سرینگر // ریاستی ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت صوبائی انتظامیہ نے دودھ گنگا میں ناجائز تجاوزات کیخلاف ایک زور دار مہم شروع کرکے نالے میں لگائے گئے ہزاروں درخت اور بعض رہائشی ڈھانچے ہٹانے کا آغاز کیا ہے۔3روز قبل ایڈیشنل کمشنر کشمیر، تحصیلدار نٹی پورہ،اری گیشن اینڈ فلڈ کنٹرول انہدامی سکارڈ، ریاستی پولیس اور دیگر متعلقہ افسران اور عملے نے منی کالونی چھانہ پورہ کی پچھلی طرف دودھ گنگا نالے میں غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کی کارروائی کا آغاز کیا۔پچھلے 3روز سے جاری مہم کے دوران نالے میں لگائے گئے قریب 2000درختوں کو کاٹا جاچکا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ نامساعد حالات میں محکمہ مال کے اہلکاروں نے ملی بھگت کر کے کئی افراد کے نام نالہ کی اراضی کردی اور آج تک اس میں ملوث اہلکاروں کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔چند لوگوں کا دعویٰ ہے کہ نالے میں برسوں پہلے انکی ملکیتی اراضی ہے لیکن فلڈ کنٹرول ڈویژن کا کہنا ہے کہ لوگوں نے نالے کو ہی اپنے نام کرلیا ہے جس کی وجہ سے نالے کے دونوں کناروں پر بنڈ کی سطح بڑھائی نہیں جاسکی ہے جس سے کبھی بھی سیلاب کا خطرہ ہوسکتا ہے۔انہدامی کارروائی میں نہ صرف نالے کے بیچوں بیچ غیر قانونی طور پر لگائے گئے ہزاروں درخت کاٹے گئے بلکہ نالے کی اراضی پر قبضہ چھڑانے کی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے۔ جموں و کشمیر بینک کی پچھلی طرف خان محلہ ہاوسنگ کالونی میں درجنوں افراد نے نالے پر کچن، بیت الخلاء،سٹور اور دیگر تعمیرات کھڑی کی تھیں۔حتیٰ کہ کچھ لوگوں نے مکان بھی تعمیر کئے تھے۔اتنا ہی نہیں بلکہ نالے کی اراضی پر دیوار بندی بھی کی گئی ہے۔ان غیر قانوں تعمیرات کو منہدم کیا جارہا ہے اور اسے مکمل کرنے کے بعد بنڈ کی سطح بڑھانے کا آغاز کیا جارہا ہے تاکہ چھانہ پورہ کے اس پورے علاقے کو دودھ گنگا نالہ کو سیلاب کے خطرے سے محفوظ کیا جاسکے۔2013کے سیلاب کے بعد محکمہ اری گیشن اینڈ فلڈ کنٹرول نے اس نالے کے بنڈ کی سطح بڑھانے کا عمل شروع کیا تھا لیکن چھانہ پورہ منی کالونی میں بعض افراد نے یہ کہہ کر بنڈ کی سطح بڑھانے کیلئے نالے سے مٹی اٹھانے کی اجازت نہیں دی، کہ نالہ کے بیچوں بیچ زمین انکی ملکیت ہے۔چند لوگوں کے اعتراض کے بعد بنڈ کی سطح بڑھانے کا عمل روک دیا گیا اور یوں دیگر ہزاروں لوگوں کو خطرہ کا سامنا کرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔مقامی لوگوں نے صوبائی انتظامیہ کی اس کارروائی کی ستائش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