یہ امر اطمینان بخش ہے کہ جموں و کشمیر میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی شرح 5سال میں 0.91فیصد کم ہو گئی ہے۔ نیشنل ہیلتھ مشن کی جانب شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014سے لیکر 2019تک زچگی کے دوران 649خواتین کی موت ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران ملکی سطح پر زچگی کے دوران فوت ہونے والی خواتین کی شرح 7.32فیصد رہی۔یہ تصویر کا ایک پہلو ہے اور یقینی طور پر باعث اطمینان ہے کیونکہ نیشنل ہیلتھ مشن کے آنے سے قبل ادارہ جاتی زچگیاں بہت کم ہوتی تھیں اور نتیجہ کے طور پردوران زچگی اموات کی شرح بھی زیادہ رہتی تھی تاہم این ایچ ایم کے بعد جس طرح یہ بات یقینی بنائی گئی کہ تمام زچگیاں ہسپتالوں میں ہی ہوں تو ا سکے نتیجہ میں زچہ و بچہ کی سلامتی یقینی بنائی گئی اور یوں شرح اموات نہ ہونے کے برابر رہی تاہم اسی عرصہ میں ایک اور تشویشناک رجحان سامنے آیا جو جراحی کے ذریعے زچگی کا ہے ۔ مرکزی وزارت صحت و خاندانی بہبود کی جانب سے حال ہی میں جاری کئے گئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق جموں و کشمیرسیزرین سیکشن (سی-سیکشن) پیدائش کے معاملہ میں تمام ہندوستانی ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دوسرے نمبر پررہا ہے۔
مذکورہ سروے کے مطابق جموں و کشمیرمیں42.7فیصد زچگیاں جراحی کے ذریعے عمل میںلائی جاتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ 100میں سے قریب43زچگیاں جراحی کے ذریعے ہوتی ہیں۔جب ہم نجی صحت کے اداروں میںزچگی کے اعدادوشمار دیکھتے ہیں تو صورتحال جموں و کشمیر کیلئے بدترین ہے کیونکہ سروے میں کہاگیا ہے کہ جموں وکشمیر کے نجی ہسپتالوں میں82.1 فیصدزچگیاں جراحی کے ذریعے ہوتی ہیںجس کا مطلب ہے کہ ہر 100 زچگیوں میں 82 زچگیاں سرجری کے ذریعے کی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق، سی سیکشن ڈیلیوری ماؤں اور بچوں کیلئے ایک جان بچانے والا طریقہ ہے جب حمل یا زچگی کے دوران کچھ پیچیدگیاں ظاہر ہوتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق آبادی میں سی سیکشنز کی شرح 10-15 فیصد ہونی چاہیے۔ یہ شرح اس حقیقت کی نمائندگی کرتی ہے کہ جب ناگزیر ہوںتو سی سیکشنز مؤثر طریقے سے زچگی اور نوزائیدہ اموات کو روک سکتے ہیں۔ہنگامی حالات میںسی-سیکشنز ماؤں اور بچوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں لیکن انتخابی سی-سیکشنز کے لئے اسی طرح کے نتیجے کی حمایت کرنے والا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے۔ درحقیقت مؤخر الذکر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ماہرین کے نزدیک جموں و کشمیر میں جراحی کے ذریعے زچگی میں خطرناک حد تک اضافہ باعث تشویش ہے اور ان کے نزدیک اس تشویشناک رجحان کی بنیادی وجہ نجی صحت کے اداروں کا لالچ اور عوامی صحت کے اداروں میں مریضوں کا رش ہے۔
زچگی بذریعہ جراحی سے وابستہ کئی خطرات ہیںجن میں انفیکشن اوراسقاط حمل شامل ہیں جبکہ سی سیکشن کے نتیجہ میں نارمل ڈیلیوری کے مقابلہ میں مائوں کی شرح اموات کا 2.84 گنا زیادہ خطرہ رہتا ہے ۔سی سیکشن کا انتخاب کرنے والی مائیں بعد میں ہونے والے حمل کو بھی خطرے میں ڈالتی ہیں اور مستقبل میں اندام نہانی کی پیدائش کے امکانات کو کم کرتی ہیں۔ بچوں کیلئے خطرات میں سرجن کے چاقو سے حادثاتی طور پر کاٹا جانا ، الرجی، بچپن میں موٹاپا، سانس کی تکلیف شامل ہیں۔ظاہر ہے کہ تمام ڈاکٹر ان پیچیدگیوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نجی صحت کے اداروں میں سی سیکشن ڈیلیوری کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ سی سیکشن کی قیمت نارمل ڈیلیوری سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں اوسطاً ڈلیوری کے طریقہ کار (سی سیکشن) کے چارجز جس میں ہسپتال میں قیام اور ادویات شامل ہیں، تقریباً 25,000 سے 1 لاکھ روپے تک ہے جبکہ نارمل ڈیلیوری کے چارجز بہت معمولی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نجی نرسنگ ہومز/ہسپتال جراحی کے ڈیلیوری پر زور دیتے ہیں۔اگر چہ دوران زچگی اموات کی شرح یہاں کم ہوچکی ہے جس پر اگر اطمینان بھی کیاجائے تو کوئی حرج نہیں تاہم جس طرح سی سیکشن زچگی کا چلن عام ہوچکا ہے اوراسی طرح کا رجحان اب سرکاری ہسپتالوں میں بھی عام ہوچکاہے،وہ یقینی طور پر ایک بہت بڑی تشویش ہے۔گوکہ اب حکومت خواب غفلت سے بیدار ہوچکی ہے اور سی سیکشن آڈٹ شروع ہوچکا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ صحت کے اداروں، سرکاری اور نجی دونوں میں نارمل اور سی سیکشن ڈیلیوری کا مناسب آڈٹ ہونا چاہئے اور ایسے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے جو غیر ضروری طور پر سی سیکشن ڈیلیوری کے لئے جاتے ہیں۔