عزت مآب دنیشور شرما جی
آداب : اُمید ہے مزاج بخیر ہوں گے ۔آپ کو اس بات پر ناز ہوگا کہ حکومت ہند نے ریاست جموں و کشمیر کیلئے مذاکرات کار کی حیثیت سے آپ کا انتخاب کرکے آپ کو ایک بہت بڑا اعزاز دیا ہے۔بے شک یہ آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف ہے ،لیکن تقرر کے اعلان کے فورا ً بعد ہی آپ کو پتہ چلا ہوگا کہ آپ کو ایک کٹھن امتحان میں ڈال دیا گیا ہے ۔کیونکہ کشمیر میں جن قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ان میں سے شاید ہی کوئی مذاکرات کیلئے تیار ہوسکے اور جو مذاکرات کیلئے تیار ہیں، ان کے ساتھ بات چیت ایک رسم پوری کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔آپ کے تقرر سے پہلے ہی نئی دہلی کو اس بات کا پوراپورا اندازہ ہوگا کہ جس وقت این آئی اے کی یلغار اوردفعہ 35اے کی تلوار سروں پر لٹک رہی ہے اوربے اعتباری کی ایک وسیع تر کھائی بیچ میں موجود ہے بات چیت کیلئے کتنے دروازے کھلنے کے امکانات ہیں،ایسے میں آپ کی سرگرمیوں کا میدان کیا ہوگا اور آپ کا تقرر کیا نتائج پیدا کرے گا اس پر کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے ۔
میں ایک عام کشمیری کی حیثیت سے آپ کو کچھ ایسی باتیں بتاوں گا جو شاید آپ کو عام آدمی اس خوف سے نہیں بتا پائے گا کہ کہیں اس پر پی ایس اے لاگو نہ کیا جائے ۔تقرری کے بعد آپ نے اپنے بیان میں کہا کہ آپ کشمیر پہنچ کرہی یہ فیصلہ کریں گے کہ آپ کو کس کس سے ملنا ہے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کو پہلے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر آپ مزاحمتی قیادت سے ملنے کی بات کریں گے تو وہ کہیں اس کے جواب میں ایسی باتیں نہ کہے جس سے آپ کے عزت و وقار پر کوئی آنچ آجائے ۔آپ نے پھر رکشاچلانے والوں سے بات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ،حالانکہ کشمیر میں نہ رکشاہیں اور نہ ہی رکشا چلانے والے، آپ کا مطلب شاید یہ تھا کہ آپ ریڈی چلانے والوں ، چھاپڑی فروشوں ، دکانداروں اور مزدوروں سے بات کرکے ان کی خواہشات جاننے کی کوشش کریں گے ۔بے شک آپ ان سے بات ضرور کریں ۔ ان سے بات کرکے آپ کو اس نفرت کی گہرائی کا کچھ اندازہ ضرور ہوگا جو کشمیر کے دلوں میں پل رہی ہے اور اس کی وجوہات کا بھی کچھ پتہ چلے گا ۔لیکن جیسا کہ آپ نے بعد میں کہا آپ کا اصل مقصد کشمیر کے نوجوانوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا ہے جنہیں آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ آزادی اور اسلام کے نام پر اپنا مستقبل برباد کررہے ہیں ۔
یہ بالکل درست ہے کہ کشمیر کا نوجوان آزادی اور اسلام کے نام پر اپنے حال اور مستقبل دونوں کو برباد کررہا ہے ۔لیکن آپ نہیں جانتے میں ایک کشمیری کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ وہ کسی کے بہکاوے میں آکر ایسا نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی گمراہی میں مبتلا ہوکر ایسا کررہے ہیں بلکہ وہ جان بوجھ کراور سوچ سمجھ کر ایسا کررہے ہیں۔میر ی یہ بات سن کر آپ کو حیرت ضرور ہوگی اور شاید کچھ دیر کے لئے آپ مجھے بھی ہمسایہ ملک کا ایجنٹ قرار دیں گے لیکن اس سے تلخ سچائیاں نہیں بدل سکتیں ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کشمیر کے نوجوانوںکو بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور وہ پوری سمجھ کے ساتھ ایسا کررہے ہیں ۔