’’ ہر ایک کتنا نزدیک ہے آج؟ یہاں بٹن دبائو وہاں بندہ حاضر۔‘‘
میں نے بڑے فخریہ انداز میں پوچھا۔
’’دادا ، جب آپ میری عمر کے تھے تو کتنا وقت لگتا ہوگا ایک چھوٹی سی بات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں۔ اتنی دور رہنا کتنا مشکل ہوتا ہوگا۔ میں تو سوچتے ہی گھبراتا ہوں۔‘‘
میں نے مزید پوچھا۔
’’ہائے وقت!‘‘
دادا، سرد آہ بھر کر بولا۔
’’کیا ہوا دادا‘‘
’’کتنی دوری بڑھ گئی ہے؟ یوں تو ہر شخص ایک بٹن کی دوری پر ہے لیکن کہاں وہ زمانہ جب ہم ایک دوسرے کو محسوس کیا کرتے تھے۔ وہ دوری اس نزدیکی سے ہزار درجہ اچھی تھی اور یہ دوری اُس دوری سے ہزار درجہ بڑھ کر ہے۔‘‘
رابطہ؛نوگام سوناواری،7006566516
ستاروں پہ کمند
لوگوں کی آہ و زاری اور ابتر حالت سے مطلق خبریں سن کر وزیر ٹس سے مس نہیں ہوا، ستاروں پر کمند ڈالنے کے پروجیکٹ میں تھوڑی سی تاخیر نے اُسے اس طرح آگ بگولاکر دیا جیسے کسی نے اربوں کا سرمایہ ستاروں پر چھوڑ رکھا ہو۔
ہمسائے
محلے میں پچاس گاڑیاں ہونے کے باوجود بھی جب مزدور رحیم گاڑی کا بندوبست نہ کر سکا تو اس کی بیوی اسپتال نہ پہنچ سکی اور وہ مر گئی۔ میّت کی آخری رسومات میں ہزاروں کا خرچہ محلے کے ذمہ داران نے اُٹھانے پر رضامندی ظاہر کی اور ساتھ ہی ساتھ محلے کے سرغنہ کے منہ سے یہ قابلِ ستائش بات نکلی :
’’ آخر ہم ہمسائے ہیں، ہم مدد نہیں کرینگے تو اور کون کرے گا۔‘‘