مسعود محبوب خان
دنیا کے سیاسی منظرنامے میں پاپولزم (Populism) ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے، جس نے کئی ممالک میں روایتی سیاست کے ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیلنے، امیدوں کے خواب بیچنے اور ایک بڑے دشمن کی تصویر کشی کے ذریعے کئی عالمی رہنما اقتدار میں آئے، لیکن جب انہیں عملی فیصلے لینے کا وقت آیا تو وہ خود اپنے ہی بیانیے کے قیدی بن گئے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور وولودومیر زیلنسکی اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ دونوں ایک ’’انقلابی تبدیلی‘‘ کے نعرے پر اقتدار میں آئے، دونوں نے اپنے عوام کو ایک عظیم مستقبل کا خواب دکھایااور دونوں نے روایتی سیاستدانوں کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ لیکن جب عالمی سفارت کاری اور طاقت کی سیاست کا سامنا ہوا، تو انہیں احساس ہوا کہ حقیقت جذباتی نعروں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں جو کچھ ہوا، اس میں نہ صرف ٹرمپ اور زیلنسکی کا طرزِ عمل بلکہ پبلک اسکروٹنی (Public Scrutiny) اور میڈیا کے دباؤ نے بھی ایک بڑا کردار ادا کیا۔ کیمروں کے سامنے لیڈران کو ’’کمزور‘‘ دکھائی دینے کا خوف ہوتا ہے، کیونکہ ان کے فالورز انہیں ایک ’’ہیرو‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات سفارتی تعلقات اور قومی مفادات کے بجائے، سیاسی بقاء اور مقبولیت زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ یہ رجحان صرف امریکہ یا یوکرین تک محدود نہیں۔ بھارت میں نریندر مودی، برطانیہ میں بورس جانسن، پاکستان میں عمران خان اور برازیل میں بولسونارو—سبھی نے کسی نہ کسی شکل میں قوم پرستی، کرپشن مخالف بیانیے اور اسٹیبلشمنٹ دشمنی کو استعمال کرکے اقتدار حاصل کیا۔ لیکن جب عملی فیصلوں کا وقت آیا تو ان میں سے بیشتر کو یا تو پالیسی سے یوٹرن لینا پڑایا پھر نئے جذباتی بیانیے گھڑنے پڑے تاکہ عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
جب کوئی لیڈر عوام کے جذبات کو بھڑکا کر اقتدار میں آتا ہے، تو وہ لچکدار پالیسی اختیار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس کے فالورز اسے ایک ’’مسلسل جنگ لڑنے والے‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر وہ حقیقت پسندی کی طرف آتا ہے، تو اس کی مقبولیت کم ہو جاتی ہے اور اگر وہ سخت گیر موقف پر قائم رہتا ہے تو اس کے ملک کو عملی نقصانات پہنچتے ہیں۔ یوں وہ خود اپنے بیانیے کا قیدی بن جاتا ہے اور اس کے لیے نکلنے کا کوئی آسان راستہ نہیں بچتا۔ کیا پاپولزم ہمیشہ ایک نقصان دہ چیز ہوتی ہے؟ یا کیا کوئی ایسا راستہ ہے کہ ایک پاپولسٹ لیڈر اپنی عوامی مقبولیت اور قومی مفادات کے درمیان توازن قائم رکھ سکے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جوابات آنے والے وقت میں عالمی سیاست کی سمت متعین کریں گے۔
یہ تجزیہ سیاست اور سفارت کاری میں ’’پبلک اسکروٹنی‘‘ (Public Scrutiny) کے کردار کو بہت عمدگی سے بیان کرتا ہے۔ جب معاملات بند دروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں تو سیاست دان یا سفارت کار اپنی اَنا کو ایک حد تک قابو میں رکھ سکتے ہیں اور مفاہمت کی طرف جا سکتے ہیں، کیونکہ وہاں براہِ راست عوامی ردعمل کا دباؤ نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی وہی گفتگو کیمروں کے سامنے آتی ہے تو ہر لفظ، ہر اِشارہ، ہر ردعمل ایک پرفارمنس بن جاتا ہے جو نہ صرف وہاں موجود افراد بلکہ پوری دنیا کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات عالمی رہنما کیمروں کے سامنے ضرورت سے زیادہ سخت موقف اختیار کر لیتے ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ نرم پڑ گئے تو ان کے سیاسی کیریئر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے فالورز، ووٹرز اور قوم ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ کمزوری نہ دکھائیں، چاہے پسِ پردہ وہ جانتے ہوں کہ نرم رویہ اپنانا زیادہ سود مند ہوگا۔
