بدلہ دینے کا ۔‘‘
’’سچ! نیلو‘‘
’’ ہاں ! بالکل سچ‘‘
’’ اچھا! تم کل تیار رہنا ۔تم سے کچھ ضروری کام ہے‘‘ اگلے دن یوسف نے امی اور انور کو بھی بات کرنے کے لئے بلایا۔
’’بولو بھئی! ہمیں کیوں بلایا؟ میں دادی تو نہیں بننے والی؟‘‘ امی نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا تو انور نے یوسف کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’بہت مبارک یوسف ! تم نے ہماری یہ خوشی بھی پوری کردی‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ انور! آج میں تمہیں کچھ تحفہ دینا چاہتا تھا۔ ‘‘
’’ اچھا! کیا تحفہ؟‘‘
’’تمہاری محبت مل گئی انور ۔ ‘‘
’’اٰچھا! کہاں ہے جلدی بولو!‘‘
’’تمہارے سامنے ، نیلوفر۔ جس کی تمہیں  برسوں سے تلاش تھی۔ وہ لڑکی نیلوفر ہی ہے۔ اور میں نیلوفر کو تمہیں تحفہ میں دینا چاہتا ہوں۔ اس لئے میں نیلوفر کو طلا۔۔۔۔‘‘
’’نہیں یوسف! ایسا مت کرنا! خدا کے لئے ایسا مت کرنا۔ نیلو زور زور سے رو رہی تھی۔ 
’’لیکن تم نے ہی تو کل مجھے مشورہ دیا تھا۔ ‘‘
’’خدا کے لئے خاموش ہو جائیے۔ یوسف!، میں کوئی آپ کا افسانہ نہیں ہوں۔ جیتی جاگتی لڑکی ہوں۔ افسانے اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ کے دوست کی مجھ سے یک طرفہ محبت تھی۔ لیکن میں نے تو صرف آپ سے محبت کی ہے اور آپ نے بھی مجھ سے محبت کی ہے۔ پھر آپ کم از کم میرے ساتھ اور خود کے ایسا کیسے کر سکتے ہیں یوسف!۔ اور میں کوئی تحفہ نہیں ہوں ، جس کا جب جی چاہئے استعمال کرے اور جب جی چاہئے دوستی کے نام پر دوست کو بھینٹ کر دے۔‘‘
پاس کھڑے انور نے یوسف سے کہا’’ نیلو ٹھیک کہتی ہے۔ دراصل میں جس سے محبت کرتا تھا وہ نیلو یہ نہیں ہے۔ یہ نیلو تو تمہاری بیوی ہے اور اس کے آنسو بتا رہے ہیں کہ یہ صرف تم سے محبت کرتی ہے۔ میں اپنی محبت کے لئے تمہارا گھر نہیں اُجاڑ سکتا۔ اور تم یوسف! تم مجھ سے اتنا پیار کرتے ہو کہ میری خوشی کے لئے اپنی بیوی کو طلاق تک دینے کو رازی ہوگئے۔ دنیا میں جب بھی دوستی کی مثال دی جائے گی تو لوگ تمہارا ذکر کریں گے اور میں تمہیںتمہارے وعدے سے بری کرتا ہوں‘‘۔
 
���
 ریسرچ اسکالر شعئبہ عربی، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
[email protected]
موبائل نمبر؛9596434034
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مہو سے ولو تک سڑک رابطہ نہ ہونے سے ہزاروں لوگوں کو مشکلات کا سامنا لوگوں کی ہسپتال ، پلوں اور حفاظتی بنڈوں کی تعمیر اور راشن سٹور کو فعال بنانے کی حکام سے اپیل
خطہ چناب
نوشہرہ کے جنگلات میں بھیانک آگ | درخت سڑک پر گرنے سے آمد و رفت معطل
پیر پنچال
جموں میں 4بین ریاستی منشیات فروش گرفتار
جموں
ڈوبا پارک بانہال میں کھاه رائٹرس ایسو سی ایشن کا محفل مشاعرہ ممبر اسمبلی کے ہاتھوں کھاہ زبان کی دو کتابوں کی رسم رونمائی اور ویب سائٹ لانچ
خطہ چناب

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?