عاصف بٹ
کشتواڑ// ضلع کشتواڑ کے بیشتر علاقہ جات آج بھی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے سبب قدیم طرز کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ 15000 آبادی پر مشتمل واڑون علاقہ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے جو اس دورجدید میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ علاقہ میں بجلی جیسی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں۔ ان علاقہ جات کے لوگ آج بھی بجلی کی ایک جھلک پانے کو ترس رہے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ محکمہ نے علاقے کے لئے بجلی کا سامان و کھمبے لائے ہیں لیکن وہ دھول چاٹ رہے ہیں۔ ضلع ہیڈکوارٹر کشتواڑ سے 250 کلومیٹر کی دوری پر واقع واڑون جہاں قدرتی حسن سے مالا مال ہے وہی اس علاقے میں بے شمار سیاحتی مقامات موجود ہیں جو سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرسکتے ہیںلیکن محکمہ سیاحت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ یہ علاقہ کافی وسیع ہے۔
اس علاقے کے قریب گیارہ گائوں آج بھی بجلی ، پانی و مواصلاتی نظام سے محروم ہیں۔ علاقہ آفتی، بریان، بسمینہ، گمری ملواران،منگلی، مرگی،انشاں،چوئی درمن،رکانواس و سکھنائی اس دورجدید میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جسیان علاقہ کے لوگوں نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے لیڈران و انتظامیہ کے آفیسران نے کئی وعدے کئے جبکہ یہ وعدے ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔جب کبھی بھی کوئی لیڈر یا افسر علاقے میں آتاہے تو عوام کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے لیکن دوبارہ اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتاہے،علاقے کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔انکاکہناتھا کہ اگرچہ کئی مرتبہ یہ معاملہ وقت کے حکمرانوں کی نوٹس میں لایا گیا لیکن کام صرف کاغذوں تک ہی محدود رہا اور زمینی سطح پر کچھ بھی دیکھنے کو نہ ملا۔ مقامی نوجوان نثار احمد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس اگرچہ کئی جگہوں پر علاقہ میں بجلی کے کھبے نصب کئے گئے اور ان پر تاریں بھی لگائی گئیں لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ علاقہ کی طرف کوئی بجلی کی مین لائن نہیں آتی ہے، لگتا ہے کہ محکمہ واڑون کے کسی نزدیکی علاقے میں ہی بجلی تعمیر کررہا ہے اور پھر وہی بجلی علاقے میں سپلائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ صرف مذاق کررہا ہے اور حالت یہ ہے کہ ان دورافتادہ علاقوں میں لوگ آج بھی شمع جلا کر گزارا کررہے ہیں یا پھر سولر لائٹس کا استعمال کرتے ہیں۔
ایک اورمقامی نوجوان منظور احمد نے کہا کہ علاقے میں کئی ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں آج تک بجلی نہیں دیکھی، انکی موت سے پہلے یہ خواہش تھی کہ انکی آنکھیں بجلی کی ایک جھلک دیکھ لیںلیکن لگتا ہے کہ ایساکبھی ممکن نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ انہیں فوٹو سٹیٹ یا پھر کوئی آن لاین فارم بھرنے کیلئے کئی سو کلومیٹر دور کشتواڑ یا پھر اننت ناگ کا رخ کرنا پڑتا ہے جس میں انھیں دو دن لگ جاتے ہیںوہیں لوگوں کے پاس موبائل فون بھی ہیں لیکن انھیں چارج کرنے کیلئے سولر کا استعمال کرنا پڑتا ہے جبکہ لوگوں نے فریج و ٹی وی بھی لاکر رکھے ہیں جوصرف دکھاوے کے لیے ہی گھروں میں ہیں۔ بارہویں جماعت کی ایک طالبہ نے کہا کہ انکا خواب ڈاکٹر بننا تھا اور اپنی تعلیم دن رات کرنا چاہتی تھی لیکن ان حالات میں وہ اپنی تعلیم کیسے کرپائے گی جب بجلی میسر نہ ہو۔انہوںنے کہا کہ دن میں اگرچہ وہ کچھ گھنٹے پڑھ لیتی تھی لیکن شام کو پڑھنا ناممکن ہے کیونکہ علاقہ میں شام ہوتے ہیں ہر سو تاریکی چھاجاتی ہے اور پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب جاتاہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ضلع میں کئی بجلی پروجیکٹ تعمیر ہورہے ہیں اور پورے ملک کو سپلائی کی جاتی ہیں لیکن تعجب اس بات کا ہے کہ ہمیں ہی بجلی نہیں ہے۔
مواصلاتی نظام بھی علاقے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ محمد عرفان نامی نوجوان نے بتایا کہ علاقے میں ابھی تک موبائل فون استعمال کرنے کی کوئی مناسب سہولیت نہیں ہے اور ہم گاؤں کے ٹیلی فون بوتھوں سے کالیں کر سکتے ہیں جیسے لوگ تیس سال قبل کیا کرتے تھے۔انہوںنے کہاکہ اب جب کہ جیو کمپنی نے چند سال قبل چند ٹاورز بنائے لیکن ان کی سروس انتہائی خستہ ہے، فون پر بات بڑی مشکل سے ہوپاتی ہے اور انٹرنیٹ کی سہولت کا فقدان ہے۔انہوںنے کہا کہ علاقہ موسم سرما کے چھ ماہ دوسری دنیا سے مکمل طور کٹ کررہ جاتاہے اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انکاکہناتھا’’ہم مرکزی سرکار و جموں کشمیر انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ علاقہ میں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور علاقے کو مکمل طور جوڑا جائے تاکہ لوگوں کو اس جدید دور میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