عارفہ منظور
زمانہ جاہلیت میں عورت پوری دنیا میں اور عرب معاشرہ میں کس آزمائش سے گزر رہی تھی، بر صغیر ہند میں عورتوں کی کیا حالت تھی، مذہب عیسائیت میں عورت کے حقوق کیا تھے ، یہودیت میں عورت کا کیا حال تھا؟ اس کی تفصیل نیٹ پر اور کتابوں میں موجود ہے۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے آکر عورت کو بے وقعتی و ناقدری اور زبوں حالی وکسمپرسی ، ذلت ورسوائی کی پستیوں سے اٹھایا اور وہ عزت و تکریم اور مقام و مرتبہ دیا، جس کی مثال نہ کسی اور مذہب میں اور نہ ہی کسی قانون میں مل سکتی ہے۔اس موضوع پر پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، ہم فی الحال اسکا تذکرہ نہیں کرتے، اسکی چند مثالیں پیش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو جو آزادی اس سے انہوں نے کیسے فائدہ اٹھایا:
اسلام کے زیر سایہ اور’’حیا اور پردے کے ساتھ‘‘ صنف نازک نے ہر وہ کارنامہ انجام دیا جو صرف اسی کا حصہ تھا۔ اسلام نے عورت کو میدان جہاد میں تلوار چلانے سے منع کیا ہے نہ مسجد میں جانے سے، غزوہ احد میں اْمِ عمارہؓ کے ابن قم پر تلوار سے وار کا کون انکار کرسکتا ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید کرنے کی خبر اُڑا دی تھی اور مسجد نبوی میں انصار و مہاجر عورتوں کی حاضری ناقابل تردید حقیقت ہے۔ خنساءؓ اور جہاں گیر کی بہن زیب النساء کی زبردست شاعری کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا۔ اندلس کی مشہور محدثہ ام سعد علم حدیث میں با کمال تھیں، قرطبہ کی لبانہ علم حساب وہندسہ کی بڑی ماہر تھیں، الجبرا اور مساحت و پیمائش کے نہایت پیچیدہ مسائل وہ چٹکیوں میں حل کر دیتی تھیں۔
ایمرجنسی اور انتہائی نا گزیر حالت میں عورت کسی بھی معاملہ کی قیادت کرسکتی ہے، ام المومنین عائشہ ؓ کی جنگ جمل میں فوج کی قیادت تاریخ اسلام کا ایک اہم روشن باب ہے۔ نبی کریمؐ اور ام المومنین عائشہؓ کے دوڑ کے مقابلے کے بارے میں آپ نے پڑھا ہو گا۔ سردار دو جہاں نبی کریمؐ کے صلح حدیبیہ کے موقع پر ام المومنین اُم سلمہ ؓکی رائے کو قبول کر کے اس پر عمل کرنا، عورتوں کی عزت و تکریم کا زریں باب ہے۔ غرض کہ کون سے شعبہ ہائے حیات ہیں کہ اسلام نے عورت کو ان کے اپنے دائرے میں رہ کر کار ہائے نمایاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی ہے۔
آج کی نام نہاد روشن اور ماڈرن جاہلیت میں عورتوں کو آزادی کے نام سے دوبارہ اسی ظلم ، بے وقعی، بے قدری، ذلت اور رسوائی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔دور حاضر میں یورپ و امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جو صرف اور صرف تجارتی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے ، وہ اشتہاری کمپنیوں کا جز ء لا ینفک ہے ، بلکہ یہاں حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیئے گئے ہیں اوراس کے جسم کو تجارتی اشیاء کے لیے جائز کر لیا گیا ہے، اور مردوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون سے اسے اپنے لئے ہر جگہ پراس کے ساتھ کھیلنا ہی مقصد بنا لیا ہے۔
عورت نے اس نعرے کے فریب میں آکر جب گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا تو اسے ہوٹلوں میں ریسیپشن پر، ہسپتالوں میں بطور نرس، ہوائی جہازوں میں بحیثیت ایئر ہوسٹس، تھیٹروں میں بحیثیت اداکارہ یا گلوکارہ، مختلف ذرائع ابلاغ میں بحیثیت اناؤنسر بٹھا دیا گیا، جہاں وہ اپنی خوبروئی ، دلفریب ادا اور شیریں آواز سے لوگوں کی ہوس نگاہ کا مرکز بن گئی۔