وہ اتنے گئے گزرے نہیں کہ اتنا بھی نہ سمجھ سکیں کہ بندوقوں کے سامنے پتھر ہاتھوں میں اٹھانے کا انجام کیا ہوسکتا ہے ۔ بندوق ہاتھ میں اٹھا کر ہندوستان جیسے عظیم ملک کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا انجام کیا ہوسکتا ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں اور وہ یقینا پاگل پن کے شکار نہیں ہیں ۔ وہ اپنی اہلیت کسی بھی شعبے میں جاکر نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے ثابت بھی کرتے ہیںپھر آزادی اوراسلام کے نام پر انہیں کوئی گمراہ کیسے کرسکتا ہے ۔وہ اس لئے آزادی کانام لیتے ہیں کہ انہیں آزادی کا بالکل کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ وہ اسلام کانام اس لئے لیتے ہیں کہ انہیں چاروں طرف سے اپنے تشخص پر یلغار ہوتی نظر آرہی ہے ۔انہیں یوں بھی اپنا مستقبل ویرا ں نظر آتا ہے اور پورے کشمیر کی زندگیاں غیر محفوظ نظر آرہی ہیں اس لئے وہ بے خطر اپنی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔
آپ چونکہ کشمیر کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اس لئے آپ کو اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوگا کہ اس ہمہ گیر مزاحمت کے پیچھے کوئی مضبوط اور مستحکم سیاسی قیادت بھی نہیں ۔سیاسی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا اس میں کوئی شائبہ بھی نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے اپنی ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے اس تحریک کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ لہذاموجودہ قیادت ایک علامت کے طور پر موجود ہے ۔ جو کچھ بھی کرتے ہیں عوام ہی کرتے ہیں اور اپنی ہی مرضی سے کرتے ہیں۔مجھے اس بات سے بھی انکار نہیں ہے کہ کشمیر میں سرحد پار کی ایجنسیاں بھی اپنا کردار ادا کررہی ہیں ۔لیکن وہ اس لئے کامیاب ہورہی ہیں کہ ان کے لئے زمین ہموار ہے، حالات موافق ہیں اور خام مواد دستیاب ہے ۔آپ کیلئے نوکیلے کانٹوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
ایک طرف آپ کا تقرر بحثیت مذاکرات کار کے ہوتا ہے تو دوسری طرف بی جے لیڈران کے بیانات ان شعلوں کو بھڑکانے کا کام کرتے ہیں جو پہلے ہی موجود ہیں ۔اندرونی خود مختاری کی بات ابھی پی چدامبرم کے منہ سے نکلنے ہی پاتی ہے کہ اس کے خلاف طوفان برپا ہوتا ہے ۔کیا کشمیر کے نوجوان کو صاف صاف یہ بات نظرنہیں آسکتی کہ موجودہ مرکزی حکومت بھارت کے سمندر میں جموں و کشمیر کی ریاست کو غرق کرنے کے سوا کوئی بات سوچ بھی نہیں سکتی ہے ۔اس بات پر غور کرنا بھی کسی کو گوارا نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی الگ کوئی حیثیت ہے ۔ ایک مسلم اکثریتی ریاست نے سیکولر جمہوری بھارت کے ساتھ کن شرائط پر اور کیسے الحاق کیا اور پھر ہندوستان کے اقتدار نے کس طرح سے اپنی ہی آئینی ضمانتوں کو پاوں تلے روندڈالا اس پر ایک لمحے کے لئے بھی سوچنا اور بات کرنا کسے گوارا ہے ۔آپ جس سے بھی کہیں گے کہ وہ اپنا مستقبل برباد کررہا ہے تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ میرا حال کہاں ہے اور میرا مستقبل کہاں ہیں جسے میں برباد کردوں۔ اگر حال وہ وقت ہے جس میں میں جی رہا ہوں تو وہ آباد کہاں ہے جسے میں برباد کردوں اور اگر مستقبل آنے والا وقت ہے تو اس کے روشن ہونے کی کونسی امید ہے جسے میں برباد کررہا ہوں ۔ میرے لئے اندھیروں کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور میں ان اندھیروں میں اپنے خون سے روشنی کرنا چاہتا ہوں۔
