Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

دنیا کاانمول تحفہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 14, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
ماں کی ہستی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر پھر بھی کم ہے ۔ یہ وہ ہستی ہے کہ جو اپنی اولاد کونو ماہ تک اپنی کھوکھ میں لئے گھوم رہی ہوتی ہے اور کبھی شکایت تو درکنار اس بوجھ کی وجہ سے ’’اُف‘‘ تک نہیں نکلتی اور محبت کاآتش فشاں دیکھئے کہ بچہ ابھی پیدا بھی نہ ہوا کہ ماں اپنا درد بھول کر اس کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔نو ماہ کا کٹھن وقت گزار کہ بچے کی پیدائش ہوئی ،اس وقت کس شدت کی تکلیف سے ماں گزرتی ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام تک نے درد ِزہ کی حالت میں اپنے لئے ناسیاً منسیا کے الفاظ ادا کر کے اس تکلیف کی عکاسی کی ۔ اس تکلیف کو لفظوں میںبیان کرنا کسی کے بس میں نہیں ۔ زچگی کی تکلیف اس قدر شدید ہوتی ہے کہ اس تکلیف سے موت کی شدت کم لگتی ہے لیکن ماں یہ تکلیف دہ مرحلہ خوشی خوشی قبول کرتی ہے۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو راتوں کو جاگ جاگ کے اپنے بچے پہ نظر رکھے ہوتی ہے، یہ ماں ہی ہوتی ہے جو بچے کی رونے کی آواز سن کر سب چھوڑ چھاڑ کے اس کوسہلا تی ہے ، کبھی بچے کے آنسو تو رک جاتے ہیں مگر ماں کے آنسو نہیں رُکتے جس کا لال ،جگر گوشہ بیمار ہو۔ یہ ماں ہی ہے جو اپنے لئے کھانے کی فکر چھوڑ کر اپنے بچوں کو کھلاتی پلاتی ہے۔ یہ ماں ہی ہے جو آدھی رات تک اپنے بیٹے کی راہ تکتی رہتی ہے کہ کب میرا لال واپس گھر آئے ، جو رہ رہ کے سوچتی ہے میرے لاڈلے نے کچھ کھایا پیا ہوگا ، کہیں واپسی پرا ُسے دروازے پہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو صبح بچے کو رخصت کرتے وقت اُسے سینکڑوں دعائیں دیتی ہیں بھیجتی ہے ۔ماں کی کس کس ادا کی تعریف وتوصیف کیا جائے !ماں کا لفظ بہت وسیع المعنی ہے ۔ایثار ، قربانی، پیار، محبت، عزم ،حوصلہ ، دوستی، ہمدردی ، خلوص، معصومیت، دعا، وفا، بے غرضی، لگن سچائی، پاکیزگی، سکون ، مروت وغیرہ یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ ا لفاظ ختم ہو جائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہو۔ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جس کے جذبوں اور محبت میں کوئی ذاتی غرض نہیں ہوتی ۔جب اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تو اس کے لئے ماں ہی خود کو ہمہ وقت وقف کر دیتی ہے، جب بچہ بول بھی نہیں پاتا تواس کی ضرورتوں کو ماں ہی سمجھتی اور پورا کرتی ہے، پھر اسے بولنا سکھاتی ہے، پھر انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے ، بچے کی ہر آواز پر دوڑی چلی آتی ہے اور اپنی بانہوں میں اسے سمیٹ لیتی ہے، اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ میں دکھی ہوتی ہے۔ماں کو عربی زبان میں اُم کہتے ہیں۔‌اس کی جمع امہات ہے ۔ یہ لفظ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے ۔ صاحب محیط نے کہا ہے کہ لفظ اُم جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے مشتق ہے، جب وہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اُم اُم وغیرہ کہتا ہے۔ اس سے اس کے اولین معنی ماں کے ہو گئے ۔ ویسے اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل ، اُم حقیقت میں یہ تین حرف ہیں‌(ا+م+م )۔ یہ لفظ حقیقی ماں‌پر بولا جاتا ہے اور بعید ماں پربھی۔ بعید ماں سے مراد نانی، دادی وغیرہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو امنا ( ہماری ماں‌) کہا جاتا ہے۔ 
