آندرے بیرناتھ
ہمارا معدہ کروڑوں اعصابی خلیوں کا گھر ہے اور یہی سے 95 فیصد سیروٹونن پیدا ہوتے ہیں جو کہ ہماری صحت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ کسی نیورو یا اعصابی ٹرانسمیٹر کی طرح کام کرتے ہیں۔حال ہی میں سامنے آنے والے نئے شواہد نے آنتوں میں موجود مائیکرو بائیوٹا کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ مائیکرو بائیوٹا در اصل کھربوں بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور دیگر خوردبینی اجسام کا ایک گروپ ہے جو جسم اور دماغ کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معدہ اور دماغ کس طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تعلق کیسے قائم ہوتا ہے؟ اور کیا صحت مند اور خوشگوار زندگی کے لیے اس رابطے کو بہتر بنانا ممکن ہے؟
معدے اور دماغ کا جوڑ:معدے کی ماہر ڈاکٹر صالحہ محمود احمد بتاتی ہیں کہ یہ دونوں اعضا، معدہ اور دماغ، تین مختلف طریقوں سے جڑے ہوئے ہیں۔پہلا ’ویگس نرو‘ یعنی عصب تائیہ ہے۔ یہ اعصابی نظام کا ایک بہت اہم ڈھانچہ ہے جو دماغ کو دل اور آنتوں جیسے کئی اعضا سے براہ راست جوڑتا ہے۔انھوں نے کہا کہ دماغ اور معدہ ہارمونز کی مدد سے بات کرتے ہیں۔ گھریلن اور جی ایل پی۔1 جیسے ہارمونل مادے گلینڈز یا غدود کے ذریعے تیار ہوتے ہیں اور پورے جسم میں سگنل بھیجتے ہیں۔
تیسرا حصہ مدافعتی نظام ہے: ڈ اکٹر صالحہ کہتی ہیں’بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مدافعتی خلیے صرف خون یا لمف نوڈس میں رہتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کا ایک بڑا حصہ آنتوں میں سرگرم رہتا ہے اور دماغ اور پورے آرگینزم کے درمیان ثالث کا کام کرتا ہے۔‘امریکہ کے میو کلینک میں معدے کے ماہر ڈاکٹر پنکج جے پسریچا نے اس خاص تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ دماغ کو کام کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور معدہ ہمارا اپنا پاور ہاؤس ہے۔وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دماغ ہمارے جسمانی وزن کا صرف دو فیصد ہے لیکن وہ جسم کی توانائی کا 20 فیصد استعمال کرتا ہے اور آنتوں کا کام خوراک کو سادہ مالیکیولز میں توڑنا اور انھیں جذب کرنا ہے تاکہ پورے آرگینزم کو ‘ایندھن فراہم کیا جا سکے۔لیکن یہ دو طرفہ رشتہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو جہاں دماغ معدہ کو متاثر کرتا ہے وہیں معدہ بھی دماغ کو متاثر کرتا ہےاور ہمیں غور کرنے پر اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔جب ہمیں کسی خطرناک یا سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ دفتر میں ہونے والی اہم میٹنگ سے قبل ہمارے پہلے جسمانی ردعمل میں سے ایک آنتوں میں کچھ ہونا ہے۔ ایسے میں ہمیں متلی محسوس ہو سکتی ہے، پیٹ میں درد ہو سکتا ہے یہاں تک کے بدہضمی یا ڈائریا بھی ہو سکتا ہے۔ہماری آنتوں میں 10 کھرب سے 100 کھرب مائیکروبیل سیلز یا خلیات پائے جاتے ہیں۔ ان میں بیکٹیریا، وائرس، فنگس، پروٹوزوا اور دیگر ایسے جاندار پائے جاتے ہیں جو کو مائیکروسکوپ کے بغیر دیکھنا ممکن نہیں۔مائیکروبیل سیلز کی یہ تعداد انسانی خلیات سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مائیکروبیل کمیونٹی ہمارے ساتھ ایک باہمی تعلق رکھتی ہے۔ یہ ہماری خوراک سے غذائیت حاصل کرتے ہیں اور ہمیں ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ کچھ اجزا کو تو یہ توڑتے ہیں جنھیں ہمارا جسم خود نہیں توڑ سکتا۔ڈاکٹر احمد کے مطابق سائنسدانوں نے ایسی نئی ٹیکنالوجی اور ٹیسٹ پر کام کیا ہے جو آنتوں میں پائے جانے والے جرثوموں کو جانچنے اور اُن کے باعث مختلف بیماریوں پر اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ ڈس بایوسس موٹاپے، دل کی بیماریوں اور یہاں تک کہ کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔تاہم ڈاکٹر پسریچا کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ابھی اتنے شواہد نہیں کہ ہم آنتوں کی خرابی کو کئی بیماریوں کی بنیادی وجہ یا اثر کا تعلق قائم کر سکیں۔ کچھ ایسے شواہد موجود ہیں جن میں جانوروں اور انسانوں پر کی گئی تحقیق میں سامنے آنے والے مسائل آنتوں سے شروع ہو کر ڈپریشن یا بے چینی کا باعث بننے والی ذہنی بیماریوں کا سبب بنے،لیکن کیا یہ بیماریاں واقعی آنتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں؟ اس کا ہمیں ابھی یقین نہیں۔آنتوں کی مائیکرو بایوٹا اور دماغ سے اس کے تعلق کے بارے میں تحقیق کے پیش نظر کیا واقعی ممکن ہے کہ ہمارے پیٹ میں موجود خوردبینی جانداروں کے درمیان ایک مکمل توازن برقرار رکھا جا سکے۔ڈاکٹر صالحہ احمد کےمطابق یہ کام مشکل ہے کیونکہ ہر شخص کے مائیکرو بایوم یعنی بیکٹیریا، وائرس اور دیگر خوردبینی جاندار مختلف ترتیب سے موجود ہوتے ہیں،ہر انسان کا مائیکرو بایوم الگ ہوتا ہے۔ آپ کسی اور انسان کے ساتھ اپنے نظام کا موازنہ نہیں کر سکتے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ عمومی تدابیر ایسی ہیں جو آنتوں کی صحت کے لیے فائدہ مند سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً متنوع اور متوازن غذا کا استعمال ایک اچھا آغاز ہے۔نظامِ ہضم کے لیے فائدے مند بیکٹیریا پر مبنی غذائیں جیسے کہ دہی، کفیر اور کومبوجا پروبائوٹکس جبکہ ریشے دار اجزا پر مبنی خوراک جیسا کہ پھل اور سبزیاں پری بائیوٹک کہلاتی ہیں اور ان کا استعمال بھی قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ڈاکٹر صالحہ کے مطابق غذا میں تنوع بہت اہم ہے، خاص طور پر پودوں پر مبنی غذاؤں کی مقدارہمارے نظام کے لیے بہت مفید ہے۔ماہر نظام انہضام کی حیثیت سے وہ تجویز دیتی ہیں کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی روز مرہ کی خوراک میں پھل، سبزیاں، اناج، دالیں، گریاں، بیج اور مسالحے شامل رکھے۔اور یاد رکھیں کہ ہمیں اپنی غذا میں پودوں پر مبنی خوراک کی مقدار بڑھانی چاہیے۔(بی بی سی)