یہ بھی سچ ہے کہ میڈیا اور کیمروں کی موجودگی بعض اوقات غیر ضروری سفارتی کشیدگی کو جنم دیتی ہے، کیونکہ وہاں سیاست دانوں کے پاس ’’بیچ میں رُکنے‘‘ یا ’’بعد میں وضاحت دینے‘‘ کا موقع نہیں ہوتا۔ وہ لمحہ براہِ راست ان کے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اسی لیے وہ فوری، سخت اور اکثر جذباتی ردعمل دے بیٹھتے ہیں۔ یہ صورتحال صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ عام زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ دو افراد اگر نجی طور پر کسی معاملے پر بحث کر رہے ہوں تو وہ زیادہ آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں، لیکن وہی بحث اگر مجمع کے سامنے ہو تو ’’عزّت بچانے‘‘ کی نفسیات غالب آ جاتی ہے اور پھر ضد، اَنا اور جذبات مسئلے کو اور بڑھا دیتے ہیں۔
پچھلی دہائی میں عالمی سیاست میں پاپولزم (Populism) کا رجحان بہت زیادہ دیکھنے کو ملا اور ٹرمپ اور زیلنسکی اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ ٹرمپ نے Make America Great Againکا نعرہ لگا کر خود کو ایک غیر روایتی لیڈر کے طور پر پیش کیا، جب کہ زیلنسکی نے یوکرین میں کرپشن کے خلاف سخت موقف اختیار کرکے عوام کو ایک نیا خواب دکھایا۔ پاپولزم کی سب سے بڑی طاقت یہی ہوتی ہے کہ یہ عوام کی مایوسی، غصّے اور امیدوں کو ایک جذباتی بیانیے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ لوگ روایتی سیاست دانوں سے تنگ آ چکے ہوتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں، کمزور ہیں یا عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ ایسے میں جب کوئی لیڈر آکر کہتا ہے کہ ’’میں تمہیں عظیم بنا دوں گا، میں تمہیں دنیا میں سب سے آگے لے جاؤں گا، میں ان کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلاؤں گا‘‘ تو یہ باتیں لوگوں کو بہت پُرکشش لگتی ہیں۔
یہ صرف امریکہ یا یوکرین تک محدود نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں یہی فارمولا کامیاب رہا ہے۔ چاہے وہ برازیل میں بولسونارو ہوں، بھارت میں نریندر مودی، برطانیہ میں بورس جانسن، یا ترکی میں اردگان ،سبھی نے کسی نہ کسی شکل میں قوم پرستی، قومی عظمت اور روایتی سیاستدانوں کے خلاف بیانیہ بنا کر اقتدار حاصل کیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان نعروں کو عملی جامہ پہنانا اکثر مشکل ہوتا ہے، کیونکہ دنیا کی سفارتی، اقتصادی اور داخلی حقیقتیں نعرے بازی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ لیڈر اقتدار میں آتے ہیں، تو یا تو وہ اپنے نعروں پر عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا پھر وہ ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جو ملکی اور عالمی سطح پر مزید مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔
پاپولسٹ سیاستدان صرف ایک لیڈر نہیں ہوتے بلکہ اکثر اپنے فالورز کے لیے ایک نظریہ ایک امید اور بعض اوقات ایک عقیدے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان پر کرپشن، بدعنوانی یا کسی اور طرح کے الزامات لگتے ہیں تو ان کے حامی ان الزامات کو یا تو جھوٹ قرار دیتے ہیں یا انہیں ’’اسٹیبلشمنٹ ‘‘کی سازش سمجھتے ہیں۔ لیکن جہاں تک 2020ء کے امریکی صدارتی انتخابات کی بات ہے، وہاں ٹرمپ جو بائیڈن سے ہار گئے تھے نہ کہ جیتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور بے بنیاد دعوے کیے کہ ان سے دھاندلی ہوئی، لیکن وہ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں واپس نہیں آسکے۔ تاہم ان کی مقبولیت میں کوئی خاص کمی نہیں آئی اور وہ اب بھی امریکی سیاست میں ایک بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ پاپولزم کے فالورز کے لیے ’’لیڈر کی شخصیت‘‘ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے نہ کہ ان کی پالیسیز یا اخلاقی اقدار۔ ان کے نزدیک وہ لیڈر ایک ایسا ’’نجات دہندہ ‘‘ہوتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ، روایتی سیاستدانوں اور کرپٹ نظام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔ اس لیے جب ان پر کوئی الزام لگتا ہے تو ان کے حامی اسے مخالفین کی چال سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ صرف امریکہ تک محدود نہیں، دنیا میں جہاں بھی پاپولسٹ لیڈر ابھرتے ہیں، وہاں ان کے فالورز میں ایک طرح کا ’’بلائنڈ فیتھ‘‘ (اندھا یقین) دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا پاپولزم ہمیشہ ایک منفی چیز ہوتی ہےیا کچھ مثبت پہلو بھی رکھتی ہے؟پاپولزم کا اصل ہتھیار جذباتی نعرے ہوتے ہیں جو وقتی طور پر عوام کو متاثر کرتے ہیں، لیکن ان کے عملی اثرات زیادہ دیرپا نہیں ہوتے۔ ٹرمپ، عمران خان، بورس جانسن سبھی نے ایک ایسا خواب بیچا جو ان کے ووٹرز کو پرکشش لگا، چاہے وہ حقیقت پر مبنی ہو یا نہ ہو۔عام طور ایسے لیڈران مذہب اور قوم پرستی کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے اپنے ملک کی عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم عظیم قوم ہیں،لیکن ہمیں رویتی سیاست دانوں نے برباد کردیا ہےاور میں ہوں واحد لیڈر ہوں جو قوم کو دوبارہ اوپر لے جاسکتا ہے۔
بے شک اگر پاپولسٹ لیڈر نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ فیصلے بھی کرے، تو وہ تبدیلی لا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر پاپولسٹ لیڈرز ایسا نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے جذباتی بیانیے سے ہٹ کر حقیقت پسندانہ بات کریں تو ان کی مقبولیت کم ہو سکتی ہے۔جب کوئی لیڈر پاپولزم کے زور پر اقتدار میں آتا ہے، تو وہ اپنے فالورز کے سامنے کمزور یا لچکدار نظر آنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کے حامی اسے ایک ’’ہیرو‘‘، ’’نجات دہندہ‘‘ اور ’’انقلابی لیڈر‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جیسے ہی وہ کوئی سمجھوتہ کرتا ہے یا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرتا ہے، تو اس کی ’’عظمت ‘‘کا بیانیہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ اور زیلنسکی، دونوں ہی کسی بھی قیمت پر اپنے فالورز کے جذباتی بیانیے سے ہٹ نہیں سکتے تھے۔ حال ہی میںوائٹ ہاؤس میں جو کچھ ہوا، اس میں دونوں کیوں مجبور تھے؟ زیلنسکی وہ یوکرین میں ایک ’’انقلابی‘‘ لیڈر کے طور پر ابھرے تھے، جو نوجوان نسل کو یقین دلا چکے تھے کہ وہ یوکرین کو آزاد، طاقتور اور نیٹو کا حصہ بنا کر روس کو شکست دیں گے۔ اگر وہ کسی بھی قسم کا نرمی کا اشارہ دیتے تو ان کے حامی انہیں ’’کمزور‘‘یا ’’روسی ایجنٹ‘‘ سمجھ لیتے۔جبکہ ٹرمپ کا پورا سیاسی بیانیہ یہی تھا کہ ’’میں امریکہ کو عظیم بنا رہا ہوں اور میں کمزور نہیں ہوں۔‘‘ اگر وہ زیلنسکی کو زیادہ دھکا دیتے، تو یہ ان کے فالورز کو ایک ’’کمزوری‘‘ لگتا۔ دوسری طرف اگر وہ زیلنسکی کو کھل کر سپورٹ کرتے تو اُن پر روس کے ساتھ سازباز کے الزامات مزید بڑھ جاتے۔الغرض حقیقی قیادت کا تقاضا یہ ہے کہ نعرے بازی سے آگے بڑھ کر عملی پالیسیاں بنائی جائیں جو قوم کو ترقی اور استحکام کی طرف لے جائیں۔ ایک ایسے دور میں جہاں عوامی جذبات کو بھڑکانا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو چکا ہے، یہ ضروری ہے کہ سیاست کو وقتی نعروں کے بجائے طویل المدتی سوچ اور حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی پر استوار کیا جائے۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]