ڈاکٹر نوشاد جہازمیں داخل ہوکر اپنی سیٹ نمبر ائیر ہوسٹس سے معلوم کررہا تھاکہ ایک نوجوان نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہوکر انہیں سلام کیا۔ دوسرا نوجوان اسی مقصد کیلئے کھڑے ہوکر نمستے کرنے لگا ۔
پچھلی قطارکی سیٹ سے ایک لڑکا اور لڑکی ان حضرت کو عزت دینے کے لئے آگے کی طرف آئے ۔
سارے مسافر حیران ہوئے کہ آخر یہ کون شخص ہے ؟ جس کواتنی عزت دی جارہی ہے۔
ان حضرت نے ان سبھوں کا کو ہاتھ کے شارے سے شکریہ کیا۔
یہ سب دیکھ کر ائیر ہوسٹس نفیسہ بھی حیران ہوئی۔ آخر یہ کون شخص ہے جس کی اتنی عزت کی جارہی ہے؟
نفیسہ نے دل ہی دل میں کہا
جہاز روانہ ہونے کے قریباً ایک آدھ گھنٹہ بعد مسافروں میں سے ایک نے، جس کا بعد میں پتہ چلاکہ وہ ڈاکٹر الیاس ہے، نے بیل بجاکر کافی کاآرڈر دیا۔
جب نفیسہ نے کافی کا کپ ڈاکٹر الیاس کوپیش کیا تو اس نے یہ کپ ڈاکٹر نوشاد کو دیا۔
یہ دیکھ کر نفیسہ اور زیادہ تجسس میںپڑ گئی۔
ڈاکٹر نوشاد نے ڈاکٹر الیاس کاشکریہ اداکیا ۔
دو تین گھونٹ پینے کے بعد کافی کے مزیدار ہونے کادوبارہ شکریہ کیا ۔
جب نفیسہ نے ڈاکٹر الیاس کو دوسرا کپ دینے کے لئے پوچھا تو اس نے کہا!
نہیں میڈم۔ میںنے ان کے لئے ہی آڈر دیا تھا۔ وہ کافی کے بہت شوقین ہیں۔
یہ ڈاکٹر نوشاد دہلی کے مانے ہوئے ہارٹ سرجن ہیں۔ ایک بڑے ہسپتال میں چیف ہارٹ سرجن ہیں۔ یہ جوتین چار مسافر ان کو دیکھ کراپنی نشستوںسے کھڑے ہو کرعزت دے رہے تھے ، یہ بھی دہلی کے مختلف ہسپتالوں میں تعینات ہیں۔ یہ سبھی ان کے سٹوڈنٹ رہے ہیں۔
یہ سن کر نفیسہ بہت خوش ہوئی ۔ کافی کا کپ واپس لیتے ہوئے نفیسہ نے ڈاکٹر نوشاد سے کہا
جباب کیا میں چند لمحوں کیلئے آپ کی توجہ حاصل کرسکتی ہوں؟
ہاں! کیوں نہیں؟ ڈاکٹر نوشاد نے کہا
جناب! میرے والد صاحب دل کے مریض ہیں اور گذشتہ دو برسوں سے ایک ماہر امراضِ قلب کے زیر علاج ہیں، لیکن اب انہوں نے امراض قلب کے کسی سرجن سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیاہے۔ خوش قسمتی سے اب آپ ہمارے ساتھ ہیں، جناب، کیا آپ ہماری کچھ مدد کرسکتے ہیں۔ نفیسہ نے بہت عاجزی کے ساتھ کہا۔
بالکل! آپ سوموار کو صبح دس بجے متعلقہ میڈیکل ریکارڈ کے ساتھ میرے اُو پی ڈی میں آسکتے ہیں۔
میں اُنکو دیکھ لونگا، آپ فکر نہ کریں۔ ڈاکٹر نوشاد نے جواب دیا۔
شکریہ، نفیسہ نے کہا۔
پھر ایک دن سوموار کو پورے دس بجے نفیسہ اپنے والد کو لیکرڈاکٹر صاحب کے OPDمیں لے گئی۔
اس نے والد صاحب کو OPD کے باہر بنچ پر انتظارکرنے کے لئے بٹھایا اورخود ٹکٹ بنوانے کے لئے گئی ۔ جب وہ واپس آئی تو ان کے والدصاحب وہاں پر نہ تھے ۔
انتظارکررہے دوسرے مریضوں سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ ڈاکٹر نوشاد نے ان کوپہچان لیا ! ان کے گلے ملے اور اپنے ساتھ اپنے چمبر میں لے گئے ۔
یہ سن کرنفیسہ بھی اندر چلی گئیں۔
اری! بیٹی۔ یہ تو میرے استاد رہے ہیں۔ ڈاکٹر نوشاد نے ان کے والد صاحب حبیب اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ان سے میںنےصرف Zoologyہی نہیں پڑھی بلکہ یہ ہر لیکچر کے بعد روزانہ انسانیت اور خلاقیات پر درس دیا کرتے تھے۔
ان کے لیکچرس نے مجھے صرف ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ ایک اچھااورصحیح مسلمان بھی بنانے میں مدد کی۔
میں انکے اس احسان کا حق زندگی بھر ادا نہیں کرسکتا۔
میری خوش قسمتی کہ آج مجھے ان کا علاج کرنے کا موقع ملاہے ۔
آپ بے فکررہیں۔ اب یہ میرا فرض ہے ۔
ملاحظہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نوشاد نے کہا۔
میںنے ان کو فلاں وارڈ میں داخل کیاہے ۔ میں ان کے ٹیسٹ خود دیکھ لوں گا۔ڈاکٹر نوشاد نے نفیسہ کو کہا ۔
