ڈاکٹر عریف جامعی
انسان کے سامنے ہمیشہ خواہشات کی ایک لمبی فہرست موجود رہتی ہے۔ اس فہرست کی طوالت کا انحصار انسان کی اس نفسیات پر ہوتا ہے جس کے تحت وہ اپنی جائز ضروریات کو طول دیتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا مادی عنصر اسے مادیات کی محبت میں کچھ اس طرح گرفتار کرتا ہے کہ وہ تمام عمر اس چکر سے نکل نہیں پاتا۔ تاہم مادیات کی طرف انسان کا میلان اپنے آپ میں کوئی غلط رویہ نہیں ہے۔ اگر یہ میلان بالکل ہی ختم ہوجائے تو سرے سے زندگی کی چہل پہل ہی ختم ہوجائے گی۔ لیکن اگر یہی میلان بے لگام ہوجائے تو انسان کے اندر خواہشات کا ایک نہ تھمنے والا طوفان کھڑا ہوجائے گا، جو اس کے سکون قلب کو غارت کرتا رہے گا اور اس کی زندگی ہمیشہ بے سکونی کے گرداب میں گری رہے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ روز مرہ کے اشغال کے لئے جو سکون و اطمینان درکار ہوتا ہے، وہ انسان کو میسر نہیں رہے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے انسان کی زندگی کی ساری ترتیب اور تنظیم غارت ہوجائے گی اور وہ کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر پائے گا۔
زندگی بے ہنگم ہوتے ہی ایسا انسان شکوؤں اور شکایات کا ایک طومار کھڑا کرتا ہے جو اس کے رہے سہے سکون کو غارت کر لیتا ہے۔ ایسا شخص خود احتسابی کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور اپنی شکایات کا رخ دوسروں کی طرف کرنا شروع کرتا ہے۔ بات گلوں شکوؤں تک محدود رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلے شکوے حسد و عناد میں بدل جاتے ہیں اور فرد سے پیدا ہونے والی بے سکونی کی کیفیت پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ایسے معاشرے کے افراد بات بات پر لڑنے جھگڑنے کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔ اس معاشرے کے لوگ کسی بھی صورت میں مل جل کر رہنے میں یقین نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اکثر آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔ تاہم اگر استثنائی طور پر یہ رویہ معاشرے تک نہ بھی پھیلے، پھر بھی ایسے افراد ضرور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور زندگی کی رونقوں میں کسی انداز میں میں شریک نہیں ہوتے۔ جس طرح معاشرہ کبھی کبھی اس رویے کا شکار ہوکر قتل و غارت کی آماجگاہ بن جاتا ہے، بالکل اسی اس رویے میں مبتلا افراد کبھی کبھی خود سوزی کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔
یہ غم اور حزن و ملال جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے، غم عشق ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی، کیونکہ غم عشق کو فرہاد نے لاثانی جستجو میں تبدیل کیا۔ اس غم نے اس کو تیش دلایا اور نہ ہی اس کو محزون کیا۔ اس کے برعکس اس نے تیشہ ہاتھ میں لیا اور “سنگ گراں” کو کاٹنے کا کام بڑے انہماک سے شروع کیا۔ غرض غم سے پیدا ہونے والی جستجو اور امنگ نے سنگ راہ کو چور چور کیا اور فرہاد “جوئے شیر” بہانے میں کامیاب ہوا۔ یعنی:
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
اسی طرح غم عشق نے مجنوں کو بھی نا امید نہیں کیا۔ اس نے بھی کسی سے گلا کیا نہ شکوہ۔ وہ بھی لیلٰی کی جستجو میں اپنے ماتھے پر کوئی شکن لائے بغیر در بدر بھٹکتا رہا۔ صحراؤں کی خاک چھاننا گوارا کی لیکن ہمت ہاری اور نہ ہی رموز عشق ادا کرنے سے باز آیا۔ راہ عشق کا ہی راہی بنا رہا اور اس راہ کے مصائب و آلام برداشت کرکے عشق و وفا کا استعارہ بن گیا۔ یعنی ذرا سی مشکل دیکھ کر اپنی منزل کو تبدیل نہیں کیا۔ اس نے اپنا مدعا تبدیل کرکے “معشوق فریبی” کا کام انجام نہیں دیا۔ اس کے برعکس اس کا دل سوائے لیلٰی کے “دل بے مدعا” بنا رہا۔ یعنی مجنوں نے غالب جیسی چالاکی بھی نہیں دکھائی:
