ایک ایسے وقت جب دلی اور بیجنگ کے درمیان سرد جنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر تی جارہی ہے ، مسئلہ کشمیرپرچینی موقف بڑے ہی واضح انداز میںسامنے آرہاہے ۔13 ؍جولائی 2017جمعرات کوچین کی وزارت خارجہ کاکہناتھاکہ کشمیر کی صورت حال اتنی کشیدہ ہے کہ اب بین الاقوامی برادری کی توجہ اس کی طرف مبذول ہونے لگی ہے۔چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان گنگ شوانگ نے بیجنگ میں ایک نیوز کانفرنس میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے سوال پر بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ کنٹرول لائن پر دونوں ملکوں کے درمیان جس طرح کا ٹکراؤ ہو رہا ہے اس نے صرف دونوں ملکوں کا امن و استحکام خطرے میں پڑے گا، بلکہ یہ کشیدگی پورے خطے پر اثر انداز ہوگی۔شوانگ کاکہناتھاکہ بھارت اور پاکستان جنوبی ایشیا کے اہم ممالک ہیں لیکن کشمیر کے کشیدہ حالات کے سبب اب اس تنازع کی طرف سبھی کی توجہ مبذول ہورہی ہے۔اسی دوران چین کے سرکاری اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘میں ایک کالم نگار نے لکھا تھا کہ جس طرح بھارت کے فوجی ڈوکلام کے متنازعہ علاقے میں بھوٹان کی درخواست پر داخل ہوئے ہیں، اسی دلیل کی بنیاد پر تیسرے ملک کی فوج پاکستان کی درخواست پر کشمیر میں داخل ہوسکتی ہے۔تیسرے ملک سے ان کی مرادبالمعنیٰ چین تھی۔انڈیا کی طرف سے چین کے اس بیان پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور میڈیا بھی اس معاملے میں پوری طرح سے خاموش ہے۔کشمیرکے حوالے سے چین کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب انڈیا اور چین کے فوجی سکم کی سرحد ڈوکلام اورلداخ کے متنازعہ علاقے میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
جنوبی ایشامیں پاک چین دوستی کوایک شہکارکے طورپردیکھاجاتاہے ۔سرزمین کشمیرپرکشمیریوں کونیست ونابودکرکے کلی طورپرکشمیرکو ہند وفاق میں ضم کرنے کی بھارتی خواہش ہویادہشت گردی کے موضوع پر بھارتی تفہیم وتشریح یاپھرپاکستان کے مقابلے میں بھارت کانیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) میں شمولیت کاخواب، چین ان معاملا ت میںسینہ تانے پاکستان کے ساتھ کھڑاہے اوربھارتی اقدامات کی متواتر مخالفت کرتا ہے۔ اوڑی حملے کے بعد جب مودی نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کودھمکی دی کہ ’’خون اورپانی اکٹھے نہیں بہہ سکتا‘‘ توچین نے 11؍اکتوبر 2016ء کو دریائے برہم پتر کے ایک معاون دریا کا پانی روک کربھارت کوہلاکررکھ دیا۔دریابرہم پتر سے نہ صرف 30فیصدبھارتی زرعی زمین سیراب ہوتی ہے بلکہ بھارت اوربنگلہ دیش کی ایک بڑی آبادی اس پانی کوپینے کے لئے بھی استعمال کرتی ہے ۔بظاہر چین نے تبت میں اپنے ایک پن بجلی منصوبے کے لیے برہم پتر دریا کے ایک معاون دریا کا پانی روک دیا لیکن اس روک کی تاریخ اوروقت پرتوجہ کی جائے تویہ بھارت کووارننگ تھی کہ پاکستان کاپانی روکوگے توبھگتوگے۔چین سے نکل کر برہم پتر دریا بھارت کے شمال مشرقی ریاستوں اروناچل پردیش اور آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش تک جاتا ہے۔واضح رہے چین مسئلہ کشمیرپراسی طرح واضح موقف رکھتاہے جس طرح وہ اروناچل پردیس پررکھتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں دہلی میں چینی سفارت خانے نے کشمیریوں اوراروناچل پردیسیوں کوانڈین پاسپورٹ کے بجائے اپنے لیٹرپیڈ پرویزافراہم کیاجس پردہلی نے شورمچایالیکن چین نے اپنے اس اقدام کوحق بجانب قراردیا۔اس کے علاوہ کئی مرتبہ چین نے کشمیرکوبھارتی نقشے سے ہٹاکربھارت کے سامنے کشمیرپراپنے اصولی موقف کی برملااوردوٹوک انداز میں وضاحت کردی ۔
