موجودہ دنیا مادی ترقیوں کے میدانوں میں سر پٹ دوڑکر زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی اونچائیوں کو برا بر مسخر کر رہی ہے مگر ا فسوس کہ تعمیر وترقی کی اسی فضاکے بین بین کل جہاں اخلاقی تنزل کے چلتے متواتر پستیوں اور ناہنجاریوں کی کھائیوں میں بھی لڑھکتا جارہا ہے۔ اس کے پس پردہ وجوہات کا ایک بڑا دفتر کافرما ہے ۔ کشمیر میں بھی اخلاقی افلاس کا گراف نت نئے جرائم کی صورت میں روبہ ترقی ہے ۔ ا س سلسلے کی تازہ کڑی یہ ہے کہ قوم کی بیٹیاں آج کل گیسو تراشی کی ایک پُر اسرار ، شرارت انگیز اور جگر سوز مہم کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔ دنیائے جرائم کی یہ کر یہہ الصورت داستان فی الحال لوگوں کو سکھ چین چھین رہی ہے ۔ ان ہوش رُبا مجرمانہ حرکات کے پیچھے مجرموں کے اہداف واغراض کیا ہیں، اُس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کر نا دشوار ہے کیونکہ یہ جرم عظیم فی الحال پُرا سراریت اور اخفاء کے دبیز پردوں میں لپٹا ہوا ہے ۔ بایں ہمہ اس میں دورائے نہیں کہ یہ مذموم مشن بھی ایسی دوسری کارستانیوں کی طرح بداخلاقی اور بددماغی کے بطن سے پھوٹی کوئی نئی آندھی ہی ہوسکتی ہے جو وادی بھر کے عوام و خواص کوفکر وتشویش میں ڈبو ئے ہوئی ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہورہاہے کہ کشمیر جیسی چرب دست وتر دماغ قوم کی تقدیر میں یکے بعد دیگرے ایسی نحوستیں اور ایسے لاینحل بحران آرہے ہیں جو ختم ہونے کانام نہیں لے رہے ہیں۔ آدمی کا سر چکراتاہے کہ آخر اس سرزمین کو کس کی بد نگاہی کھاگئی کہ سکون واطمینان یہاں کے لوگوں سے برابر روٹھاہوا ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جانب یہاں لاتعداد تعلیمی ادارے اور تربیتی مراکز تعلیم وتدریس کا اُجالا پھیلار ہے ہیں ، نئے نئے دارالعلوم معرضِ وجود میں آکر لوگوں کی اخلاقی نشوونماکررہے ہیں، شرح خواندگی میں بھی مسلسل بڑھوتری ہورہی ہے ، کشمیری طلبہ اور اسکالرس آل انڈیا سطح کے ساتھ ساتھ عالمی اُفق پر بھی مختلف شعبوں میں اپنی لاجواب کارکرگی سے قوم کا سینہ پھلا ئے جار ہے ہیں ، جب کہ دوسری طرف ہماری صفوں میں جرائم کی بدنمائیاں روز افزوں پنپ ر ہی ہیں ۔ اس متضاد روش پر آدمی کا دماغ چکراتا ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ صورت حال تمام اہل وطن کے لئے تازیانہ ٔ عبرت ہے۔ قوم اور سماج میں اخلاقی ذلت و پستی کے پیچھے کو ن سے اسباب ومحرکات دخیل ہیں، اس بارے میں لوگ اگر چہ مختلف الرائے ہیں،البتہ اخلاق سوزی کے بُرے نتائج کا بھگتان ہم سب مشترکہ طور کر رہے ہیں، ان سے ہمارا دامن ِ تہذیب تار تار ہو ر ہاہے ، تطہیر معاشرہ کا جذبہ دن بہ دن مفقود ہورہاہے،تعلیم وتعلم کا آدم گر انہ مشغلہ سر تا پا کمرشلزائز ہورہاہے ، تعلیم کا ناقص تصور نسل ِ نو میں فرسٹیشن بڑھا تا جارہا ہے ، منشیات کا موذی مرض سماج میں اپنے بال وپر بلا روک ٹوک پھیلاتا جارہاہے اور اس میںجو کوئی کمی رہے اُسے بالی وڈ فلموں کا ننگا پن ، ماردھاڑ ، جنسی ہیجان کی آگ بھڑکا نے والے چنل اور برہنہ فیشن جیسی جان لیوا وبائیں پورا کر رہی ہیں ۔اس ناگفتہ بہ فضا میںجرائم کا پروان چڑھنا اور پھلنا پھولنا فطری بات ہے۔ بہرصورت اس گھمبیر صورت حال کا تدارک کر نے میں نہ صرف قوم فرداًفرداً ذمہ دار ہے بلکہ سول سوسائٹی اور سماجی اصلاح کاروں پر واقعی یہ ناقابل التواء ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو اخلاقی زبوں حالی کے دلدل سے نکال باہر کر نے میں اپنی تیر بہدف کاوشیں کریں ۔ اگر وہ اس فریضے کی انجام دہی سے تجاہل عارفا نہ بر تنے لگیں تو بگاڑ کا خزاں کسی بھی طرح بناؤ کی بہاروں میں بدلا نہیں جاسکتا ۔ اس سلسلے میں سر کاری سطح پر بھی اصلاح ِ احوال کی ایک موہوم سی اُمید پولیس فورس کے ڈنڈے سے وابستہ کی جاسکتی تھی مگر یہاں سالہاسال سے جاری قیامت خیزسیاسی ہلچل اور پُر تشد د واقعات کے پس منظر میںاس محکمہ کی وساطت سے لوگوں کو اخلاقی ضوابط کی خوراکیں پیناقابل قبول نہ ہوں گی۔ لہٰذاگھوم پھر کے گیند عوام کے پالے میں آتی ہے ، جب تک عوام الناس خود اخلاقیات کے گلستان کے مالی نہ بنیں اور مخرب ِاخلاق عناصر کے خلاف اپنی سطح پر پُر امن اجتماعی ایکشن پلان ترتیب دے کر اسے گھر سے لے کر بازار تک نہیں عملایں ہم اخلاق باختگی کے جہنم زار سے کبھی نجات نہیں پاسکتے۔ عام لوگوں کے پہلو بہ پہلو تمام سماجی ریفارمر وں کو بھی معاشرے میں اخلاقی تعمیر نو کے لئے کمر ہمت باندھ اس جہنم کو بجھانا ہوگا جس کا ایندھن خاص کر ہماری نئی پود بن رہی ہے ۔ خبردار!سماج کے تئیں اگر ہم سب ا پنی اہم ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو نے میں لیت لیل کریں تو جرائم کی کوکھ سے یہی المیے جنم لیتے رہیں گے جو ا س و قت ایک منظم سازش کی شکل میں عفت مآب کشمیرکی بیٹیوں کی نیندیں حرام کر رہے ہیں ۔اگر ہم اب بھی نہ جاگیں تو خدشہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان نئے نئے فتنے جاگ جائیں۔ دنیا گواہ ہے کہ جب دلی میں پھول چہرہ سنجے چوپڑا ور گیتا چوپڑا کو رنگا اور بلا جیسے نامی گرامی بدمعاشوں نے اغواء کر کے وحشیانہ موت کے گھاٹ اُتاردیا تو عوام نے فوری طورحرکت میں آکر انسانیت کے ان مجرموں کو پولیس کے ہاتھوں پھا نسی کے پھندے تک لا نے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ سال 2012ء میں جب رات کے اندھیرے میں دامنی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کر کے اُسے درندوں کی ٹولی نے جان بلب حالت میں سر راہ چھوڑ دیا، تو دلی کے غیرت مند عوام نے ا س وقت تک چین کی سانس نہ لی جب تک ان شیطان صفت مجرموں کو ایک ایک کر کے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑ انہ کیا ۔ غرض جب سماج اور قانون مجرموں کے سامنے خود سپردگی کریں نہ جرائم کے آگے بھیگی بلی بنیں ،تبھی عوام الناس کی جیت اور مجرموں کی ہار پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔ کوئی بھی سازشی ٹولہ یا مجرم وں کا گروہ رائے عامہ کے غیر معمولی دباؤ کے آگے دیر سویر جھک جانے پر مجبور ہوجاتاہے ۔ لہٰذا سب سے اول ہم لوگوں کو گیسو تراشی جیسے ناقابل معافی جرم کی منظم روک تھام میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے ایک پُرامن غیر سیاسی جوابی مہم کی باگ ڈور سنبھالناہوگی تاکہ مجرموں کو پیغام ملے کہ عوام چوکنا ہیںاور ان کی دال گلنے والی نہیں۔ بصورت دیگر پیر واری کہلانے والی اس سرزمین میں جرائم کی نر سر یاں کسی نہ کسی بہا نے پروان چڑھتی رہیں گی۔ اس ضمن میں قوم کا کوئی طبقہ کسی بھی حال میں اپنی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا ۔مختصراً تادم تحریر کشمیر کے بعض علاقوں میں بنت حوا کی گیسو تراشی کے جو حیران کن اور پریشان کر نے والے غم ناک واقعات رونما ہوئے ہیں ، ان کی آگے روک تھام کے لئے سرکار کو اور زیادہ سنجیدہ اقدامات کر نے کی ضرورت ہے۔ پولیس کی جانب سے اس جرم میں ملوثین کی نشاندہی کر نے پرانعام سے زیادہ ایک واضح حکمت عملی کا ہو نا از حد ضروری ہے ۔ اگر سرکاری اور سماجی سطحوں پرسب اپنی اپنی مفوضہ ذمہ داریوں سے بھر پور ا نصاف کر تی ہے تو مجرموں کو پکڑ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچنا نا بعید ازامکان نہیں ۔