فحش رسائل و اخبارات میں ان کی ہیجان انگیز عریاں تصویر چسپاں کر کے مارکیٹنگ کا وسیلہ بنایا گیا تو تاجروں اور صنعتی کمپنیوں نے اسی نوعیت کی فحش تصویر اپنے سامان تجارت اور مصنوعات میں آویزاں کر کے انہیں فروغ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔یہی نہیں بلکہ جس کی نظر آج کی فحاشی و عریانیت پر ہے وہ اچھی طرح واقف ہے کہ مس ورلڈ، مس یونیورس اور مس ارتھ کے انتخابی مراحل میں عورت کے ساتھ کیا کھلواڑ نہیں ہوتا، نیز فلموں میں اداکاری کے نام پر اور انٹرنیٹ کے مخصوص سائٹ پر اس کی عریانیت کے کون سے رُسواکن مناظر ہیں جو پیش نہیں کئے جاتے، اگر یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق پانے کی علامت ہے تو انسانیت کو اپنے پیمانہ عزت و آنر پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
یاد رہے کہ یہ سب معاملہ عورت کے ساتھ اس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک اس میں مردوں کی کشش، ابھرتی جوانی کی بہار ، دل ربا دوشیزگی کا جوبن اور شباب و کباب کی رونق رہتی ہے ، لیکن جب اس کے جوبن میں پژمردگی آ جاتی ہے، اس کی کشش میں گھن لگ جاتا ہے، بازاروں میں اس کی قیمت لگنا بند ہو جاتا ہے، اس کے ڈیمانڈ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اس کی ساری مادی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے تو یہ معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے ،وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے اس کو چھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیں اور وہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے یا پھر پاگل خانوں میں۔۔۔! یہ ہے آزادی نسواں کی موجودہ کڑوی حقیقت اور یہ ہے اس کا حتمی برا انجام۔ آزادی نسواں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مغربی مصنف یوں رقم طراز ہے:’’وہ نظام جس میں عورت کے میدان عمل میں اترنے اور کارخانوں میں کام کرنے کو ضروری قرار دیا گیا، اس سے ملک کو چاہے کتنی بھی دولت و ثروت مہیا ہو جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے گھریلو زندگی کی عمارت زمین بوس ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ اس نظام نے گھر کے ڈھانچہ پر حملہ کر کے خاندانی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرتی تعلقات و روابط کے سلسلہ کو درہم برہم کر دیا ہے‘‘۔ایک دوسری مغربی مصنفہ جو کہ پیشہ سے ڈاکٹر بھی ہے، وہ اپنے مغربی معاشرے کے اندر رونما ہونے والے بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں خامہ فرسا ہے:’’خاندانی زندگی میں رونما ہو نے والے بحرانوں کا سبب اور معاشرے میں جرائم کے بکثرت بڑھ جانے کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ عورت نے گھر کی چار دیواری کو الوداع کہا، تاکہ خاندان کی آمدنی دوگنی ہو‘‘۔۔۔ اور واقعی آمدنی تو بہت بڑھ گئی مگر اس سے معیار اخلاق انتہائی نچلی سطح تک گر گیا۔ تجربات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ آج نسل نو جس بحران میں مبتلا ہے، اسے اس سے بچانے اور نکالنے کا صرف ایک ہی راستہ اور طریقہ ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ عورت کو دوبارہ اس کے اصل مقام یعنی گھر میں واپس لایا جائے‘‘۔مسلم عورت کو مسٹر پیر کریٹس اس طرح خراج پیش کرتا ہے: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے برقعہ پوش مسلم خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں وہ حقوق حاصل ہو گئے ہیں جو بیسویں صدی میں ایک تعلیم یافتہ عیسائی عورت کو حاصل نہیں‘‘۔ (اعتراف حق ص 209)یہاں پہنچ کر بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ زبان پر آجاتا ہے:
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ آزادی نسواں کہ زمر د کا گلو بند