خلیل نحوی کا قول ہے :ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات سما جائیں وہ ان کی اُم کہلاتی ہے ، جیسے لوح محفوظ کو اُم الکتاب کہا گیا کیونکہ وہ تمام علوم کا منبع ہے ، مکہ مکر مہ کو اُم القریٰ کہتے ہیں کیونکہ وہ خطہ عرب کا مرکز ہے، سالار لشکر کو اُم الجیش کہتے ہیں ۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اُم کے چار معنی ہیں :(1) بنیاد اصل (2) مرجع (3) جماعت (4) دین
ماں کہنے کو تو تین حروف ’’م – ا – ں ‘‘کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کل کائنات کی بہار نو سموئے ہوئی ہے۔ ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ خداوند کریم جب انسان سے اپنی محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے لئے ماں کو مثال بناتا ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر نور، آنکھوں میں شبنم جیسی ٹھنڈک، الفاظ میں حلاوت و محبت، آغوش میں مدہوش اور دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دینے والا آرام و سکون، ہاتھوں میں پیار بھری شفقت اور پاؤں تلے جنت ہے۔ ماں وہ ہے جس کو اک نظر پیار سے دیکھ  لینے سے ہی نشاط انگیزی کی فضا رقص میں آ جاتی ہے۔ زمانے بھر کے غم اور تھکاوٹ اس کے سینے سے لگتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔یاد رکھئے ماں کا لفظ ہی بہت سکون آور ہے  ماں کا سینہ پیار و محبت کا گہوارہ ہے۔ ماں کے سینے سے لگ جائیں تو ایک الگ ہی دنیا محسوس ہوتی ہے جہاں پیار اور محبت کا راج اور حکمرانی ہوتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ ایسا سکون صرف دو جگہ ہی ملتا ہے یا اللہ کے حضور سجدے میں یا ماں کے سینے لگ جانے سے۔ میری نظر میں ماں اور پھول میں ایک قدر مشترک ہے ،وہ اس طرح، جیسے پھول کھلتا ہے تو اس کی باس ہر جا پھیل جاتی ہے، اسی طرح ماں گھر میں موجود ہو تو اس کی بھینی بھینی خوشبو گھر کو ہر دم مہکائے رکھتی ہے۔ جس طرح  ایک باغ پھولوں ، پھلوں اور ہری بھری شاخوں سے مہک اٹھتا ہے، اسی طرح ماں کے وجود سے گھر میں ہر طرف رونق اور چہل پہل کی بہار چھائی رہتی ہے۔ ماں کا  وجود جنت کی مانند ہے کہ جہاں ، جہانِ الم کہیں نظر نہیں آتا۔ ماں کا سر کو پیار و محبت سے بوسہ دینے کی تاثیر مسیحائی اثرات رکھتی ہے جو روح کی گہرائیوں میں رچ بس جاتی ہے۔ ایک ماں ہی تو ہے جو کبھی بد دعا نہیں دیتی ، جو حرف شکایت زباں پر نہیں لاتی، جو کبھی رُلاتی نہیں ، کبھی دکھ نہیں دیتی، جھڑک سہہ کر بھی زباں نہیں کھولتی، کبھی بھوکا نہیں رہنے دیتی ۔پوری دنیا میں ماں کا دن منایا جا تا ہے۔ ماں کے رشتے اور اس کے ساتھ وابستہ جذبات اور محسوسات کا ذکر کرنے کے لئے عمر خضر چاہیے۔ البتہ ایک سوال اکثر پریشان کرتا ہے کہ ماں کے نام پر رفاہی ادارے اس کے جانے کے بعد کیوں بنائے جاتے ہیں؟ماں کے نام صدقہ جاریہ کے لئے کیا اس کا مرنا ضروری ہے؟ ماں اپنے نام پر بنائے گئے ہسپتال، مساجد، مدارس یا دیگر رفاہی کاموں کو اپنی زندگی میں کیوں نہیں دیکھ سکتی؟ ماں کی قدر اس کے جانے کے بعد ہی کیوں زیادہ ہوتی ہے ؟ ماں کے نام ہسپتال اور ادارے وقف کرنے والی اولاد جب کہتی ہے کہ آج ماں زندہ ہوتی تو یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوتی،تو ماں کی روح تڑپ اٹھتی ہے اور کہتی ہے :میرے لال! اللہ تجھے سلامت رکھے اگر یہ نیکی میری زندگی میں کر لیتا تو میں بھی دیکھ لیتی۔ میری جان! تیری یہ نیکی اب زمانہ دیکھ رہا ہے گو کہ مجھے بھی اس کی ٹھنڈک اور خوشبو پہنچ رہی ہے مگر اک ننھا سا شکوہ ضرور ہے کہ میری یاد آئی تجھے میرے جانے کے بعد؟ ماں اپنی ممتا کی تقسیم میں بیٹے اور بیٹی میں تفریق نہیں کرتی مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بیٹا ماں سے اظہار محبت اس کے جانے کے بعد کرتا ہے خواہ صدقہ جاریہ تعمیر کرے، گیت گائے، کتاب لکھے یا فلم بنائے۔ یہ مہنگے پتر ماں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔اندازہ کیجئے جب ابواء کے مقام پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ماں کی قبر پر مٹی ڈال رہے ہوں گے،آپ ؐ کی کیا کیفیت رہی ہوگی؟ اس صبر مجسم کی آنکھوں سے موتیوں کی طرح برستے آنسو، کائنات کی ہر شئے کا کلیجہ پھاڑ رہے ہوں گے۔ 
شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ جو جنت کا طالب ہو اسے چاہیے کہ ماں کی خدمت کرے ،افلاطون کہتاہےکہ اس کائنات میں ماں وہ واحد ہستی ہے جس کی دعا اپنے بچوں کے حق میں جلد قبول ہوتی ہے۔ خلیل جبران کا کہنا ہے کہ دنیا میں ماں سے زیادہ کوئی ہمدرد ہستی نہیں،مغل بادشاہ بابر کہتا ہے کہ ماں کے بغیر گھر قبرستان کی طرح لگتا ہے،نپولین بونا پارٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ماں کی محبت دکھاوے کی نہیں ہوتی۔
معروف مفکر بائرن کا کہنا ہے کہ جس کے دل میں ماں کے لیے محبت ہو وہ زندگی کے کسی موڑ پر شکست نہیں کھاتا۔علم ریاضی کے ماہر فیثا غورث کا کہنا ہے کہ ماں کو ستانا دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے۔گوئٹے کا کہنا ہے کہ سب سے مفلس شخص وہ ہے جس کی ماں حیات نہیں۔برنارڈ شا کا قول ہے کہ جو ماں کی خدمت محبت سے کرے اسے یقین کرلینا چاہیے کہ اس کے سر پر ہر وقت ماں کی دعاؤں کا سایہ موجود رہتا ہے۔کارلائل کا کہنا ہے کہ کتنا بدقسمت ہے وہ جو ماں کے ہوتے ہوئے اس کی محبت نہ حاصل کرسکے۔شاعر مشرق علامہ اقبال کا ماں کی شان کے حوالے سے کہنا ہے کہ جس کی ماں نہ ہو اور فوت ہو جائے تو اپنی والدہ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوؤں سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، سارے دکھ درد اور زندگی کی آلائشیں آنسوؤں میں تحلیل ہو کر آنکھوں کے راستے خارج ہوجاتی ہیں اور وہ شخص ہلکا پھلکا اور معصوم بچے کی مانند ہوجاتا ہے۔ 
