حال و احوال
عبدالحلیم منصور
’’اب تو وہ زہر بھی پی لیتے ہیں لوگ، جسے دوا کہہ کر بیچا جاتا ہے۔‘‘یہ جملہ صرف ایک المیہ نہیں بلکہ آج کے نظامِ صحت کی المناک حقیقت کا آئینہ دار ہے۔
زندگی کے سفر میں انسان نے بیماریوں پر قابو پانے کے لیے علم و سائنس کا سہارا لیا۔ دوا ایجاد ہوئی تو گویا امید جاگ اٹھی کہ انسان اپنی کمزوریوں پر غالب آ جائے گا۔ مگر وہی دوا جو زندگی کا سہارا بنی، آج موت کا وسیلہ بنتی جا رہی ہے۔ علاج کے نام پر زہر فروخت ہو رہا ہے اور منافع کے نشے میں سرشار دوا ساز مافیا انسانیت کی رگوں میں آہستہ آہستہ زہر گھول رہے ہیں۔یہ محض کوئی فرضی بات نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے حالیہ برسوں میں ملک کی کئی ریاستوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کبھی مدھیہ پردیش میں معصوم بچوں نے زہریلی کھانسی کا شربت پی کر دم توڑا، کبھی کرناٹک میں سیزیرین کے بعد دی گئی ڈرِپ نے ماؤں کو لقمۂ اجل بنایا اور کبھی تمل ناڑو میں لیبارٹری کی آڑ میں چلنے والی زہرسازی کی فیکٹریوں نے انسانی جانوں کے ساتھ کھلا مذاق کیا۔ ان تمام سانحات میں ایک قدر مشترک ہے — دوائیں وہی تھیں جو بیماری کا علاج کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں، مگر ان میں وہ زہر گھولا گیا جو زندگی ہی چھین لے گیا۔
’’دواؤں سے علاج نہیں، آج زہر سے شفا مانگنی پڑتی ہے — یہ انسانیت کی سب سے بڑی شکست ہے۔‘‘تمل ناڑو کی ایک دوا ساز کمپنی کے تیار کردہ شربت میں زہریلا کیمیکل پایا گیا، جس کے استعمال سے مدھیہ پردیش کے کئی معصوم بچوں کے گردے فیل ہو گئے۔ ان ننھے جسموں نے علاج کی امید میں جو دوا پی، وہ ان کے لیے موت کا جام بن گئی۔ دوسری طرف کرناٹک کے مختلف اضلاع میں خواتین کی اموات نے ایک اور المیہ جنم دیا۔ سرکاری اسپتالوں میں دی گئی ایک عام ڈرِپ، جسے محفوظ سمجھا جاتا ہے، دراصل زہریلے کیمیکل سے بھری ہوئی تھی۔ ریاستی لیبارٹری نے اس کی خرابی کی رپورٹ چھ ماہ پہلے ہی مرکز کو بھیج دی تھی، مگر کاغذوں پر دب گئی، کسی نے سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا اور انجام وہی ہوا جو ہر غفلت کے بعد ہوتا ہے — موت۔
یہ زہریلا دھندہ سرحدوں سے آزاد ہے۔ افریقہ کے ملک گامبیا میں ایک ہندوستانی کمپنی کی تیار کردہ دوا پینے سے ستر سے زیادہ بچے مر گئے۔ اُزبکستان میں بھی بھارت کی ایک اور کمپنی کی دوا نے اٹھارہ بچوں کی جان لے لی۔ عالمی ادارۂ صحت نے انتباہ جاری کیا، مگر ہندوستان کے اندر اس پر کوئی ہلچل نہ مچی۔ دنیا جس ملک کو ’’دواؤں کا مرکز‘‘ کہہ کر فخر کرتی تھی، آج وہی ملک دواؤں کے زہر سے اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔
یہ سب کوئی اتفاق نہیں۔ دراصل برسوں سے دوا سازی کے شعبے میں سرکاری ادارے، لائسنس دینے والے حکام، اور مافیا ایک دوسرے کے سائے بن چکے ہیں۔ ایک طرف ہزاروں کمپنیوں کو بغیر معیاری جانچ کے لائسنس مل جاتے ہیں، دوسری طرف عوام کو وہ دوائیں فراہم کی جاتی ہیں جن میں نہ تاثیر ہے نہ تحفظ۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ملک میں تیار ہونے والی ہزاروں دوائیں مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ان میں سے سینکڑوں جعلی یا غیر مؤثر ہیں، مگر ان کے خلاف کارروائی برائے نام ہے۔
صحت کا نظام اس وقت دوہری اذیت میں مبتلا ہے۔ ایک طرف نجی اسپتالوں کا کاروباری طرزِ عمل عوام کی جیب خالی کر رہا ہے، دوسری طرف دوا ساز کمپنیاں ان کے جسموں سے زندگی چھین رہی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں غریب انسان اپنی آخری امید کے ساتھ پہنچتا ہے، مگر جس دوا پر بھروسہ کرتا ہے وہی اس کے زخم کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔ یہ صرف ایک طبی بحران نہیں بلکہ ایک اخلاقی زوال ہے، — وہ زوال جس میں دولت کی حرص نے انسانیت کو دفن کر دیا ہے۔