چند دنوں میں حبیب اللہ صاحب کاآپریشن ہوا۔
جب وہ قدرے صحت یاب ہوئے تو ایک دن انہوںنے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔
ڈاکٹر صاحب! میں نے اپنی زندگی کے ایام گزار لئے ہیں۔ مجھے صرف اپنی بیٹی کی فکرہے کہ کب اپنے جیتے جی اس کے ہاتھ پیلے کروں۔
کوئی پریشانی نہیں۔ یہ مسئلہ بھی اللہ حل کردے گا۔ڈاکٹر نوشاد نے پوری بات سن کر کہا۔
حبیب اللہ ہسپتال میںتقریباً دس دن تک داخل رہے ۔اس دوران ڈاکٹر نوشاد کی کی دیکھا دیکھی ڈاکٹر الیاس نے بھی انکی بہت خدمت اور دیکھ بھال کی۔ اور کرتا بھی کیوں نہیں، جب ان کاچیف اپنے استاد کی اتنی خدمت کرتا ان کا ماتحت کیوں نہ ان کاخاص خیال رکھتا ۔
ایک دن ڈاکٹر صاحب نے نفیسہ کا ذکر کرتے ہوئے حبیب اللہ صاحب سے پوچھا۔جناب! ڈاکٹر الیاس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ اگر آپ کہیں تومیںبات آگے بڑھاؤں۔
ہاں۔ بالکل ۔ آپ کوپوراحق ہے۔
ٹھیک ہے ۔ میںآج ہی ڈاکٹر الیاس سے اس کی رضا معلوم کرکے آپ کوبتادوںگا۔
آپ اپنی بیٹی سے بھی بات کرکے رضا مندی معلوم کریں ۔ڈاکٹر نوشاد نے کہا۔
ہاں۔ دونوں کو ایک دوسرے کوسمجھنا۔ایک دوسرے کی پسند ناپسند معلوم کرنے کاموقع دینا
ضروری ہے ۔ ڈاکٹر نے مزید کہا۔
پھردونوں کی باہمی رضامندی حاصل کرنے کے بعد بات آگے بڑھا کر پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے ۔
جب دونوں جانب سے ’’ہاں ٹھیک ہے‘‘ کا سگنل ملے گا تو پھرسمجھیں گے کہ بات پکی کرنے کا وقت آگیاہے ۔
ایک دن ڈاکٹرالیاس نے نفیسہ سے کہاکہ میںایک بات آپ کوصاف صاف بتانا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ میرے گھرمیں میرے علاوہ صرف میری بیمار ماں ہے، جس کی میں خود دیکھ بھال کرنااپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ یہ کام میں کسی اور سے کروانا نہیںچاہتا ۔
ان کوخود فراموشی کا عارضہ (Alzheimer)ہے۔
آج جب میںآپ کو اپنا کوارٹر دکھانے لے جاؤں گا تو میں وہاں آپ کی ملاقات اپنی والدہ صاحبہ سے بھی کراؤں گا ۔
بہت بہتر!
نفیسہ نے کہا۔
کوارٹر میں پہنچ کر ڈاکٹر ایساس کی ماں کو دیکھ کر نفیسہ اچنبھے میں پڑ گئی۔ ان کی شکل اُسکی مرحومہ والدہ صاحبہ سے بہت ملتی جلتی ہے۔
میری والدہ صاحبہ کوبھی یہی بیماری تھی۔ نفیسہ نے کہا کہ اس وجہ سے مجھے ایسے مریضوں کی تیماداری اور نرسنگ کا پوراتجربہ ہے۔
ایک بارجب میں والدہ صاحبہ کونیرولوجیسٹ (Neurologist)کے پاس لے گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ مرض موروثی ہے۔ انہوں نے پوری تفصیل پوچھتے ہوئے دریافت کیا کہ کیاایسی بیماری خاندان کے کسی اور فرد کوبھی ہے ۔ اس پر میرے والدصاحب نے کہاتھاکہ ہاں ، ان کی ایک بہن میں بھی اس بیماری کے ابتدائی علامات ظاہر ہوگئی تھیں۔
وہ کہاں ہیں اس وقت؟ ڈاکٹر الیاس نے پوچھا۔
دراصل ان کی شادی والدین کی مرضی کے خلاف ایک انجینئر سے ہوئی تھی، جن کا نام محمد اکرم تھا۔ اس وجہ سے ماسی کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کردیئے گئے تھے ۔
ارے ! میرے والد صاحب کانام بھی محمداکرم ہے اورمیر ی والدہ صاحب کی شکل آپ کی والدہ صاحبہ سے ملتی جلتی ہے ۔ عجب اتفاق ہے !!
اس طرح تو میری ماں اور آپ کی ماں سگی بہنیں ہیں دیکھو! کس طرح تمام مسائل حل ہوگئے ۔
چلو! یہ خوش خبری ڈاکٹر نوشاد اور والد صاحب کو سناتے ہیں ۔ وہ بہت خوش ہوں گے ۔ ان کے دل ودماغ سے بوجھ اتر جائے گا ۔
سچ ہے ۔ حدیث پاک میں ہے ’’جب اللہ تعالیٰ کسی کام کے کرنے کاارادہ کرتا ہے ۔ تو وہ ایسے وسائل پیدا کردیتاہے جس کا انسان کو وہم وگمان تک نہیں ہوتا ہے۔
���
موبائل نمبر؛:8825051001 | 9906111091