بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جب اسرائیلی دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ملے تو پہلی ہی نظر میں محبت والا معاملہ پیش آیا۔ نریندر مودی کی عالمی رہنماؤں سے گلے ملنے کی عادت کا عالمی محفلوں، مطبوعات و سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پہ اکثر ذکر ہوتا ہے، چاہے یہ سفارتی پروٹوکولز کے مطابق ہو یا برعکس بلکہ کچھ لوگوں نے اُسے گلے ملنے کے بجائے گلے پڑنے سے تعبیر دی۔جہاں مودی کے امریکی دورے کے دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار گلے لگنے سے کچھ عاجز دیکھائی دئے وہی نیتن یاہو نے گلے لگنے کی ہر ادا کا بھر پور محبت سے جواب دیا ۔ مودی اور نیتن یاہو کا بڑھتا ہوا یارانہ نہ صرف محبت بھرے الفاظ کی ادائیگی میں عیاں تھا بلکہ باڈی لنگویج یعنی جسمانی حرکات و سکنات میں بھی عیاں رہا۔اسی کے ساتھ بھارتی سنسکرتی کے 5000 سال کے تذکرات کو اسرائیلی روایات کے 4000 سال سے تشبیہ دی گئی ۔ بھارتی سنسکرتی جہاں ویدک دور سے شروع ہوئی، وہیں اسرائیل اپنے وجود کو عبرانیوں کے مصر سے خروج اور پھر صحرائے سینائی کو عبور کرتے ہوئے اسرائیل میں یہودی بستیوں کے قیام سے جوڑتا ہے۔عصر جدید میں اسرائیل کے نا جائز قیام کے جواز کو زمانہ قدیم کی تاریخ میں ڈھونڈا جاتا ہے ۔
نریندر مودی نے بھی دوسرے عالمی رہنماؤں کی مانند اسرائیل کے نا جائز وجود کی داستان سنی اور وہ کافی متاثر نظر آئے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یورپی نسل کے یہودیوں کا ایشیائی فلسطین میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔فلسطین تاریخی لحاظ سے مسلمین، عیسائیوں و ایشیائی یہودیوں کا باہمی اثاثہ ہے لیکن حضرات طالوت،داؤد و سلیمان کی قدیم یہودی بادشاہت کو بنیاد بنا کے اسرائیل پہ ہر یہودی کا حق مانا گیا چاہے وہ کسی بھی عالمی بر اعظم کسی کی مملکت کا باشندہ ہو غیر منطقی ہے البتہ اِسی کو بنیاد بنا کے یورپی نسل کے یہودی فلسطین پہ قابض ہو گئے۔ عالمی صیہونیت کے اِس تصور کو برطانوی استبداد نے تب عملی شکل دی جب برطانیہ کے سابقہ وزیر بالفور نے 1917ء میں بالفور اعلانیہ سے فلسطین کو عالمی صیہونیت کی جاگیر بنایا ۔ فلسطین کا منڈیٹ برطانیہ نے ترکی کی خلافت سے حاصل کیا تھا ۔ ترکی وزیر طلعت نے جنگ عظیم اول میں مات کھانے کے سبب برطانوی استبدادی طاقت کو فلسطین بخشا۔بالفور نے 1917ء ایک خط کے ذریعے فلسطین کو عالمی صیہونیت کو بخشنے کی اطلاع صیہونیت کے سرغنہ راتھ چائلڈ خاندان کو دی۔راتھ چائلڈ خاندان کی شاخیں یورپ کے ہر ملک میں پھیلی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا کاروبار ہو جس میں اِس خاندان کا ہاتھ نہیںبنابریں یورپی سیاست و سیاسی فیصلوں میں راتھ چائلڈ اور اُن کے ہم پایہ یہودی خاندانوں کا کافی اثر تھابلکہ آج بھی یہ اثر یورپ اور بحر اطلس کے اُس پار امریکہ پہ واضح طور پہ نظر آ رہا ہے۔
