یہ کڑوا سچ اب اُبھر کر سامنے آرہا ہے کہ آج کے اس خلفشاری،انحرافی ، بے حیائی،بد دیانتی ،مُنشیاتی ا ورجدیدٹیکنالوجی دور میںعام لوگوں کے لئے اپنے اہل و عیال کی پرورش نہ صرف ایک پیچیدہ صورت حال اختیار کرگئی ہے بلکہ ایک بڑاچیلنج بھی بن گئی ہے۔خصوصاً وہ لوگ جو اپنے بچوں میں دیانتداری،فرض شناسی ،انصاف پسندی ،حیاداری اور ایمانی اقدار کے اوصاف سے مستفید کرنا چاہتے ہیں، وہ موجودہ ناہنجاری صورت حال اور تیز رفتار ڈیجیٹل منظرنامے کے پیش ِ نظرایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیںاورنہ ہی اس بابت استعمال کی جارہی اپنی حکمت عملیوں کے بہتر نتائج پارہے ہیں۔اکثر لوگ اپنی اولاد میں جو بصیرت لانا چاہتے ہیں،وہ زمینی سطح پر پھیلے ہوئے ماحول کے باعث نہ پروان چڑھتی ہے اور نہ ہی فروغ پا نے کے قابل رہتی ہے۔ظاہر ہے کہ آج تمام چیلنجوں میں سے ایک اہم چیلنج ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی ہر جگہ موجودگی ہےجو بچوں کی اقدار، خواہشات اور طرز عمل کو مختلف طریقوں سےمتاثر کردیتے ہیں۔ٹِک ٹاک،انسٹگرام اور یو ٹیوب جیسے پلیٹ فارمزکی بہتات ہے جولوگوں کی توجہ اپنی طرف حاصل کرنے کے لئے زیادہ تر غیر ذمہ دارانہ مواد پر مشتمل مشغولیت کے پروگرامز کو ڈیزائن کرتے ہیں،جس کے نتیجے میںنہ صرف نوجوان طبقے بلکہ کمسن بچےبھی دبائوکے شکار ہوکراُنہی نظریات سے روشناس ہورہےہیں، جن کا اخلاقی پرورش کے ساتھ ہم آہنگ ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے ایسے موادنے ماحول کو اتنا پراگندہ بنادیا ہے کہ اب نوجوان ،کم عمرنسل اوربچے تک اپنی خوبصورتی، کامیابی اور خوشی کے غیر حقیقی معیارات کے مطابق ہی خود کو ناپتے رہتے ہیں۔ جس سے اُن کی خود اعتمادی متاثر ہورہی ہے اور وہ اپنے یا اپنے خاندان کے اندر تکمیل ِ ایمان تلاش کرنے کے بجائے اِنہی ذرائع کے نازیباموادسے توثیق حاصل کرنے لگتے ہیں۔جس کے نتیجے میں صالح لوگوں اورنیک والدین کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے اور اُن پر مزید ذمہ داریاں آن پڑی ہیں۔گویا اب صالح لوگوں ،خصوصاًوالدین کے لیے یہ ضروری بن گیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے ذمہ دارانہ استعمال کو ماڈل بنائیں اور اسکرین ٹائم اور ڈیجیٹل مصروفیت کے ارد گرد حدود متعارف کرائیں۔ صحت مند معمولات قائم کرنے اور مواد کی تیاری بچوں کو ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے مغلوب ہوئے بغیر اس کے مثبت پہلوؤں کا تجربہ کرنے کی اجازت دیں۔موجودہ دور کا جدید سسٹم ایک ایسے عالمی نظریے کو فروغ دے رہا ہے جو اکثر مذہبی یا اخلاقی اقدار سے متصادم ہوتا ہے، خاص طور پر جب بات کامیابی، تعلقات اور ذاتی آزادی کے خیالات کی ہو۔جبکہ غیر معمولی تعلقات، مادیت پرستی اور انفرادیت کو معمول بنانے سے بچے کی عاجزی، ہمدردی اور خود نظم و ضبط کی تعلیمات پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہےاور اس سے اُن میںایک ایسا اندرونی تنازعہ پیدا ہوتا ہے،جس میں وہ اپنی شناخت اور اقدار کے بارے میں غیر یقینیت کا شکار ہوجاتےہیں اوراپنے خاندان کے روحانی یا اخلاقی اصولوں سے بیگانگی کا باعث بنتے ہیں۔ آن لائن اور میڈیا میں واضح مواد کی وسیع پیمانے پر دستیابی ایک تشویشناک بات ہے اوراُن کا مواد ہمارے نوجوانوں اور بچوں کے لئے معمول کاطرز عمل بن جاتا ہے جو نہ صرف اُن کے ذہنوں کے لیے نامناسب ہےہیں بلکہ اُن میں شائستگی اور احترام کی قدروں کو بھی ختم کردیتا ہے۔ایسی صورت حال میںوالدین کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر موضوع پر اپنے بچوں کے ساتھ دل کھول کر باتیں کریں اور ایسا ماحول بنائیںجس میںبچوں کو بیرونی اثرات کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اپنے والدین سے رہنمائی حاصل کرنے کی ترغیب ملے۔ اسی طرح روحانی تعلیمات کو روزمرہ کی زندگی میں شامل کرنا، رحمدلی، دیانتداری اور ہمدردی کی اقدار پر بحث کرنا، ان مثبت اصولوں کو تقویت دے سکتا ہے۔ جب بچے محسوس کرتے ہیں کہ وہ مشکل موضوعات پر آزادانہ گفتگو کر سکتے ہیں، تو وہ ان اقدار کو اپنے ذاتی فریم ورک میں ضم کرسکتے ہیں۔بے شک اس ناہنجاری دور میں صالح بچوں کی پرورش ایک چیلنج ہے،جس کا مقابلہ کرنا ہرگزناممکن نہیں ہے۔ بس !ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو محبت، کھلی بات چیت، روحانی رہنمائی اور جذباتی مدد سے مزّین ہو، اور مسلسل کوششوں کے ذریعے، والدین اپنے بچوں میں ایک مضبوط اخلاقی بنیاد ڈال سکتے ہیں جو انہیں حکمت، دیانت اور محنت کے ساتھ زندگی کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کی قوت دے گی۔