محترم المقام دنیشور صاحب :ممکن ہے آپ کو میری باتیں اچھی نہ لگی ہوں لیکن میری فطرت میں جھوٹ بولنا نہیں اورمیں جھوٹ بول کر آپ کو خوش نہیں کرسکتا ۔اس وقت جو حالت کشمیر میں ہے اس حالت میں کشمیر کو صرف جبر سے ہی جب تک ممکن ہو ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے مرکز کے پاس ایسے ہی آپشنز پر سوچ بچار کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں جو احساسات اور خواہشات کا گلا گھونٹے میں کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں ۔میری مخلصانہ صلاح آپ کو یہ ہے کہ کشمیر پہنچنے سے پہلے آپ دہلی میں صاحب اقتدار لوگوں سے بات کریں ۔انہیں پوچھئے کہ وہ ایسا کیا کرسکتے ہیں جس سے کشمیرکے نوجوان کو یہ احساس ہو کہ وہ آزاد ہے ۔ ایسا کیا کرسکتے ہیںجس سے کشمیر کی شناخت کے محفوظ ہونے کا یقین پیدا ہو ۔اس طرح کا ایک روڑ میپ تیار کرکے اگر آپ کشمیر آئیں گے تو بات چیت کا ایک راستہ نکل سکتا ہے اورایک پائیدار حل کی بھی توقع کی جاسکتی ہے ۔اس وقت آپ کے ہاتھ خالی ہیں ۔ اور جس زمین پر آپ کے قدم پڑنے والے ہیں اس پر حالات کے کانٹوں کا بچھونا ہے ۔آپ کے پاوں زخمی ہوں گے اور آپ دو قدم بھی نہیں چل پا ئیں گے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ یوم جمہوریہ پر لال قلعے کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی جی نے کشمیریوں کو ایک پیغام دیا تھا کہ گالی اور گولی سے نہیں گلے لگانے سے ہی کشمیریوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں ۔ تب سے اب تک کشمیریوں کے دل جیتنے کے لئے کونسا بڑا فیصلہ کیا گیا اور کونسی حکمت عملی تیار کی گئی ۔بحثیت مذاکرات کار آپ کا تقرر دل جیتنے کی کونسی کوشش ہوسکتی ہے ۔ دلوں کو جیتنا ہے تو کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے جن سے کم از یہ احساس پیدا ہو کہ کشمیریوں کو جسم کا ایک حصہ تصور کیا جارہا ہے ،جسم کا ناسور نہیں ۔ کشمیر اورکشمیریوں کیخلاف نفرت کی ایک ہوا چل پڑی ہے ۔ کوئی ٹی وی چینل کھولئے تو یہ احساس ہوگا کہ کشمیریوں کو ہندوستان کا ازلی و ابدی دشمن قرار دینے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے حالانکہ کشمیر ی کسی کا بھی دشمن نہیں ہے بلکہ اس کے سب دشمن ہوچکے ہیں کیونکہ وہ اپنے زخم دکھارہا ہے اور اپنی زیادتیوں کی دہائی دے رہا ہے اوراپنے حقوق طلب کررہا ہے ۔
میں نے کچھ تلخ باتیں بھی لکھی ہیں اگر آپ کو کوئی بات بری لگی ہو تو مجھے معاف کردینا ۔ میری خواہش ہے کہ آپ کامیاب ہوں لیکن کیا کروں میں جانتا ہوں کہ آپ کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں ۔
والسلام
آپ کا خیر خواہ
منظورانجم
( بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم‘‘)