شفیق الرحمن خالدؔ
خدا نے علم بخشا ہے ادب احباب کرتے ہیں
یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا
تعلیم کسی بھی شخص کے انفرادی اور قوم وملت کے اجتماعی تشخص کی بقا اور خوشحال زندگی گزارنے کے لیے لازمی عنصر ہے ۔یقینا ًتعلیم سے کسی فرد بشر کو مستغنیٰ نہیں گردانا جاسکتا، بلکہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اس کا حصول ایک فریضہ ہے ، جیسا کہ ہادی عالم، رہبرِمعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ۔’’ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٌ‘‘(علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔)
جس عظیم شے پر افراد وقوم کی بقا کا انحصار ہو اور وہ دینی فریضہ بھی قرارپائے تو ایسے میں اس کے حصول کی خاطر جن بھی ذرائع اور وسائل کا استعمال کیا جائے گا وہ بھی عظیم اور قابلِ قدر ہی ٹھہریں گے کیونکہ قاعدہ ہے کہ ’’سبب کا حکم مسبب کے حکم میں داخل ہوتاہے ۔‘‘تو باور ہو اکہ قلم وکتاب ، اُستاد ومدارس اور تما م علمی وادبی دانشگاہیں محترم ومعظم ہیں ۔
آج کے اس ترقی یا فتہ دور میں جب اکتشافاتِ جدیدہ کی چکا چوندکرنیں چہارسو منتشر ہیں اور ہم بالیدگی کے اعلیٰ معیار پر فائز ہونے کے مدعی ہیں اُتنے ہی ہم تہذیب واخلاق کے پیمانے میں تنزلی کا شکار ہورہے ہیں ۔ مثلاً سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا )کے بے جا استعمال سے ہم اپنے احباب واقارب سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں ۔ بلکہ خوشی وغمی میں بالمشافہ شرکت کو وقت کا ضیاع سمجھنے لگے ہیں۔ اعزاوقربا کے حقوق سوشل میڈیا کے پیغامات سے پورا کرکے اپنے کو ذمہ داریوں سے سبک دوش سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ مادہ پرستی کے اس دور میں ذاتی منفعت پسندی کا یہ عالم ہے کہ اب ہم خونی رشتوں کے تئیں فراغت کے چند خوشگوار لمحات گزارنے میں بھی عار محسوس کرتے ہیں اس پہ ماتم نہیں تو اورکیا ہونا چاہیے ؟
بات یہاں تک ہی محدود رہتی تو حزن وملال ذرا کم تھالیکن شومئی قسمت کہ سب سے مقدس رشتہ رشتہ تعلیم کے تانوں بانوں کا ستیا ناس کرنے میں بھی جدت پسندی نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔معاشرے کی دینی واخلاقی تربیت کے مابین پہلے پہل الیکٹرانک بعد ازاں سوشل میڈیاحدِ فاصل بنتے ہوئے بہت حد تک مخربِ اخلاق تو بن ہی چکا تھا اس پر مستزاد آن لائن تعلیم، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل کلاسز نے اوّلین مخلوقِ الٰہی قلم وقرطاس کی اہمیت محدود اورکتب بینی کی جانب رُجحان کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مذکورہ کل متاع استاد و شاگرد کے مبارک رشتے کی قدروں کو پامال کرنے کا باعث بنا ہے۔ یہاں پہ جدید سہولیات کو شجر ممنوعہ قرار دینا ہر گز مقصودنہیں ہے ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال :
آئین نو سے ڈرنا طرز گہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بلکہ مد عا صرف یہ ہے کہ اس رشتے کے لیے متعین شدہ از لی اور ابدی اقدار کو صرف نظر کر کے اگر کچھ حاصل کر بھی لیا جائے تو وہ واقعی سود مند اور دیر پا ثابت نہیںہوسکتا۔
ستم گری کے اس ماحول میں اساتذہ اپنے مقام سے نا آشنا اور طلبہ اساتذ ہ کی قدر و منزلت سے نا بلند ہو چکے ہیں۔ اس بے حسی کے عالم میں روز بروز اساتذہ بد تمیزی اور بداخلاقی کے شکار ہورہے ۔ جس کی وجہ سے مقصد تعلیم بری طرح متاثرہو رہا ہے۔ طلبہ پڑھ لکھ کر علم و ادب سے عاری رہتے ہیں اور مستقبل میں مختلف معاشرتی برائیوں وخرابیوں کا موجب بنتے ہیں، ایسے میں طلبہ ماہرین فن اگر بن بھی جائیں لیکن
