۔1989 2008 تک کے پُر تشدد حالات و واقعات نے مجھے اس بات کا کافی حد تک قائل کر دیا تھا کہ تشدد مسائل کا حل نہیں اور طاقت کا توازن مزاحمتی تحریک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہندوستان کی طرف ہونے کی وجہ سے پُر تشدد واقعات کشمیریوںکے مقابلے میں ہندوستان کیلئے زیادہ فائدہ مند ہے ۔ یہی بنیادی نقطہ اس بات کا سبب بنا کہ 2008 کے انتخابات کے نتیجہ میں جب میں اسمبلی کیلئے منتخب ہوا تو میں نے تمام تر خطرات کے باوجود سرکاری سیکورٹی کو ٹھکرا دیا اور ریاست خاص طور سے وادی کے ہر خطہ میں انتہائی نامساعد حالات میں بھی آزادآنہ طور سے گھومتا رہا۔ ایسا کرنے کا مقصد مجھے خود کو کوئی افسانوی کردار ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ چاروں طرف تشدد کی لہر کے جاری ہونے کے باوجود میرا مقصد صرف یہی تھا کہ کشمیریوں کو یہ بات سمجھا ئی جائے کہ ہڑتالوں پتھرائو اور تشدد کے بغیر بھی لوگوں کی بات کی جا سکتی ہے اور کشمیر مسئلہ کے اُس کے تواریخی پس منظر میں حل کرنے کی کوشش موثر طریقے سے جاری رکھی جا سکتی ہے ۔ جب 2010ء میں رادھا کمار کی سربراہی میں انتہائی پُر تشدد ماحول کے درمیان کوئی بھی شخص ان مذاکرات کاروں کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا میں نے لنگیٹ میں ہزاروں لوگوں کا جلسہ منعقد کرکے فریقین کو ایک دوسرے کی بات سننے کیلئے آمادہ کیا ۔ ایسا کرنے کیلئے مجھے کئی سخت گیر حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس طبقے کی رائے ہمیشہ سے یہی تھی کہ نئی دلی مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں اور صرف مسائل کو ٹالنا چاہتی ہے ۔ تاہم میرا عقیدہ تھا کہ کشمیریوں کے پاس ہر متبادل کو اپنانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔ ایک ایسے موقعہ ہر جب پورا کشمیر آگ و آہن میں جل رہا تھا لنگیٹ میں مذاکراتکاروں کی موجودگی میں ہزاروں لوگو ں نے سنگبازی نہ کرنے اور تشدد کا ساتھ نہ دینے کا حلف نامہ لیا لیکن بدلے میں رادھا کمار، دلیپ پڑگائونکر اور ایم ایم انصاری سے کہا گیا کہ وہ نئی دلی کو کشمیر مسئلہ کے منصفانہ اور آبرومندانہ حل کیلئے آمادہ کریں ۔ مجھے اس بات کا برملااظہار کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا کہ جسطرح اہل لنگیٹ نے ہندوستان کے مذاکراتکاروں کے سامنے مسئلہ کشمیر ، کشمیریوں کی قربانیوں ، انکے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی شائد ہی اس سے بہتر کسی اور طریقے ایسا کرنا ممکن ہوتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بٹہ گنڈ کے وسیع میدان میں اہل لنگیٹ نے کشمیر مسئلہ کے حل کے بدلے تشدد اور سنگ بازی ترک کرنے کا وعدہ کیا تو پہلے مذاکرات کاروں کے چہروں پر مسکراہٹ اور اعتماد کی جھلک نظر آنے لگی لیکن جلد ہی ان کے چہرے مایوسیوں میں بدلنے لگے اور رادھا کمار بار بار اسٹیج سے دلیپ پڈگائونکر کے ہمراہ اٹھ کر کسی سے اضطرابی کیفیت میں باتیں کر رہی تھیں ۔ میرے ہلکے سے اصرار پر رادھا کمار نے کہا ’’عجیب بات ہے جب نئی دلی پُر امن لوگوں کی انتہائی باجواز اور مبنی بر حق بات کو سننے کیلئے بھی تیار نہیں تو کشمیر مسئلہ کا حل کس طرح نکالا جا سکتا ہے ‘‘۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے رادھا کمار نے کہا کہ پی چدمبرم صاحب بٹہ گنڈ میں لوگوں کی طرف سے رائے شماری کا مطالبہ کرنے سے بے حد ناراض ہو چکے ہیں اور یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ انہیں اس پروگرام میں جانا ہی نہیں چاہئے تھا ۔ اگر چہ پی چدمبرم کا رویہ انتہائی مایوس کن اور افسوسناک تھا تاہم رادھا کمار اور پڈگائونکر نے میری یہ کہہ کر ہمت باندھی کہ وہ ہندوستانی حکمرانوں کو کشمیر مسئلہ کی اہمیت اور امن کیلئے لازمی شرائط سے ہر حال میں نہ صرف با خبر کرائیں گے بلکہ ایسا کرنے کیلئے کسی بھی حد تک سخت گیر موقف اختیار کریں گے۔ بہر حال میں نے اپنی چھوٹی سی اوقات میں رہ کر جہاں کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی بات کو پیش کرنے کی کوشش کی وہاں میں نے لوگوں کو یہ بات سمجھنانے کی کوشش بھی کی کہ بندوق کو جو کام کرنا تھا اس نے اس سے زیادہ کیا اور اگر تشدد کا ماحول جاری رہتا ہے تو اس میں ہندوستان سے زیادہ کشمیریوں کا نقصان ہونا طے بات ہے ۔مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ جہاں میں نے نہ صرف انسانی حقوق کی بالا دستی اور سرکاری دہشتگردی کے خاتمے کے خلاف اپنی پُر امن جد و جہد مختلف محاذوں پر جاری رکھی تووہاں افضل گورو کی سزائے موت کو معاف کرنے کے متعلق میری قرارداد کواسمبلی میں ووٹنگ سے روکنے کیلئے کیا کیا سازشیں کی گئیں میرے ایک صحافی دوست جو آج پروفیسر ہیں اور تب فاروق عبداللہ کے بہت قریب تھے، نے ایک دن مجھے اپنے پاس بلا کر کہا کہ ریاستی پولیس سربراہ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انجینئر رشید کے خلاف مختلف تھانوں میں درج پرچوں اور ان کے دیگر متنازعہ معاملات کی فہرست تیار کریں تاکہ انہیں افضل گورو کی معافی کے متعلق قرارداد کو اسمبلی میں پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کرانے سے باز رکھا جائے ۔ بہر حال قرارداد کے ساتھ اس وقت کے اسپیکر کی سربراہی میں جو حشرکیا گیاوہ 28ستمبر 2011کے واقعات کی روشنی میں تاریخ کے سیاہ باب کا حصہ بن چکا ہے ۔ یہ ساری باتیں اور کشمیر مسئلہ ایک طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ میرا بنیادی فرض لنگیٹ کے لوگوں کو زندگی کی سہولیات اور ان کے حقو ق کا تحفظ کرنا ہے۔ جتنا تھوڑا بہت کام میں نے کیا اس پر بحث و مباحثہ کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن 2008ء سے 2014ء تک تک جس بات کو لیکر میں سر فخر سے اونچا اٹھا تا تھا وہ یہ تھی کہ لنگیٹ پوری طرح سےNo PSA Zoneبن چکا تھا اور وہاں فوج اور پولیس کے علاوہ عسکریت پسندوں کے رشتہ دار اور عام لوگ بھی خود کو کافی حد تک محفوظ اور مطمعین سمجھتے تھے ۔ یہ ہدف حاصل کرنے کی قیمت ہمیں آئے روز سڑکوں پر مار کھانے ، اسمبلی کے اندر اور باہر نئی دلی ااور اس کے چیلے چانٹوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر سچ بولنے، آئے روز پُر امن احتجاج کرنے اور اپنے علاقہ کے پولیس اور سیول انتظامیہ کو کافی حد تک جوابددہ بنانے کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی تھی ۔ تاہم گذشتہ برس سے صورتحال یکسر بدلنے لگی اور وہ مجھے اس تلخ حقیقت کا احساس ہوا کہ امن کی سب سے زیادہ باتیں کرنے والے ہی اصل میں امن کے دشمن ہیں اور وہ امن امن کی رٹ لگا کر اصل حقائق کو تشدد کی ہوائوں کے حوالے کرکے اپنے کمزور موقف پر بحث و تمحیث سے بچنا چاہتے ہیں۔ جہاں ہندوستان ہزارو ں کھربوں کے گوٹالوں میں غرق ہو اہے اور خود کشمیر کے اندر مختلف سیاسی نظریات کی پیروی کرنے والے سیاستدانوں نے بڑی بڑی جائیدادیں سرکاری خزانہ عامرہ کو لوٹنے اور غریبوں کا لہو چوس چوس کر بنائی ہیں وہاں مجھے اپنے سیاسی موقف سے دستبرادار ہونے سے مجبور کرنے کیلئے دلی طلب کیا گیا اور پاکستان سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کیلئے مالی معاونت حاصل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اتنا ہی نہیں جہاں وہی لنگیٹ جس سے ۹ برسوں تکNo PSA Zoneکہا جاتا تھا وہاں صرف چند ماہ میں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو نام نہاد PSAکے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔ وہی لنگیٹ جسے 2010ء میں سرکردہ صحافی پروین سوامی نے تشدد سے متاثرہ کشمیر میں امن کا جزیرہ قرار دیا تھا لوگوں کو پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے مختلف بہانے کرکے سڑکوں پر نکلنے کیلئے مجبور کیا۔ یہ سب کچھ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ ہندوستان باتیں امن کی تو کرتا ہے لیکن اگر امن واقعی قائم ہوتا ہے تو پھر ہندوستان کو کشمیر مسئلہ پر بات چیت کے سوا کوء چارہ بچتا ہی نہیں ہے لہذا تشدد کا سب سے زیادہ فائدہ ہر حال میں نئی دلی کو ہی ہو رہا ہے کیونکہ اس کے پاس کشمیریوں کی بیش بہا قربانیوں، مضبوط موقف اور کشمیر مسئلہ سے جڑے تواریخی واقعات کے مقابلے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ اس لئے اپنے کمزور موقف کو تقویت پہنچانے کیلئے وہ باتیں تو امن کی کرتا ہے لیکن عملی طور سے افراتفری کی صورتحال کو قائم رکھنا چاہتا ہے ۔ نئی دلی امن کی چیخیں مار کر مارا ماری کے کھیل کو ہوا دے رہی ہے ۔ یہ فیصلہ نئی دلی کو کرنا ہوگا کہ آخر اس کا یہ حربہ کب تک کامیاب ہوتا رہے گا اور کہیں صورتحال اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ خود ہندوستان کے لوگ نئی دلی کی اصل نیت کو بھانپنے کے بعد اپنے ہی ملک کے خلاف بغاوت پر آمادہ نہ ہو جائیں۔