سبدر شبیر
یقین، سکون اور خوشی ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو بظاہر بہت معمولی لگتے ہیں، لیکن جب انسان ان کے مفہوم میں اترتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک گہرا سمندر پوشیدہ ہے۔ انہی میں سے ایک ہے ’’دل کا اطمینان‘‘۔ یہ کوئی مادی شے نہیں کہ بازار سے خریدی جائے، نہ کوئی تحفہ ہے جو کسی سے مانگا جائے بلکہ یہ ایک کیفیت ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے، جب وہ اپنے رب، اپنی فطرت اور اپنی حقیقت سے جُڑ جاتا ہے۔ دل کا اطمینان ایک ایسی دولت ہے جو ہر انسان چاہتا ہے، لیکن اکثر اسے غلط راستوں میں تلاش کرتا ہے۔ یہ مضمون اسی تلاش کا بیان ہے۔وہ تلاش جو ہم سب کی زندگی میں جاری ہے۔
انسان کی فطرت میں بےچینی ہے، اسے ہمیشہ کچھ نہ کچھ اور چاہیے۔ جب ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھاتی ہے، مگر ہر خواہش کی تکمیل کے باوجود وہ اندر سے خالی محسوس کرتا ہے۔ اگر دل کا سکون دولت میں ہوتا تو قارون سب سے زیادہ مطمئن انسان ہوتا۔ اگر طاقت میں ہوتا تو فرعون سب سے خوشحال شخص ہوتا۔ اگر شہرت میں ہوتا تو وہ ستارے جو روشنی میں بھی اندھیرے میں ڈوبے ہوتے ہیں، کبھی افسردہ نہ ہوتے۔ لیکن تاریخ اور حالیہ دنیا یہی ثابت کرتی ہے کہ دل کا سکون ان سب چیزوں میں نہیں بلکہ کسی اور ہی جہت میں ہے۔دل ایک ایسا راز ہے جو صرف اس خالق کے ذکر سے منور ہوتا ہے جس نے اسے تخلیق کیا۔ قرآن مجید میں صاف الفاظ میں ارشاد ہوتا ہے:’’جان لو! دلوں کو اطمینان صرف اللہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘یہ محض ایک آیت نہیں بلکہ ایک مکمل راستہ ہے، ایک زندگی کا فلسفہ ہے۔ جب انسان اللہ کے ذکر میں ڈوبتا ہے، اس کی عبادات میں اپنے آپ کو فنا کرتا ہے تو اس کے اندر کا اضطراب دھیرے دھیرے ختم ہوتا ہے۔ وہ خواہشات جو دل کو جلاتی تھیں، اب مدھم ہونے لگتی ہیں۔ وہ حسد، وہ لالچ، وہ غصہ جو دِل کو بوجھل کرتے تھے، آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتے ہیں اور انسان ایک نئی دنیا میں قدم رکھتا ہے ۔ جہاں دل مطمئن ہوتا ہے، روح شاداب اور جسم ہلکا۔
لیکن کیا یہ اتنا آسان ہے؟ کیا صرف چند تسبیحات، چند رکعات نماز یا چند دعائیں پڑھنے سے دل کا سکون حاصل ہو جاتا ہے؟ نہیں۔ اصل راز اس اخلاص میں چھپا ہے جو انسان اپنے رب سے تعلق میں لاتا ہے۔ یہ تعلق صرف عبادات کی مشقوں کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل رجوع، ایک مسلسل اعتراف، ایک مسلسل جھکاؤ ہے۔ جب انسان یہ مان لیتا ہے کہ وہ خود کچھ نہیں، سب کچھ ربّ کا ہے، تب اس کے دِل میں ایک نئی روشنی پیدا ہوتی ہے، وہ روشنی جو اطمینان کا آغاز ہوتی ہے۔
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ دل کا سکون محبت میں ہے۔ ایک ایسا شخص جو ہمیں سمجھے، جو ہمارے دکھ سنے، جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہو۔ مگر سچ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی محبت کامل نہیں۔ ہر رشتہ اپنی جگہ ناقص ہے، وقتی ہے، مشروط ہے۔ انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ توقع کرتا ہے اور جب توقع پوری نہ ہو تو دل میں خالی پن پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کی محبت کامل ہے، بے لوث ہے، دائمی ہے۔ جب انسان اس سے محبت کرتا ہے تو وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا، کیونکہ رب نہ کبھی چھوڑتا ہے، نہ بدلتا ہے۔دل کا سکون کسی پر آسرا رکھنے سے نہیں بلکہ خود کو رب کے حوالے کرنے سے آتا ہے۔ وہ لمحہ جب انسان مکمل طور پر کہہ دیتا ہے:’’یا اللہ! میں بے بس ہوں، تو کافی ہے۔‘‘وہی لمحہ اطمینان کی شروعات ہوتا ہے۔بعض اوقات انسان آزمائشوں میں گھرا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی دل کو عجیب سا سکون محسوس ہوتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سب ربّ کی طرف سے ہےاور وہی نکالنے والا ہے۔ حضرت ایوبؑ کی زندگی اس کا بہترین نمونہ ہے۔ مال، اولاد، صحت سب کچھ چھن گیا، مگر صبر باقی رہا، دل کا سکون باقی رہا، کیونکہ تعلق ربّ سے جڑا تھا۔
دوسری طرف کچھ لوگ بظاہر بہت خوشحال نظر آتے ہیں، لیکن اندر سے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ہنسی ہوتی ہے، مگر آنکھوں میں خالی پن ہوتا ہے۔ وہ محفلوں میں ہنستے ہیں، مگر تنہائی میں روتے ہیں۔ ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے، سوائے دل کے سکون کے۔ کیونکہ انہوں نے دل کو دنیا سے جوڑ دیا اور دنیا کبھی وفا نہیں کرتی۔
دل کا سکون ہمیں اس وقت بھی نہیں ملتا، جب ہم دوسروں کی زندگی سے اپنے آپ کو موازنہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں یہ عادت ڈال دی ہے کہ ہم دوسروں کی خوشیاں دیکھ کر اپنے آپ کو کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جو سکون اپنے باطن کی صفائی میں ہے، وہ ظاہری چمک دمک میں نہیں۔
دل کا اطمینان قناعت سے بھی جڑا ہوا ہے۔ جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے، وہی میرے لیے بہتر ہے، تب وہ شکرگزار بنتا ہے اور شکر دل کو وسیع کر دیتا ہے، اس میں وہ کشادگی پیدا کرتا ہے جس میں حسد، غصہ، لالچ اور نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی۔ دل کا سکون صرف انہی دلوں میں اترتا ہے جو کھلے ہوتے ہیں، جو نرم ہوتے ہیں، جو درگزر کرتے ہیں۔
ایک اور پہلو جو دل کے سکون سے جڑا ہوا ہے، وہ ہے ’’سچائی‘‘۔ جھوٹ، فریب، منافقت، یہ سب دل کو بے سکون کرتے ہیں۔ چاہے دنیا کو دھوکہ دے دو، مگر ضمیر کو نہیں۔ اور ضمیر جب ملامت کرتا ہے تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ سچ بولنا چاہے مشکل ہو، دِل کو ہلکا کر دیتا ہے۔ ایک سچا انسان شاید وقتی نقصان اٹھا لے، مگر ہمیشہ دل کا سکون پاتا ہے۔
دل کا اطمینان صرف ایک روحانی کیفیت نہیںبلکہ یہ جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جو انسان مطمئن ہوتا ہے، اس کی نیند بہتر ہوتی ہے، اس کا چہرہ پرسکون ہوتا ہے اور اس کی گفتگو میں بھی ایک گہرائی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کو بھی راحت پہنچاتا ہے۔ اس کے برعکس جو دل سے بے چین ہوتا ہے، وہ بے آرام ہوتا ہے، جلدی غصے میں آتا ہے، اور دوسروں کے ساتھ بھی سختی سے پیش آتا ہے۔آخر میں دل کے سکون کا تعلق صرف کسی منزل تک پہنچنے سے نہیںبلکہ اس سفر سے ہے جو ہم روز اپنے رب کی طرف کرتے ہیں۔ ہر سجدہ، ہر دعا، ہر آنسو، ہر معافی، ہر شکرگزاری ۔ یہ سب وہ چراغ ہیں جو دل کے
اندھیرے کم کرتے ہیں اور یہی چراغ مل کر دل کو وہ روشنی دیتے ہیں جو اطمینان کہلاتی ہے۔
آئیے! ہم سب تھوڑی دیر کو رکیں، خود سے سوال کریں:’’کیا میں واقعی مطمئن ہوں؟‘‘اگر نہیں، تو شاید ہمیں اپنا راستہ بدلنے کی ضرورت ہے۔شاید ہمیں دنیا سے نظریں ہٹا کر رب کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔شاید ہمیں دل کو صاف کرنے، معاف کرنے، سچ بولنے، شکر کرنے اور سب سے بڑھ کر، ربّ کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ دل کا سکون، صرف اسی کے پاس ہے، جس نے دل بنایا ہے۔
[email protected]