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلٰی میرے آگے
اس شخص، جس نے مغموم اور محزون ہونے کی تمام حدیں پار کی ہوں، کا غم روزگار میں مبتلا ہونا بھی کوئی بری بات نہیں تھی۔ کیونکہ انسان کا غم روزگار کم سے کم یہ دکھاتا ہے کہ انسان اپنے دنیاوی علائق کو اتنی اہمیت دیتا ہے کہ اسے ان علائق کا غم متاثر کرتا ہے۔ اس غم سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے تئیں سنجیدہ اور فکر مند ہے اور وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر، خاندان، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور مجموعی طور پر تمام معاشرے کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ یہی کچھ کرنے کی چاہت اسے غم کے باوجود لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے اور اپنا غم چھپانے پر تیار کرتا ہے۔ اسے اس بات کا مکمل احساس ہوتا ہے کہ اس غم کے ساتھ خوشی کا تاثر دیتے ہوئے زندگی کو جینا ہے۔ یعنی:
غم اگرچہ جانگسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روز گار ہوتا
ظاہر ہے کہ ہر زہر کے لئے تریاق موجود ہوتا ہے۔ شکوؤں شکایتوں اور بغض و عناد کا لاوا دل و دماغ میں لیے لیے پھرنے والا انسان بھی اس زہر ہلاہل کا تریاق ذرا سی کاوش سے دستیاب پائے گا۔ تاہم “من جد وجد” یعنی “ڈھونڈنے والا پاتا ہے” کے اصول کے تحت اس کو اس تریاق کی جستجو کرنا چاہئے۔ کیونکہ جتنی زیادہ دیر یہ شخص اس زہر کے ساتھ زندگی بسر کرے گا، اتنا اس کے لئے برا ہوگا۔ یہ زہر اس کو ایک ہی بار بھسم کرکے ختم کردیتا تو بھی برا ہی ہوتا۔ تاہم اس صورت میں یہ انسان خود کے ساتھ ساتھ اوروں کے لئے عذاب نہیں بنا پھرتا۔ دیر ہونے کی صورت میں یہ زہر اس کی نفسیات میں سرایت کر جاتا ہے اور یہ اس کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ یہ اس جہنم میں “جیتا ہے نہ مرتا!” گھٹ گھٹ کر جینے والا انسان اپنے لئے، اپنے گھر اور خاندان کے لئے، اپنے آس پڑوس کے لئے، الغرض سارے معاشرے کے لئے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ یہ سارے ہی واسطے اور تعلقات اس کے لئے بے معنی ہو جاتے ہیں اور یہ ان کے لئے بے کار ہو جاتا ہے۔
انسان کے اندر یا اس کے دل میں جگہ بنانے والا غم ضرور اس کی پیشانی کو شکن آلود کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آمدورفت سے یہ غم اس کے دائرۂ اثر یا دائرۂ کار میں آنے والوں کو بھی غمگین کرتا ہے۔ یہ شخص ضرور اپنے غم اور لوگوں سے ناراض ہونے کی مختلف توجیہات کرتا ہے، لیکن اس سے کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا۔ الٹا اس کے اثر سے لوگوں میں بھی یہ زہر سرایت کرنے لگتا ہے۔ پہلے پہل اس سے وابستہ لوگوں میں صرف چڑچڑاپن آجاتا ہے۔ تاہم آہستہ آہستہ اس کی منفی سوچ کے جراثیم پھیل جاتے ہیں اور لوگ بھی بجھے بجھے، افسردہ اور خود سے ناراض رہنے لگتے ہیں۔ یعنی:
افسردہ خاطر افسردہ کن انجمن را
غم کے اس زہر کے اثر کو زائل کرنے کا علاج تجویز کرنا اس شخص کے دوست و احباب کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ صرف اس شخص کو نہیں کھوئیں گے، بلکہ خود کو بھی ایسا ہی کرکے چھوڑیں گے۔ تاہم وہ لوگ صرف دوا تجویز کرسکتے ہیں، علاج کے لئے فکر مند ہونا اس کا اپنا کام ہے۔ غالب کے الفاظ میں اسے اس طرح اپنی فکر مندی کا اظہار کرنا چاہئے:
دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
دل کا علاج ڈھونڈنے کی خاطر اس شخص کو دل ہی کے اندر جھانکنا ہوگا۔ غور کرنے پر اسے معلوم ہوگا کہ اس کے دل کی افسردگی کا یہ عالم خواہشات کی اس لمبی فہرست کا نتیجہ ہے جو اس نے سینے کے طاقچے پر سجا رکھی ہے۔ فرحت، انبساط اور بہجت کے جذبات تازہ ہوا کے جھونکوں کی طرح آتے تو ہیں لیکن وہ اسی فہرست سے ٹکرا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی افسردگی اور رنج و الم قائم و دائم رہتا ہے۔ اپنے اور پرائے کی محبت اور رافت و رحمت کے لطیف جذبات اور حسین احساسات اسے ٹھس سے مس نہیں کر پاتے۔ اسی لئے اس کو سب سے پہلے اس فہرست کو ختم نہیں تو کم سے کم کرنا پڑے گا۔ فہرست کا یہ پردہ ہٹتے ہی اس کے دل کے دریچے وا ہونا شروع ہوں گے۔ تصوف کی اصطلاح میں دل کا یہ “بسط” (کھل جانا) اس کے چہرے کو پر رونق بنائے گا اور اس کی جبیں کھل اٹھے گی اور اس کے سارے شکن دور ہو جائیں گے۔ بہت جلد یہ پیار بانٹنے والا وجود بن جائے گا، جس کی راہوں پر لوگ اپنی پلکیں بچھایا کریں گے۔ یہ لوگوں سے راضی اور لوگ اس سے راضی ہو جایا کریں گے۔ اب اس کی محفلیں خوشی اور مسرت کا نمونہ بن جائیں گی۔
اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہی ہوگی کہ خواہشات اور حرص و ہوس کا طومار ختم ہوتے ہی یہ شخص لینے والے کے بجائے دینے والا وجود بن جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ کم سے کم پر توکل کرکے خدا کے عطا کیے ہوئے مادی فضل میں بھی اوروں کو شریک کرے گا۔ تاہم مادی عطیات سے زیادہ یہ جذباتی اور نفسیاتی خیرات کرنا شروع کرے گا۔ یہ خوشیاں بانٹے گا اور مسرتوں کی خیرات لوگوں تک پہنچائے گا۔ جب اس کے پاس مادی لحاظ سے لوگوں کو دینے کے لئے کچھ میسر نہیں ہوگا، اس وقت بھی یہ مسکراہٹیں بکھیر کر لوگوں کے اطمینان کا سامان کرکے ایک سچا عابد ہونے کا ثبوت فراہم کرے گا۔ یہ لڑتے جھگڑتے لوگوں کے درمیان صلح کا پیامبر بنے گا، کیونکہ یہ صرف خیر کا متلاشی ہوگا اور یہ زندگی کی رونقوں کا سوداگر بن گیا ہوگا۔ یہ منفی وارداتوں میں سے مثبت لمحات ڈھونڈ کر نکالنے کا گر جان گیا ہوگا۔ اسے زندگی سے اتنا پیار ہوگا کہ یہ اپنے پورے دائرۂ کار یا اپنے معاشرے کو پیار کرنا سکھائے گا۔ بقول شاعر:
کسی کی مسکراہٹوں پہ ہو نثار
کسی کا درد مل سکے تو لے ادھار
کسی کے واسطے ہو تیرے دل میں پیار
جینا اسی کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اس کا قطعاٌ یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا شخص اپنی جائز ضروریات کی بھی نفی کرے گا۔ اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ یہ اپنی خواہشات کا بالکل ہی قلع قمع کرے گا۔ یہ صد فی صد ایک عام انسان کی طرح جیے گا، لیکن یہ “ہویٰ” (خواہشات نفس) کا شکار ہوگا اور نہ ہی “طول الامل” (لمبی لمبی آرزوؤں) کے پیچھے پڑے گا۔ یعنی اس کی “امیدیں قلیل” لیکن “مقاصد جلیل” ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اکثر داغ دہلوی کے اس شعر کو گنگناتا پھرے گا:
لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دل بے مدعا دیا تو نے
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم میں اسلامک سٹیڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ ۔ 9858471965
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)