سورج کی سرخ پیشانی مغرب کے اُفق کو چھو رہی تھی اور آگرہ کی پُررونق فضا آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جا رہی تھی۔ تاریکی شہر کو اپنے لپیٹ میں لے رہی تھی کہ آگرہ میں سناٹا چھانے لگا… تاج محل پہ سناٹا، درو بام پہ سناٹا، کاخ و کوُ پہ سناٹا، خشکی و تری پہ سناٹا… اسی سناٹے کو چیرتی ہوئی ہماری گاڑی علی گڑھ جا رہی تھی…!رات تقریباً دس بجے ہم یونیورسٹی کے احاطے میں تھے۔ عشائیے کااہتما م محترم عبد الحسیب میر(پی ایچ ڈی اسکالر) نے کر رکھا تھا۔ آگرہ سے لوٹتے ہوئے پھلوں کی جو سوغات ہم ساتھ لائے تھے ، کمرے میں موجود اسکالرز نے تناول فرمائے۔ کھانا کھاکے ہم آرام کے لیے برادر مزمل صاحب کے کمرے میں دراز ہوئے۔ برادر مزمل احمد کولگام علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔شعبہ پولیٹکل سائنس میں پی۔ ایچ۔ ڈی اسکالر ہیں۔ان کی تحقیق کاموضوع'Terrorism and Counter terrorism in pakistan'ہے۔ موصوف نے پہلے ہی دن اپنے کمرے میں تمام مال و منال چھوڑ کربیرونِ خانہ عارضی ہجرت کی تاکہ ہمارے آرام میں کوئی خلل نہ رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں راقم ایک ہفتہ رہا، ان دنوں رات کی محفل برادر مزمل صاحب کے کمرے میں ہی سجتی اور شب باشی بھی وہیںہوتی تھی۔ان کے کمرے میں تحقیق کے حوالے سے ہندو پاک کے علاوہ امریکہ و برطانیہ کے مصنفین کی کتب موجود تھیں۔مملکت خدادادپر بھی بہت ساری کتابیں طاق کی زینت بنی ہوئی تھیں۔یہاں’’تفیہم القرآن‘‘ نے بھی اپنی موزوں جگہ بنالی تھی۔ نما زفجر کے بعد میںان کتابوں کی ورق گردانی محو رہتا تھا۔ سورج اپنی شعارعیں بکھیرتا تو ہم کمرے سے نکل کر صدیق بھائی کے ڈھابے کو’ ’رونق‘‘ بخشتے۔
سرما میں علی گڑھ کی صبح دن کے ۱۱؍ بجے ہوتی ہے۔ اکثر طلباء رات گئے تک گپیںمارتے رہتے ہیں۔ کچھ لیپ ٹاپ اور موبائل کو گود میں لئے اُن بے جان اور رشتہ داروں سے بڑھ کر’’ احباب‘‘ کا حق ادا کرتے ہیں۔ اکثر صبح تین چار بجے لڑکوں کو یاد آتا ہے کہ آنکھوں، انگلیوں، کمر اور ٹانگوں کا بھی حق ہے ۔۔۔یا د آتے ہی وہ مسہری پر دراز ہوتے ہیں اور صبح ۱۱؍ بجے جا کر آنکھ کھلتی ہے۔ہم بھی صبح کا ناشتہ ۱۱؍ بجے کے بعد ہی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ صدیق بھائی کے ڈھابے پر عزیزم شفاعت مقبول صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔ قبلہ وترگام بارہمولہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کامرس کے طالب علم ہے اور : 'Determinants of financial performance contextualising corporate social responsibility'عنوان کے تحت پی۔ ایچ۔ ڈی مقالہ تر تیب دے رہے ہیں۔ کچھ سال قبل موصوف کی بہن کا نکاح راقم نے ان کی خواہش پر پڑھا یا تھا۔ اُن کی والدہ بہت ہی لذیذ’’ توشہ‘‘ بناتی ہیں۔’ توشہ‘ کشمیر میں تبرک کے طور کھایا جاتا ہے۔ کشمیر میں رفتہ رفتہ یہ سلسلہ اب ختم ہو رہا ہے۔ البتہ کچھ لوگ شوقیہ طور’’ توشہ‘‘ گھروں میں بناتے ہیں۔ شفاعت مقبول صاحب کی والدہ محترمہ بھی اُن میں سے ایک ہیں۔ خیر موصوف نے ہمیں ظہرانہ یونیورسٹی کے باہر ایک ڈھابے میںدیا۔ اسی اثناء میں چچیرے بھائی کے لیے کمرے کی تلاش تھی جس میںوسیم مکائی صاحب،عبدالحسیب میرصاحب اور شفاعت مقبول صاحب بھی راقم کے ہمراہ مصروف رہے۔ دودھ پور روڈپر ایک مکان میں جگہ ملی۔ چند دن مزید چمن ِ سرسید ؔمیں گھومے پھرے۔ شعبۂ اُردو، دفتر ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق ‘‘سہ ماہی ’’فکرونظر‘‘ شعبہ اسلامک اسٹیڈیز وغیرہ بھی گئے۔ ’’اسٹریچی ہال ‘‘ باہر سے ہی دیکھا کیونکہ دروازہ مقفل تھا۔ سرسید احمد خانؔ مرحوم کے گھر بھی گئے جہاں آج کل اُن کی یادیں ہی بستی ہیں۔ اُن کا عصا ء، جس کا سہارا لے کر وہ فقیروں کی طرح علی گڑھ سے پنجاب تک کا سفرطے کر کے گھر گھر جاتے اوربرصغیر کے مسلمانوں کا تاتعلیمی مستقبل بنانے کے لئے جھولی پھیلاتے تھے۔ سرسید کی گھڑی دیکھ کر وہ ستم ہائے زمانہ یاد آرہے تھے جن سے نبرد آزماہوکر آپ نے مسلمانوں کو جگانے کا انتھک کام انجام دیا۔ یہاں شال، کرسی اور وہ میز جس پر بیٹھ کرسید اپناکام کرتے اورچکور صوفہ جس پر نشست کر کے وہ اپنے رفقاء کے ساتھ جلوہ افروزہوکر مسلمانوں کے شاندار مستقبل کے منصوبے بناتے ، یہ سب اس ہمہ آفتاب گھر کی وہ متاع گراں مایہ ہیں جو ہمیں مسلمانانِ ہند کے اس محسن کی طرف اور زیادہ کھینچتی ہیں۔ گھر کے قریب ہی اعلیٰ و عمدہ اور خوبصورت مسجد آباد ہے ، نمازظہر وہیں ادا کی۔ شمشاد مارکیٹ میں پان کا لطف بھی اُٹھایا مگر طبیعت کو یہ ناگوار گزرا۔ انہی زیارتوں ، ملاقاتوں ، دوستداریوں اورمسرت وحسرتو ں میں گم ایک ہفتہ گزارنے کے بعد سب دوست واحباب سے رخصت لے کر دہلی کی راہ لی۔
عصر کے بعد گاڑی کی روانگی تھی۔ چچیرے بھائی سمیع اللہ سے رخصتی چاہی تو وہ جذبات پر قابو نہ پاسکے۔ آنسو اُن کی پلکوںکابندتوڑکر رخسار پربہہ نکلے۔ میں بھی نم دیدہ ہو ااور وسیم مکائی صاحب نے ہم دونوں کو سنبھالا۔ وہاں سے سیدھے ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب کے عارضی دولت کدے پر پہنچے اور ظہرانہ کرکے جانب منزل چل دئے۔ وسیم مکائی صاحب بس اڈے تک ساتھ ہی تھے۔ رفاقت و عقیدت کے ساتھ حمال بنے میرا بیگ اُٹھایا۔ الوداعی سلام دعاکے بعد گاڑی میں چمن سرسیدؔ میں تحصیل ِ علم میں مشغول اپنے رفقاء و عزیزان گرامی کے علاوہ صدیق بھائی کے ڈھابے ، شمشاد مارکیٹ ، زکریا اور دودھ پور روڈ، سرسید مرحوم کی آخری آرام گاہ ، اُترپردیش کی آبادی،گندگی اورکوڑے کرکٹ…سب کو پیچھے چھوڑ کر ہندوستان کے دار السلطنت کی جانب ہماری گاڑی بڑی تیزی سے جارہی تھی ؎