معمارِ قوم و انسانیت ہر گز نہیں بن سکتے ۔ بلکہ بذات خود ایک اچھا انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں بن پاتے۔ جس تعلیم سے روحانی تسکین لا حاصل ہو ، جو پڑھائی انسان کو بے عیب ، پاک و صاف اورپر سکون زندگی بسر کرنے کا سامان بہم نہ پہنچا سکے ایسی تعلیم کا کیافائدہ ؟
بقول علامہ اقبالؒؔ:
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
تعلیم تو ایسی ہونی چاہیے جو انسان کو قابلِ رشک اور قابلِ تقلید شہری بنا سکے ،تعلیم انسان کو زندگی کی ورق گردانی کے لیے رہنما اصول اور بہترین روڈ میپ فراہم کرنی چاہیے تب ایک پڑھے لکھے شخص کو ہم حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ کہنے کے حقدار ہیں۔
الغرض تعلیم کے ذرائع میں اُستاد ایک ایسا عنصر ہے جس کا مقام نہایت اعلیٰ و ارفع ہے اس کو در کنار کر کے کوئی میدان سر نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا طلبہ ہوں یا ان کے معزز والدین بہر صورت ایک اتالیق کے سامنے اپنے کو نرم گو اور خوش خوثابت کریں۔ بوقتِ ملاقات اُن سے ہمیشہ خندہ روئی اور خوش مزاجی سے پیش آئیں۔ بعینہٖ اُن تعلیمی اداروں کی قدر کریں ، جو ہمارے جگر گوشوں کو علم و ادب کے زیور سے آراستہ کرنے میں ہمارے ممدو معاون ہیں۔ یہی تو ہماری کلیوں کو مستقبل کا ایسا کھِلتا ہو گُلِ بے خاربنار ہے ہیں جو اپنی مہک سے ساری قوم کو معطر کرنے والے ہیں اور والدین کے سرِ فخر کوبلند کرنے کا ذریعہ بننے والے ہیں۔
یہ بات الگ موضوع رکھتی ہے کہ چند افراد یا ادارے نجی مفادات میںغوطہ زن اپنے فرائض منصبی کی کما حقہ ادائیگی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ قطع نظر اس کے، یہاں صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ کوئی بھی معلم یا ادارہ صفات ملائکہ سے متصف نہیں ہوتا ان سے بھی بسا اوقات دانستہ یا نادانستہ سہوو خطا کا اِرتکاب قدرتی امر ہے۔بہر صورت ہمیں اُن سے خیر خواہانہ جذبے کے ساتھ پیش آنا چاہیے، ایسے مواقع پر ہمارا رویہ جارحانہ نہیں بلکہ ناصحانہ ہوناچا ہیے ۔ بالآخر وہی تو نونہالانِ قوم کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اُٹھائے ہوئے ہیںوہی تو تعلیمی بحرِبیکر اں کی سفینہ وناخدا کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
کتنی بد قسمتی و شوم نصیبی کا محل ہوتاہے تب ۔جب بعض دفعہ ہم بچوں کے سامنے اُن کے اساتذہ و ادارے کے ساتھ دست و گریباں ہو جاتے ہیں ۔طلبہ کے روبرو مدرسین اور ذمہ دارانِ مدارس کے ساتھ بے ہودہ مخاصمت؟ کبھی سوچا ہے کہ اس روش سے بذات خود والدین اپنے بچوں کے اخلاق کو کس سمت لے جارہے ہیں؟
بہر کیف دونوں فریقین اساتذہ اورتعلیمی ادارے اورطلبہ و اُن کے والدین کومثبت تعمیری سوچ کے ساتھ اپنے فرائض نبھانا وقت کی یہ اشد ضرورت ہے ۔جہاں اوّل الذکر کو نجی مفادات و استحصال سے مبرا ومنزہ رہ کر مخلص ہونا لازمی ہے۔ وہاں ثانی الذکر کو بھی اپنے افکار و رویوں میں گہری تبد یلی لاتے ہوئے اساتذہ و تعلیمی اداروں کے تئیں ناصح و ہمدرد اورمہذب وشائستہ بننا لازم وملزوم ہے ۔دونوں کو اپنے اپنے مقام وحقوق حاصل ہوں گے تو ان شاء اللہ ہم بہتر سسٹم ، روشن مستقبل اور بااخلاق معاشرے کے قیام کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مخلصانہ کاوشوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔آمین
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
رابطہ۔7006135445