پھر دیکھئے! آج جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو دل کڑھن محسوس ہوتی ہے کہ اس ماں کےسا تھ اپنی ہی اولاد کا ایسا کم بختانہ سلوک!!! کیسا بدبخت ہے وہ انسان جو اپنی ماں کو کہتا ہے کہ "چپ کر،جا بکواس نہ کر ‘‘۔ارے ظالم تمہیں پتہ بھی ہے تو کس سے یہ کہہ رہا ہے؟ یہ وہ ہستی ہے کہ اللہ نے انسان سے اپنی محبت کی مثال ہی ماں کی محبت سے جوڑ کے دی، یہ وہ ہستی ہے کہ اللہ نے جنت کو بھی اس کے قدموں میں ڈال دیا، آج اسی ماں سے ایسی زبان؟ ایسا لہجہ؟ اتنا غصہ؟ اے کم ظرف انسان! کیا تو بھول گیا جو نو ماہ تک تجھے اپنےپیٹ میں لئے پھرتی رہی؟ تو بھول گیا کیا بچپن میں جب رات کو تو پیشاب کرتا تو اس گیلی جگہ پہ خود سوکر تجھے اپنی سوکھی جگہ پہ سلاتی تھی؟ تو بھول گیا کیا جو ساری رات صرف اس لئے جاگا کرتی تھی کہ تو سکون کی نیند سو سکے۔ سرور کونین آقا دوجہاں سردار الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا کہ یارسول اللہ! قیامت کب آئیگی، تب میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے، پھر صحابہرضوان اللہ اجمعین نے عرض کی کہ یارسول اللہ! کوئی نشانی : تب  آقا  ئے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ" جب ماؤں کو ذلیل کیا جانے لگے تب سمجھ لو کہ قیامت قریب آگئی ہے۔‘‘ آج اپنےاردگرد ذرا نظر اٹھا کے دیکھئے کہ ماں کو اس کا مقام ومرتبہ مل رہا ہے؟ کیا ماں کی وہ عزت کی جاتی ہے جو اس کے شایان ِ شان ہے ؟آج ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی میں کہیں نہ کہیں ایک ماں اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں خوار ہورہی ہے۔ سکول کالج، یونیورسٹی یا آفس جاتے کسی فٹ پاتھ پہ یا کسی ٹریفک سگنل پہ کوئی نہ کوئی ماں ضرور دکھتی ہے جو اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں اپنے ہی گھر سے بےدخل کی گئی ہوتی ہے۔، ماں جس اولاد کو اپنے منہ کا نوالا دے دیا کرتی ، وہ اولاد اپنی ماں کو دو وقت کا کھانا نہیں دے پاتی؟ تُف ہے اس قماش کے دوزخیوں پر !!! 
خدارا اس عظیم الشان ہستی۔۔۔، ماں۔۔۔ کی لامحدود قدر کیجئے۔ یہ وہ انمول خزانہ ہے کہ انسان کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کی زندگی میں ماں نہیں، ماں کی خوشیاں نہیں، ماں کی دعا نہیں تو وہ انسان دنیا کا غریب ترین بلکہ منحوس ترین انسان ہے۔ پوری زندگی یہ ساتھ رہنے والے نہیں ،اسی لئے جتنا ہوسکے ماں کو راضی رکھنے اور خوش کر نے کی کوشش کیجئے کہ اس کی خوشی میں رب کی خوشی چھپی ہے۔ اگر ہم نے ماں کی قدر نہ جانی تو ہم یونہی اخلاقی پستی کی طرف لڑھکتے جائیں گے اور اس معاشرے کا فنا کے گھاٹ اترنے کا سفر جاری رہے گا ۔ اس لئے جاگ جایئے اس سے قبل کہ دیر ہو ۔ ماں کو ماںکا مقام بخوشی دیجئے اور شریک ِحیات کو اپنا مقام ومنزلت دیجئے ، کسی کی حق تلفی کریں نہ کسی سے ناانصافی۔ 

 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

گنڈ کنگن میں سڑک حادثہ،ڈرائیور مضروب
تازہ ترین
جموں میں چھ منشیات فروش گرفتار، ہیروئن ضبط: پولیس
تازہ ترین
مرکزی حکومت کشمیر میں تجرباتی، روحانی اور تہذیبی سیاحت کے فروغ کیلئے پرعزم: گجیندر سنگھ شیخاوت
تازہ ترین
خصوصی درجے کیلئے آخری دم تک لڑتے رہیں گے: ڈاکٹر فاروق عبداللہ
تازہ ترین

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?