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے
میرؔ
میرؔ سے لے کر غالبؔ تک، ابراہیم ذوقؔ سے لے کر دیوان سنگھ مفتونؔ تک، بہادرشاہ ظفر ؔسے لے کر ماؤنٹ بیٹنؔ تک اور نہرو ؔسے لے کر آنجہانی واجپائی ؔتک ہندوستان کی نابغہ روزگار شخصیات اس شہر میں جلوہ افروز رہی ہیں۔ میرتقی میر ؔ مذکورہ بالاشعر کہہ کردہلی سے ہجرت کر کے لکھنؤ جابسے اور پھر واپس نہ آئے لیکن غالبؔ نے اپنا شہر آگرہ چھوڑ کر دہلی کو ہی اپنا مستقل مستقر بنایا ۔ دہلی پر ان کا رنگ اتنا پختہ اور واضح ہے کہ چاندنی چوک اور اس سے ذرا پرے کوچہ قاسم جان میںاب بھی وہ رنگ دکھائی دیتا ہے، جہاں چچاغالبؔ کا وہ مکان ایک یادگار کی صورت میں موجود ہے۔ دہلی میں تاریخ کی ایک کشش ہے جو آپ کو وہاں کھینچتی ہے۔ یہ شہر ایک زمانے میں علم و ادب، فن و ثقافت، آزادی کی تحریکوں اور علاقائی سازشوں کا مرکز رہا ہے۔
دہلی بھارت کی دارالحکومتی عملداری میں ہے۔ یہ تین اطرف سے ہریانہ سے گھرا ہوا ہے، جب کہ اس کے مشرق میں اُترپردیش واقع ہے۔ یہ ہندوستان کا مہنگا اور مصروف شہر ہے۔ اس کا رقبہ ۱۴۸۴مربع کلومیٹر ہے۔ ۲۵ ملین آبادی پر مشتمل یہ شہر ممبئی کے بعد ہند کا دوسرا اور دنیا کا آٹھواں سب سے بڑا شہر ی علاقہ ہے۔ دہلی ،ممبئی کے بعد ہند کا دوسرا امیر ترین شہر ہے، جس کے کل املاک ۴۵۰ بلین امریکی ڈالر کی مالیت کے برابر ہیں ۔دہلی ۱۸؍ ارب پتی اور ۲۳۰۰۰؍ کروڑ پتیوں کا مسکن بھی ہے۔
دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے ہی آباد ہے۔ دہلی کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے، جو کئی مرتبہ فتح ہوا ، تباہ کیا گیا اور پھر سے بسایا گیا۔ دہلی میں عہد قدیم اور قرونِ وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثارِ قدیمہ موجود ہیں۔قطب میناراورمسجد قوت الاسلا م ہندوستان میں مسلم طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔غدر(۱۸۵۷ء)سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہند کے بیشتر علاقوں پر قبضہ جما چکی تھی اور برطانوی راج کے دوران میں کلکتہ کو درالحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجمؔ نے ۱۹۱۱ء میں دار الحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور ۱۹۲۰ء کی دہائی میں قدیم شہرکے جنوب میں ایک نیا شہر نئی دہلی بسایا گیا۔دہلی تابناک ماضی رکھنے والا ایک عظیم شہر ہے جو کئی ہندوستانی حکمرانوں کا دارلحکومت رہا ہے۔ اس کی ہر اینٹ ایک داستان سناتی ہے اور ہندوستان کے عظیم ماضی کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔
۲۷ ؍جنوری۲۰۱۸ء کی رات راقم علی گڑھ سے دہلی پہنچا ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متصل ہری مسجد،بٹلہ ہائوس میں میرے ایک رفیق شیخ منصور صاحب کرایہ کے مکان میںرہتے ہیں ۔اُن کے اصرار پر راقم نے ان کے یہاں قیام کیا۔ منصور صاحب بارہمولہ کے مضافاتی گائوں چکلو میںرہتے ہیں اور شبعۂ اُردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پی۔ ایچ۔ ڈی اسکالر ہیں۔ مرنجان مرنج قسم کے شوخ طبیعت بندے ہیں۔ دوراتیں انہوں نے خوب مہمان نوازی کی۔ بعد ازاں محمد شاہد لون صاحب( پی۔ ایچ۔ ڈی اسکالر، جن کا ذکر پہلی قسط میں ہواہے) نے باصرار اپنے ’’قلعے میں قید ‘‘کیا۔ان کا یہ ’’قلعہ‘‘جامعہ کے نزدیک ہی نورنگرمیںواقع ہے۔موصوف نے بڑی خاطرتواضع کی۔فجرنمازکے بعدہی بھرپورناشتہ کراتے تھے۔شاہدصاحب رات کو سوتے نہیں بلکہ کتابوں سے لَو لگائے رہتے ہیں۔ کم گو ئی نہ سہی البتہ نیند کم اور طعام قلیل ان کے شخصی اوصاف ہیں۔ چندایام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مختلف شعبوں میں جا کر اساتذہ صاحبان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کشمیر ی طلباء سے بھی گفتگوؤں کا موقع ملا۔ فہیم عبدالمنیب صاحب (بارہمولہ)، عبد الباسط صاحب(ہندوارہ) نے ایک رات عشائیہ پر مدعو کیا جسے راقم نے بطیب خاطرقبول کیا۔علی جاویدفرزند ڈاکٹر جاوید جمیل صاحب ، جنہیں چند سال قبل فلاح الدارین کی طرف سے بارہمولہ مدعو کیا گیا تھا، سے بھی ملاقات ہوئی۔ اُن کی گفتگو سن کر اُن کی ذہنی بلوغت وفراست کا احساس ہوا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ اوکھلا کے جامعہ نگرعلاقے میںواقع ہے۔کیمپس زیادہ وسیع ویض تونہیں،البتہ عوام کے عبور و مرور کے لیے بنی سڑک کے اطراف میںمذکورہ یونیورسٹی کا احاطہ پڑتاہے۔ایک طرف ’’ایوانِ غالبؔ‘‘ اورسڑک کی دوسری جانب ’’باب ابولکلام آزاد‘‘ واقع ہے۔ شعبہ جات بکھرے پڑے ہیں۔’’ایوانِ غالب‘‘کے صدردروازے پرچچاغالبؔ کاپُتلا نصب شدہ ہے۔ حدتِ موسم ہو،بادِتندہویاموسلادھاربارشیں ،غالبؔ کاپتلاہاتھ میں’’کتاب‘‘ لئے علم کی پیاس بجھانے کی ترغیب دیتارہتاہے۔’’ایوانِ غالب ‘‘کے صحن میں طلباء و طالبات کا جم ِغفیررات دیر گئے تک کینٹین کا محاصرہ کئے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ کشمیر میں اگر ایسا منظر ہو تو انتظامیہ بھیڑ کی روح قبض کرنے کے لئے دفعہ۱۴۴؍ لگالیتی۔ یہاں چائے ، کافی، گرین ٹی کا غیرمختتم دور چلتا رہتا ہے۔
ریسرچ اسکالرکشمیریونیورسٹی،سرینگر
(بقیہ سوموار کے شارے میں ملاحظہ فرمائیں)