اسی نظام کی ایک بھیانک شکل وہ نرسنگ ہومز اور نجی طبی مراکز ہیں جنہوں نے علاج کو عبادت نہیں، تجارت بنا دیا ہے۔ معمولی بخار کے مریض کو جان بوجھ کر خطرناک بیماری بتا کر مہنگے ٹیسٹوں کی فہرست تھما دی جاتی ہے۔ دوا ساز کمپنیوں سے کمیشن کے عوض ڈاکٹر مخصوص برانڈ کی دوائیں لکھتے ہیں، مریض کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی بیماری سے زیادہ اس کی غربت کا علاج ہو رہا ہے۔ چھوٹے شہروں کے نرسنگ ہومز میں بے جا آپریشن، غیر ضروری انجکشن، اور مہنگی دواؤں کے نسخے ایک ایسا جال ہیں جن میں غریب مریض عمر بھر پھنسا رہتا ہے۔ کئی بار تو مریض کی جان بچانے کے بجائے اس کی جیب خالی کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو نہ صرف جسموں بلکہ روحوں کا خون چوستا ہے — اور افسوس کہ اس لالچ کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دوا سازی کا عمل جس صفائی، معیاری مشینری اور احتیاط کا متقاضی ہے، وہ سب محض کاغذوں پر موجود ہے۔ تمل ناڑو میں چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران جو مناظر سامنے آئے، وہ کسی بھی حساس دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ زنگ آلود برتنوں میں کیمیکل تیار کیے جا رہے تھے، مزدور بغیر کسی حفاظتی لباس کے ان خطرناک مادوں کو ہاتھوں سے ملاتے تھے، اور لیباریٹری کے باہر نالیوں میں زہریلا فضلہ بہہ رہا تھا۔ یہ دوا سازی نہیں، انسانیت کے خلاف جرم تھا۔
اعداد و شمار بھی اسی تلخ سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ ملک میں تقریباً پانچ ہزار سے زائد دوا ساز ادارے ایسے ہیں جو حکومت کے طے کردہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔ ہر سال لاکھوں افراد غیر معیاری دواؤں کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق، بھارت سے برآمد کی جانے والی دواؤں میں سے ایک بڑی تعداد یا تو جعلی ہوتی ہے یا ناقص۔ مگر اس کے باوجود لائسنس پر مہر لگتی ہے، دوا بازار میں پہنچتی ہے اور انسانیت کا قتل نامعلوم خاموشی میں دفن ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک عوام کی جانوں سے یوں کھیلا جائے گا؟ کب تک دوا ساز مافیا کے سامنے حکومتیں سر جھکائے بیٹھی رہیں گی؟ کب تک ایک بچہ، ایک ماں، ایک مزدور صرف اس لیے مرے گا کہ کسی نے منافع کے لیے زہر کو شفا کا نام دے دیا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ دوا سازی کے پورے نظام میں شفافیت لائی جائے۔ ہر دوا کی تیاری سے لے کر فروخت تک ایک غیر جانب دار ادارہ نگرانی کرے۔ دواؤں کے معیار کی جانچ کسی ایسے محکمے کے سپرد نہ ہو جو خود انہی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہو۔ جن کمپنیوں نے زہریلی دوا تیار کی، ان پر محض جرمانے نہیں بلکہ عمر بھر کی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ سرکاری اسپتالوں میں استعمال ہونے والی ہر دوا کی الگ سے جانچ لازمی قرار دی جائے اور سب سے بڑھ کر عوام میں بیداری پیدا کی جائے کہ وہ غیر معیاری دوا کے خلاف آواز اٹھائیں۔اگر اب بھی خاموشی برقرار رہی، تو وہ دن دور نہیں جب دوا کا مطلب علاج نہیں بلکہ انجام سمجھا جائے گا۔ آج ضرورت اس بات کی نہیں کہ ہم دوا ساز کمپنیوں کے اعداد و شمار پر فخر کریں بلکہ یہ دیکھیں کہ ان دواؤں سے کتنی زندگیاں بچ رہی ہیں اور کتنی مٹ رہی ہیں۔ کیونکہ اگر دوا ہی زہر بن جائے تو بیماری نہیں، انسانیت مر جاتی ہے۔
سنا ہے مر گئے ہیں وہ، جنہیں مرنا نہیں تھا
یہ زہر کس نے گھولا ہے، ہوا میں کون ہے قاتل
[email protected]