جو چیز انسان کو وحشیانہ پن ،درندگی ،بر بریت ،بے شعو ری ، بے اختیار ی اور خود فراموشی کے گرداب سے نکال کر ایک مہذب، متمدن،خود آگاہ اورصاحب شعور انسان بناتی ہے ، وہ ہیـــ تعلیم کا نور۔یہی وہ ہتھیار ہے جس سے قومیں ترقی کے اُفق پر بلندیوں تک پہنچتی ہیںلیکن آئے دن ملک بھر میںتعلیمی نظام پر جس طرح سے حملے ہو رہے ہیں ،اس سے ہر با شعور انسان واقف ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی وقتاـ ـــ۔فوقتا اس حقیقت کو تسلیم کر کے نظام تعلیم کی بہتری کے لئے مختلف اصلاحی طریقے اپنائے گئے مگر یہ کاوشیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ چنانچہ ریاست میں کولیشن سرکار آنے کے بعد تعلیمی نظام کو دُرست کرنے کے لئے کئی کوششیں کی گئی تھیں ۔ اس وقت کے وزیر تعلیم نے ایک قد م ر ہبر تعلیم اساتذہ کی طرف بھی بڑھایا تھاکہ ان کی قابلیت اور صلاحیت کی جانچ اور ان کی ڈگریوں کی پر کھ کی جائے ۔ بتایا جاتاہے کہ ایک اسکول میں رہبر تعلیم ٹیچر کو گائے پر مضمون نہ لکھ سکنے کی وجہ سے یہ قدم بڑھایا گیا تھا ۔ اس ا قدام پر ریاست میں طرح طرح کی چہ مے گوئیاں ہوئی تھیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس کی ہر طرح سے مخالفت کی ، حالانکہ وقت کے وز یر تعلیم نے اساتذہ کی پیشہ ورانہ حالت ِزار دیکھ کر ہی ریاست بھر میں آر۔ٹی ۔ٹیچرس کا اسکریننگ ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ لیا تھا ۔ اساتذہ ا س کا لے دھبے کو مٹانے کیلئے ریاست بھر میں ہڑتال اور مظاہرے کرنے لگے اورجگہ جگہ اس معاملے پر کچھ عجیب طرح کا ردعمل پیدا ہو ا ۔ سب نہیں بلکہ صرف چند ایک آرٹی ٹیچرس جانتے تھے کہ اگر ان کا اسکریننگ ٹیسٹ ہوا تو شایدہی ان کی کشتی پار لگ جائے ،ا س لئے یہ مخصوص اساتذہ اس ٹیسٹ کے بالکل خلاف تھے اور واضح کیا کہ وہ بالکل بھی اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر جو کوئی ایک استاد جو ایک گائے پر مضمون نہ لکھ سکے ، وہ بچوں کو کیا پڑھاتا ہو گا ؟چونکہ ریاست بھر میں آرٹی اساتذہ گورئمنٹ اسکولوں میںغر یب لوگوں کے بچوں کو پڑھاتے لکھاتے ہیں ، جب کہ مالداروں کے بچے بچیاں اچھے اچھے پرائیوٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ غریب طلبہ وطالبات کے مستقبل کا فیصلہ ان ہی اساتذہ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو اگر فرض شناس اور باصلاحیت ہوں تو طلباء کی تقدیریں بنتی ہیں مگر افسوس کہ ان میں سے بعض غریب بچوں بچیوں کی قسمت کھوٹی ہوتی ہے کہ ان کا مستقبل تاریک ہو کر رہتا ہے کیونکہ ان کی تعلیم وتربیت کی لگام قابل استادوں کے ہاتھوں نہیںہوتی ۔اس قصور کا دوشی ہر استاد کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا ، صرف مٹھی بھر اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جو بذات خودصلاحیتوں کے فقدان غریب بچوںکا مستقبل تاب ناک بنانے میں نا کام رہتے ہیں۔ یہ کم نصیب بچے غریب والدین کے چشم وچراغ ہوتے ہیں جن کا مستقبل اندھیروں میں لڑھک جاتا ہے،یہ سب صرف نا ابل اساتذہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہ ناکام بچے ظاہر سی بات ہے ان غرباء کی اولادیں ہوتے جن کے پاس اتنے پیسہ نہیں ہوتا کہ پرائیوٹ اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کر پائیں۔ وہ مجبورا ًاپنے بچوں کو ان سرکاری اسکولوں میں داخل کراتے ہیں جہاں غبی قسم کے اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصر رہتے ہیں ۔ اس قماش کے اساتذہ کا تعلیمی معیار ہی اتنا گرا ہوا ہوسکتا ہے کہ گائے پر مضمون لکھنے سے قاصر ر ہیں ۔ ایسے اساتذہ ان غریب بچوں کو کیا خاک جدید دور کے compititionکے لئے تیار کر پا ئیں گے؟یہ لوگ کلاس میں آکر اسی اعلان پر اکتفا کر کے اپنی موٹی تنخواہ حلال کر تے ہیں کہ بچو! صفحہ نمبرفلاں کے سوال نمبر فلاں کو یاد کر کے آجانا۔غور طلب ہے کہ ا س قسم کے اساتذہ ہوں یا دوسرے نااہل سرکاری ملازم ، اُن کی عدم کارکردگی سے قوم کے ٹھیکیداروں کا کیا جاتا ہے؟ ان کے اپنے بچے بچیاںتو اعلیٰ پایہ کے اسکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیوں یا بیرونی ممالک کے چیدہ چیدہ تعلیمی ادروںمیں تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ وہاں سے فارغ ہوکر کل کو ہماری اگلی نسلوں کے ٹھیکیدار بنیں ۔ میرا مقصود اساتذہ کی محالفت یا اہانت کرنا نہیںبلکہ ایک استادکی محنت ومشقت سے اور اس کے کرشمہ ساز ہاتھوں سے ہی قوم بنتی ہے ۔ سابق صدراے پی جے عبدالکلام بنے تھے، ورنہ وہ ا یک غریب وناخواندہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ استاد کے ہاتھوں پڑھ کر کوئی ہیرا تراشا جاتا ہے ۔ استاد کے بابرکت ہاتھوں میں پکر کوئی سر سید احمد خاں اور علامہ اقبال نکلتا ہے۔ سچ مچ ہر کامیاب ہستی کے پیچھے ایک استاد کا ہی ہاتھ ہوتا ہے لیکن کامیاب لوگوں کی کامیابی کی بڑی وجہ ان اساتذہ کی سچائی،ایمانداری، محنت،انصاف کی تعلیم اور سب سے بڑھ کر ان خوش نصیب اساتذہ کا تعلیمی معیار کی بلند ی ہوتی ہے جس کے سبب ایک بچہ یابچی بڑی ہستی کے قالب میں ڈھلتی ہے۔ہمارے یہاں بے صلاحیت اساتذہ سے نکلا ہوا طالب علم دسویں میں مات کھا کر پھر کہیں کا نہیں رہ جاتا ہے اور ہر طرح کی بری چیزیں قبول کر لیتا ہے کیوں کہ اس کی تعلیمی لیاقت اتنی ہوتی نہیں کہ اپنے لئے راہ راست تلاش کر سکے ۔اس لئے شائد یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے مستقبل کی تمام خرا بیوں میں نااہل اساتذہ کا ہی ہاتھ کارفرماہوتا ہے ۔ لہٰذا اس طبقے کو سدھارنے میں اور تعلیم کی روشنی کا اجال پھیلانے میں قوم کے با شعورلوگوں کوآگے آنا ہو گا تاکہ کوئی لڑکا یا لڑکی زیور ِ تعلیم سے آراستہ ہونے سے نہ رہ جائے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی یا عروج کمال پایا تووہ صرف اور صرف تعلیم کی بنیاد پرہی ممکن ہوا۔ اس لئے ہمارا اولین مقصد نظام تعلیم کو درست کرنا اور بہترین اساتذہ کی عزت افزائی کرنا ہو تب جا کر یہ قوم اس دلدل سے نکل سکتی ہے جس میں ہم سر تا پا اُلجھے ہوئے ہیں ۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ۔ نئی دہلی
موبائل نمبر:۔ 8130198952
g mail. [email protected]