کافی عرصہ سے دہی علاقوں میں نامکتفی طبی خدمات کی شکایات بار بار اخبارات کی سرخیوں میں جگہ پاتی رہی ہی مگر کسی بھی حکومت نے ان شکایات پر توجہ دے کر وجوہات تلاش کرکے لوگوں کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ڈاکٹروں کی ایک اچھی خاصی تعداد، جنہیں ان علاقوں میں تعینات کیا جا تا ہے، اپنے مقام تعیناتی پر جوائن کرنے کی بجائے خو د کو شہروں میں منسلک کرواتے ہیں ۔کشمیر اور جموں کے نظامت صحت میں یہ ایک عام عمل ہے اور صاحب اثر و رسوخ ڈاکٹر صاحبان دور دراز دیہات اور پہاڑی علاقوں میں اپنی خدمات انجام دینے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے ان دور افتادہ خطوں میں عام لوگوں کو بنیای طبی سہولیات میسر نہ ہونے کی بنا پر پھر سرینگر اور جموں کے ہسپتالوں یا پھر پرائیوٹ کلنکوں کا رُخ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق فی الوقت کشمیر میں دیہی علاقوں میں قائم طبی مراکزکےلئے1481ڈاکٹروں کی اسامیاں منظور ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان میں سے570ڈاکٹر ایسے ہیں ، جو سرینگر کے مختلف ہیلتھ سینٹروں اور اسپتالوں میں کام کر رہے ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے خود کو نظامت صحت کے دفتر کے ساتھ منسلک کرواکے رکھا ہے، جہاں سے انہیں مختلف پرائمری ہیلتھ سنٹروں، سب ڈسٹرکٹ ہسپتالوں اور ضلع ہسپتالوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ ان میں میڈیکل آفسروں اور کنسلٹنٹوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی شامل ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس ساری کاروائی کی پشت پر سیاسی و دیگر نوعیتوں کا اثر و رسوخ کا ر فرماء ہوتا ہے اور متعدد حضرات ایسے ہوتے ہیں، جو شہروں میں اپنی پرائیوٹ پریکٹس متاثر ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ ان کی زندگی کا مدعا و مقصد پیسے کا حصول ہوتا ہے ۔ جموں صوبہ کے پیر پنچال اور چناب خطوں کا بھی ایسا ہی حال ہے اور انہی کالموں کے ذریعہ متعدد مرتبہ حکومت کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مگر معاملہ وہیں کا وہیں ہے کہ سنے کون اور کرے کون۔ آج بھی ان خطوں میں مریض سینکڑوں کلو میٹر کا خطرناک سفر طے کرنے پر مجبور ہو کر جموں شہر آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی حال وادی میں کپواڑہ اور کرناہ کے علاقوں کا ہے، جہاں بار بار کے عوامی مطالبات کے باوجود اُن اسامیوں پر تعیناتیاں نہیں کی جاتیں جو منسلک کئے جانے کی اس پالیسی کے بہ سبب خالی پڑی ہوئی ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیر اورجموں کی صحت نظامتوں کے اندر پیدا شدہ اس سقم، جو ایک متوازی پالیسی کی صورت اختیار کر چکا ہے، کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیکر اس عمل پر روک لگادے، جس سے نہ صر ف متعلقہ محکمہ کے بنیادی مقاصد متاثر ہوئے ہیں بلکہ اس سے انتظامیہ کے اندر ذاتی، سیاسی و دیگر اقسام کے اثر و رسوخ کو شہ ملتی ہے، جو بالآخر حقداروں کی حق تلفی کا سبب بن جاتا ہے۔ آج ہمار ےحکام اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور کے حاصل شدہ عروج کو چھونے کی کوشش کے دعوے تو ضرور کر رہے ہیں مگر جب اس نوعیت کے معاملات ، وہ بھی انسانی صحت کے ساتھ، سامنے آتے ہیں تو ان دعوئوں پر سے یقین اُٹھ جاتا ہے۔ فی الوقت دیہی و پہاڑی علاقوں کے اندر لوگوں کو علاج و معالجہ کے حوالے سے جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرناپڑ رہا ہے، وہ حکومت کی آنکھیں کھولنے کےلئے کافی ہونا چاہئے اور اسکا ازالہ کرنا اسکی اولین ترجیحات میں جگہ پانا چاہئے۔ اگر واقعی سرکار کو صحت عامہ کے شعبہ میں ماہرین کی کمی کا سامنا ہے تو اس کےلئے نئی بھرتی عمل میں لانے کے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے۔