محمد امین اللہ
یوں تو ہر ذی روح کو ایک دن مر کر مٹی میں مل جانا ہے ۔ تمام اہل کتاب تو اپنے مردوں کو قبر میں ہی دفن کرتے ہیں ۔ قبر کا نام سنتے ہی آدمی کو اپنا انجام نظر آنے لگتا ہے ۔
کل نفس ذائقہ الموت ۔ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ باقی رہ جانے والی تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔
آج کی دنیا کا انسان : فی الارض کی وجہ سے روز مر رہا ہے اور روز جی رہا ہے ۔ جس کے بے شمار وجوہات ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ خوب سے خوب تر کی تلاش ہے ۔ آرزوؤں کے سیلاب میں آدمی اس قدر ہاتھ پاؤں مارتا ہے کہ وہ کنارے پر پہنچنے سے پہلے ڈوب جاتا ہے۔
زندگی تجھ کو پانے کے لئے اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے، نفس امارہ اس کا گھر ہے ۔ پہلے وہ انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور ترغیبات نفس کے پُر کشش سامان، تخیل کی آنکھوں سے دکھاتا ہے پھر اس کے حصول کے لئے دل میں آرزو پیدا کرتا ہے ۔ جب آرزو پوری نہیں ہوتی ہے تو آدمی پہلے احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے ، پھر مایوس ہو کر ذہنی مریض بن جاتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کے معاملات میں اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھو ،کیونکہ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ ایسے ملیں گے جن کے پاس دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ۔مگر دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر لوگوں کو دیکھو تاکہ تمہارے اندر لِلہٰیت پیدا ہو۔مگر آج کی مادہ پرست دنیا میں نئی ایجاد شدہ ٹیکنالوجی نے جسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے مختلف عنوانات سے جانتے ہیں انسانوں کو زندگی کی وہ پُر کشش اور ذہنوں کو سحر زدہ کرنے والے مناظر آڈیو ویڈیو کی صورت اس قدر طلسماتی انداز میں دکھاتا ہے کہ ہر دیکھنے والا دیوانہ ہو کر اسی طرح کی آسائش زندگی کے حصول میں جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام انسانوں کو مختلف شکل وصورت ، قد کاٹھ ، اور مالی حوالے سے مختلف حیثیت کا بنایا ہے ۔ اگر ہر انسان اک جیسا ہوتا تو معاشرتی زندگی میں کوئی کسی کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کے ساتھ محبت اور رواداری برتتا ۔
آج کا سوشل میڈیا چھوٹے بچوں کے پیمپر جیسا ہو گیا ہے کہ مائیں بچوں کا پیمپر ہر تھوڑی دیر کے بعد چیک کرتی ہیں کہ بچے نے کہیں گیلا تو نہیں کر دیا ہے ، ٹھیک اسی طرح سمارٹ فون استعمال کرنے والا شخص ہر تھوڑی دیر کے بعد چیک کرتا ہے کہ کہیں کوئی پیغام تو نہیں آیا ہے یا اس نے جو پوسٹ لگائی تھی ،اُس کو کتنے لوگوں نے لائک کیا ہے اور کتنے لوگوں نے مثبت یا منفی کمینٹ کیا ہے۔ اگر منفی کمینٹ آیا ہے تو اس کے جواب در جواب میں لگ جاتا ہے اور باقی تمام باتوں کو بھول کر اسی کام میں لگ جاتا ہے ۔گھر میں دفتر میں ، دوستوں کی محفل میں ہو، جہاں کہیں ہو، بس اسی میں مشغول ہو جاتا ہے ۔ اس میڈیا کی جادو گری کا عالم یہ ہے کہ اس نے آدمی سے تعزیت ، عیادت ، مزاج پرسی اور خیر خواہی کے تمام دیرینہ انداز کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ دسترخوان پر بیٹھے ہیں اور منہ میں نوالے کے ساتھ موبائل کے اسکرین پر چلنے والے مناظر سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ اگر کسی لیڈر یا افسر سے ملاقات کرنے جائیں تو وہ آپ کی آدھی بات ہی سنتا ہے کیونکہ اس کا دھیان تو ہاتھ میں موجود موبائل اسکرین پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ کے اجلاسوں کے دوران ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ممبران اپنے موبائل کو دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں، حتیٰ کے حج و عمرہ جیسی مقدس عبادات کے دوران لائف مناظر دکھائے میں لوگ مصروف ہوتے ہیں۔ گھر میں میاں بیوی بچے یا دیگر فیملی کے افراد ڈرائنگ روم میں ایک ساتھ بیٹھ کر بھی ایک ساتھ نہیں ہوتے بلکہ اپنے اپنے موبائل سے کھیل رہے ہوتے ہیں بچے گیم میں ،والدین ٹک ٹاک دیکھنے میں یا پھر جہاں کرکٹ میچ ہو رہا ہو، تو اسے دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق تبصرہ کر رہا ہوتا ہے ۔ اچانک ایک چیخ ابھرتی ہے جب کوئی آؤٹ ہو جاتا ہے یا اپنی ٹیم کا کوئی کھلاڑی چھکا چوکا مارتا ہے یا کوئی بغیر لحاظ کئے بھدی سی گالی کیچ چھوٹ جانے یا امپائر کے غلط فیصلے پر دے ڈالتا ہے ۔
لوگ رات گئے تک مختلف عنوانات سے آڈیو ویڈیو سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں حتیٰ کہ ہاتھ میں موبائل پکڑے ہی سو جاتے ہیں، انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ سونے سے پہلے توبہ استغفار کر لیں ،کیا پتا سو کر اٹھیں گے یا نہیں ۔ موبائل دیکھتے وقت بچوں کی یا بیوی کی مداخلت تک برداشت نہیں ہوتی ۔ جس طرح قبرستان میں مردے ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے، موبائل دیکھنے میں مصروف انسان بھی کسی سے بات کرنے کا روا دار نہیں ہوتا ۔
دنیا کے تمام بڑے شہروں میں آدمی اپنے کام میں اس قدر مصروف ہوتا ہے کہ اسے اپنے تفنن طبع کے لئے وقت ہی میسر نہیں ہوتا، لہٰذا وہ جب تھکا ہوا گھر لوٹتا ہے تو کھا پی کر فوراً موبائل دیکھنے میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں بے روزگای کی شرح بہت زیادہ ہے، لہٰذا بے کار نوجوان ٹولیوں کی شکل میں موبائل دیکھنے اور خود کو اخلاقی بیماریوں کا خو گر بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ چیٹنگ میں اور وڈیو کال میں مشغول رہتے ہیں ۔ اداسی ، احساس کمتری نے ذہنی تناؤ میں بے پناہ اصافہ کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ موبائل اسکرین میں جائے پناہ حاصل کرتے ہیں ۔لہٰذا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ آدمی اس کا عادی ہو جاتا ہے اور نشہ جیسی لت پڑ جاتی ہے ۔ موبائل بینی سے اعصابی بیماریوں میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی نے لوگوں کو طلسماتی دنیا میں پہنچا دیا ہے ۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں لوگ شادی شدہ زندگی گزارنے کے بجائے Visual wife سے دل بہلانے لگے ہیں ۔
اسمارٹ فونز پر مختلف قسم کے واہیات اور ذہنوں کو پراگندہ کرنے والے کھیل میں لوگ اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ رات رات بھر جاگتے ہیں ۔ پچھلے دنو بلیو وھیل نام کے کھیل کی وجہ سے پوری دنیا میں سیکڑوں نوجوانوں نے خود کشیاں کیں ۔ اس کے بعد Pub G نام کا کھیل اَپ لوڈ ہوا، جس نے تمام شعبہ زندگی کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے ۔ اس کے علاوہ آن لائن جوا کھیلنے کے ایپس بھی موجود ہیں ۔ سب سے ہلاکت خیز جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے والے ویڈیوز ہیں، جس نے اخلاقی تباہی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ بچے اب وقت سے پہلے بلوغت کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کے جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی جوانی برباد کر دیتے ہیں ۔ ٹک ٹاک کے ذریعے سے پیسہ کمانا آسان ہو گیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ آپ کی نازیبا حرکات کے چاہنے والے زیادہ سے زیادہ ہوں، لہٰذا اس کماس کے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور لوگ شہرت پانے کے لئے تمام اخلاقی حدوں کو پامال کر رہے ہیں ۔