نریندرا مودی برطانوی استبداد کے اولاد نا خلف اسرائیل سے کافی متاثر نظر آئے یہاں تک کہ اپنے تاثرات بیاں کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ کسی ملک کا رقبہ یا اُس کی آبادی ملکی احداف کے حصول کے مانع نہیں ہو سکتا ۔الفاظ میں تفاوت ہو سکتا ہے لیکن اسرائیل کی تعریف میں نریندرا مودی کا مدعا و مقصد یہی تھا ۔نریندرا مودی کو شاید یہ معلوم نہیں کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں عالمی استبداد کا ایک ایسا پودا ہے جس کی آبیاری استبدادی قوتیں 1947ء سے کرتی آئی ہیں تاکہ اِس خطے کے توانائی کے ذخائر کو استبدادی قوتوں کی اقتصادی پابرجائی کیلئے استعمال کیا جا سکے ۔ نریندرا مودی کی مجبوریوں کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ بھارت کی دیرینہ خارجی پالیسی کو ایک نئی سمت دیتے ہوئے وہ استبدادی طاقتوں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بنتے جا رہے ہیں ۔واشگٹن سے لے کے یروشلم تک بھارت کی بدلتی ہوئی خارجی پالیسی کے آثار نمایاں ہیں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی ملک کی داخلی پالیسی کا شاخسانہ ہے جہاں ماضی کی پالیسی کے بر عکس ملک کی منجملہ پالیسی کو مذہبی آئینے سے جانچا جاتا ہے ۔اِس نئی پالیسی کے اثرات خارجی سیکٹر میں بھی واضح ہے۔اِس بدلتی ہوئی پالیسی کی پس منظر میں جو ماضی کی روش تھی اُس کی جانچ لازمی ہے۔
1947ء میںبھارت کی برطانوی استبداد سے آزادی کے بعدسیاسی ہوا استبداد کے خلاف تھی جو استبداد سے برسوں لڑنے کا شاخسانہ تھا۔ بھارت کی آزادی کو پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نے ڈسکوری آف انڈیا یعنی بھارت کی باز یافت سے تشبیہ دی۔یہ باز یافت استبداد کے خلاف عالمی سطح پہ مبارزہ آرائی کی صورت میں اُبھر آیا۔افرو ایشائی ممالک جو استبداد کا شکار ہو چکے تھے استبداد کے خلاف صف آرا ہوئے ۔پنڈت جواہر لال نہرو افرو ایشیائی تحریک کے ایک با اثر لیڈر کے طور پہ اُبھر آئے۔ ستم ظریفی یہ رہی کہ استبداد کے اولاد نا خلف اسرائیل نے بھی افرو ایشیائی تحریک میں شریک ہونے کی درخواست دی۔مجوزہ تحریک کو ایک جمہوری شکل دینے کی خاطر پنڈت نہرو پہلے پہل اسرئیل کو تحریک میں شرکت دینے کے حامی تھے جس کا تذکرہ حسنین ہیکل کی رقم کردہ تصنیف میں آیا ہے۔ حسنین ہیکل مصر کے معروف روز نامے الاہرام کے ایڈیٹر اور مصری رہبر کرنل ناصر کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ رقمطراز ہیں کہ نہرو کو اسرائیل کے نا جائز وجود اور فلسطینی عوام کیساتھ زیادتیوں سے روشناس کرواناپڑا۔ پنڈت نہرو کی مدح سرائی میں وہ آگے رقمطراز ہیں کہ جب وہ عرب کاز اور عربوں کے نکتہ ہائے نظر کے قائل ہوئے تو بعد میں اُنہوں نے عرب کاز کی ایسی ترجمانی اور حمایت کی جس کی توقع کسی بھی عربی لیڈر سے بھی نہیں کی جا سکتی تھی، چناںچہ نہرو کی ترجمانی بھارتی خارجہ پالیسی کی اساس بنتی گئی ۔
پنڈت نہرو نے جو پالیسی اسرائیل کے بارے میں مرتب کی اُس میں حسنین ہیکل کے تجزیے کے علاوہ کئی اور محرکات تھے۔پنڈت نہرو نے علامہ اقبال ؒ کی وفات سے چند مہینے پہلے 1938ء میں ان سے ایک تاریخی ملاقات کی۔ پنڈت نہرو ایک مقدمے کے سلسلے میں لاہور گئے تھے جب علامہ اقبالؒ نے اُنہیں پیغام بھیجا کہ ’’ملتے جائیے گا‘‘۔ملاقات علامہ اقبالؒ کے اقامت گاہ پہ ہوئی۔ شاعر مشرق دمے کے مرض میں مبتلا اپنے بیڈ روم میں پنڈت نہرو سے ملاقاتی ہوئے جن کے ہمراہ میاں افتخار الدین تھے ۔ اس ملاقات کی تفصیلات کئی ایک تصانیف میں موجود ہیں جن میں علامہ اقبال کے قریبی دوست عاشق حسین بٹالوی کی تصنیف’اقبال کے آخری دو سال‘ اور پنڈت نہرو کی ’ڈسکوری آف انڈیا‘ شامل ہے۔ علامہ اقبالؒ کے اُن ذاتی احساسات کے باوجود جو ہم وطن کشمیری ہونے کے ناطے پنڈت نہرو کے تئیں تھے اور صرف نظر اُس احترام کے جو پنڈت نہرو کی حب الوطنی کے بارے میں تھاعلامہ اقبالؒ کو اُن کی کوتاہیوں کا بھی احساس تھا۔اُ ن کی کوتاہیوں میں پنڈت نہرو کا سوشلزم پہ اعتبار و یورپین طرز کے سیکولرازم پہ اعتقاد تھا جسے علامہ اقبالؒ ہندوستانی قومی طبع کے برعکس مانتے تھے ۔ علامہ اقبال ؒ کو پھر بھی یقین تھا کہ نہرو ہی ہندوستان کے آئندہ رہبر کے روپ میں اُبھریں گے اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے نہرو کو یہ تلقین کی کہ مسلمانوں سے اچھے تعلقات کی خاطر مغربی ایشیا سے قریبی تعلقات قائم کریں چونکہ یہ اسلامی ایشیا ہے جو مستقبل میں بہت ہی اہم خطہ بننے والا ہے اور اچھے تعلقات قائم کرنا ہند کے مفاد میں ہو گا۔ نہرو سے اختلاف کی گنجائش کئی پیرائیوں میں ہو سکتی ہے لیکن اُنہوں نے اپنے وقت میں مغربی ایشیا سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش ضرور کی گر چہ ایسا بھی کہا جاتا ہے یہ اِن ممالک میں پاکستانی سفارتی ناطے کمزور کرنے کی کوشش تھی ثانیاََ پنڈت نہرو کو بھارت کی وسیع مسلم اقلیت کے جذبات کا بھی احساس تھاچونکہ یہ اُنکا وؤٹ بنک تھا۔
پنڈت نہرو کی اسرائیل اور مغربی ایشیا کے تئیں پالیسی کو اُن کی دختر اندرا گاندھی نے جو اُن کے بعد طویل مدت تک وزیر اعظم رہیں بر قرار رکھا اور اُن کے بعد راجیو گاندھی کے دور میں بھی پالیسی وہی رہی۔ اِس مدت میں جب بھی فلسطینی رہبر یاسر عرفات بھارت آتے تھے تو اُنکا استقبال سر براہ مملکت کے طور پہ ہوتا تھا ۔عالمی ایوانوں میں بھی بھارت فلسطینی حقوق کا حامی رہا ۔اِس دوران چاہے افرو ایشیائی تحریک رہی ہو یا غیر متحدہ ممالک کی انجمن بھارت پیش پیش رہا۔عالمی تنظیموں پہ اپنی چھاپ ڈالنے کا گر چہ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بھارت کی متنازعہ کشمیر پالیسی عالمی سطح پہ سوالات نہ اٹھیں۔بہت حد تک بھارت کا کام پاکستان کی خارجہ پالیسی نے آساں بنا دیا چونکہ پاکستان مغربی بلاک کی پالسیوں سے بندھا رہا اور مغرب کے کئی دفاعی منصوبوں کا ممبر بھی رہا جن میں سینٹو،سینٹو اور بغداد پیکٹ کا نام لیا جا سکتا ہے جبکہ مغرب کو استبدادی طاقتوں کا ترجماں مانا جاتا تھا۔ پاکستانی پالیسی کے دفاع میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ پاکستان کی مجبوری تھی چونکہ اپنے بڑے حریف بھارت کے مد مقابل پاکستان کافی کمزور اور مغرب کے دفاعی منصوبوں میں اُس کی شمولیت اُسکے تحفظ کا ضامن تھا۔
فلسطین کی ہر سطح پہ حمایت کرنے کے باوجود بھارت نے اسرائیل کو ممبئی میں ایک سفارتی مشن کھولنے کی اجازت دے رکھی تھی جو بھارت میں اسرائیلی مفادات کی رکھوالی کیلئے مامور تھا ۔اِس سفارتی مشن کا دائرہ کار گر چہ محدود تھا لیکن ایک نچلی سطح پہ ہی صیح بھارت اور اسرائیل کا رابطہ چلتا رہا ۔ اِس خفیہ رابطہ کو منظر عام پہ گو نا گوں وجوہات کی بنا پہ نہیں لایا گیا جس میں بھارت کی عالمی شبیہ کے علاوہ بھارت کی وسیع مسلم اقلیت کے احساسات مد نظر رہے۔ بھارت کی اسرائیلی پالیسی میں تغیر پی وی نرسمہا راؤ کی وزارت عظمی کے دوراں پیش آیا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب کشمیر میں جنگجو تنظیمیں فعال ہوئیں بھارت کو ملٹنسی کا سامنا رہا ۔ بھارت میں کئی حلقوں سے یہ صدائیں اُبھرنے لگیں کہ بھارت کو اسرائیل کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو اسرائیل کو فلسطینی جنگجو تنظیموں سے نبٹنے میں حاصل ہو چکا تھا۔یہ بھارتی پالیسی میں ایک تغیر کامل کی شکل میں اُبھر آیا چونکہ بھارت مدت دراز تک اِن فلسطینی جنگجو تنظیموں کو آزادی پسند تنظیمیں مانتا رہا۔ فلسطینی رہبر یاسر عرفات کی تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او: PLO) مدت دراز تک جنگجویانہ تنظیم رہی گر چہ بعد میں اِس تنظیم نے امن پسندی کا چولہ پہنا ۔ اسلام پسند حماس کے مد مقابل پی ایل او سیکولر ازم کی دعویدار رہی۔ فلسطین کے داخلی محاز پہ جو بھی تبدیلیاں در پیش رہیں ہوں اُن سے صرفنظر بھارت و اسرائیل کے تعلقات میں وسعت آتی رہی ۔کانگریس کے دور حکومت میں گر چہ اِن تعلقات کی سطح نیچی رہی لیکن تین سال پہلے نریندرا مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعدتعلقات کی سطح میں افزائش ہونے لگی جو انجام کار بھارتی وزیر اعظم کے دورہ اسرائیل پہ منتج ہوئی جہاں مودی اور نیتن یاہو کا یارانہ وہ رنگ لایا کہ سب ہی حیرت زدہ ہو گئے ۔حیفا میں سمندر کے کنارے دونوں رہبروں کی پا برہنہ دھوڑ الیکٹرنک میڈیا پہ یارانے کی تشہیر میں بار بار دیکھائی جا رہی تھی۔
حیفا میں نریندرا مودی نے اُن بھارتی فوجیوں کے تئیں اپنا خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے جنگ عظیم اول میں اپنی جانوں کا نذارانہ پیش کرکے جرمنی کی حامی قوتوں سے حیفا کو آزاد کیا تھا۔ یہ بھارتی افواج میسور ، جودھ پور و حیدر آباد لانسرس برطانوی افواج میں شامل تھے اور اُنہوں نے جرمنی کے حلیف ملک ترکی کے خلاف جانفشانی کا مظاہرہ کیا۔ اتفاقاََ جب یروشلم پہ برطانوی فوجی حاوی ہوئے تو برطانوی جنرل ایلن بی نے کہا تھا کہ آج صلیبی جنگوں کی تکمیل ہوئی جس سے برطانوی احداف کا پتہ لگتا ہے ۔ اِس کے بعد ہی فلسطین عالمی صیہونیت کو بخشا گیالیکن بھارتی افواج میسور ، جودھ پور و حیدر آباد لانسرس کی ارواح کو بھی یہ پتہ نہیں رہا ہو گا کہ برطانوی احداف کیا تھا جن کے حصول میں وہ شامل رہے۔
جنگ عظیم اول کے محاز پہ میسور ،جودھ پور و حیدر آباد لانسرس کو برطانوی احداف کا پتہ تھا یا نہیں لیکن نریندرا مودی کو اپنے احداف کی پوری جانکاری ہے اور یہ اِس حقیقت سے عیاں ہے کہ اُنہوں نے دو بلین ڈالر کے اسلحہ کی اسرائیل سے خریداری پہ اپنی مہر ثبت کی۔ بھارت کا یہ دعوہ کہ وہ اب بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے حامی ہیں کوئی حقیقت نہیں رکھتا کیونکہ یہ سارا عالم کہتا ہے حتّی کہ اسرائیل کا سب سے زبردست حامی امریکہ بھی لیکن اِس سے اسرائیل کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا نہ ہی اسرائیل مغربی ساحل پہ نئی یہودی آباد کاری پہ تنقید کو خاطر میں لاتا ہے چونکہ اسرائیل کو اطمینان ہے کہ عالمی طاقتوں کیلئے مغربی ایشیا بقول علامہ اقبالؒ مسلم ایشیا میں اسرائیل اُس کے ایک قلعے کی حیثیت رکھتا ہے اور نریندر مودی اب ان طاقتوں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں۔
Feedback:[email protected]