کشمیراوردیگرایشوزپرچین کے دو ٹوک موقف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں کہیں پاکستان کے اہم مفادات کا سوال اٹھے گا چین پوری قوت اور ثابت قدمی کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دے گا۔ موجودہ اور 1970-60 کی دہائیوں کے چین میں بہت فرق ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے چین ایک پسماندہ ملک تھا۔ بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام پر دو سپر پاورز یعنی روس اور امریکہ کی اجارہ داری تھی۔ دنیا پر بالادستی قائم کرنے کے لیے یہ دونوں سپر پاورز آپس میں حریف تھیں لیکن چین کی مخالفت میں ایک دوسرے کے حلیف تھیں۔ امریکہ کی سرکردگی میں صنعتی طور پر ترقی یافتہ مغربی ممالک نے چین کا تجارتی اور اقتصادی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ مشرق بعید اور جنوب مشرقی ایشیا میں درجنوں فوجی اڈوں پر جدید ترین اور ایٹمی ہتھیاروں سے امریکی افواج چند منٹ کے نوٹس پر چین پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھیں۔ سب سے سنگین اشتعال انگیزی ویت نام کی جنگ تھی جس میں پانچ لاکھ سے زائد فوج امریکہ نے جھونک رکھی تھی۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود چین باقی ماندہ دنیا خصوصا ترقی یافتہ ممالک سے کٹا ہوا تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل پانے والے عالمی مالیاتی نظام جن کی نمائندگی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کرتے ہیں، کے ساتھ چین کا کوئی سروکار نہ تھا لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی۔ چین کے نئے لیڈر چن یائو پنگ نے ملک کے دروازے دنیا کے لیے کھول دیئے نہ صرف چینیوں کو دنیا کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع ملا بلکہ باہر کی دنیا خصوصا لاکھوں اوورسیز چینیوں کو مین لینڈ چائنا آنے اور یہاں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب ملی، بس یہاں سے وہ سفر شروع ہوتا ہے کہ جسے طے کر کے چین آج دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین ایک موجودہ عالمی اقتصادی نظام کا مخالف نہیں رہا بلکہ اس کا ایک اہم حصہ ہے چین اس نظام کو منصفانہ بنانے کے لیے اس میں اصلاحات کا حامی ہے لیکن اسے عدم استحکام سے دوچار نہیں کرنا چاہتا ،کیوں کہ اب وہ خود اس کا ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے اور اس سے اپنی وابستگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے اورقومی ترقی کے لیے اس نے اسی راہ کا انتخاب کیا ہے۔ اسی کی ایک نمایاں مثال جنوب مشرق ایشیائی ممالک کی علاقائی تعاون کی تنظیم آسیان(Asean)کو پیش کیا جا سکتا ہے 1967ء میں جب اس تنظیم کو رکن ممالک کے مابین تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا تو چین نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے سامراجی طاقتوں کا آلہ ٔ کار قرار دیا تھا۔ آج چین اس تنظیم کا نہ صرف ڈائیلاگ رکن بلکہ اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔1962ء کی چین بھارت سرحدی جنگ اور امریکہ، پاکستان تعلقات میں سرد مہری نے دراصل پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی جو وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر چلی آ رہی ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ چین جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بشمول بھارت کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اس کے برعکس حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلا نیپال بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ بھی چین نے گہرے دو طرفہ تعلقات قائم کررکھے ہیں۔
چین سمجھتاہے کہ بھارتی قیادت اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں تغافل یا تجاہل جاری رکھے گی تو بھی فلسطین کی طرح اس اہم ترین جنوب ایشیائی مسئلے کے حل کی ضرورت ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ کسی روز یہ لاوا زیادہ شدت کے ساتھ پھٹے گا اور پورے خطے کا امن دائو پر لگ جائے گا۔ چین نے بھارت کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ پیغام محض بھارت کے لیے نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کے لیے بھی ہے کہ اگردنیاکی سلامتی اور استحکام یقینی بنانے کے لیے دل میں تمناہوتوکشمیراورفلسطین کے ساتھ ساتھ شام ،عراق اورافغانستان کے مسائل بطر یق اَحسن حل کرنے پڑیں گے ۔ چین کادوٹوک موقف ہے کہ ارونا چل پردیش کا 84 ہزار سات سوتنتالیس مربع کلومیٹر کا علاقہ تبت کا حصہ ہے۔اروناچل پردیش بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے۔اس کی سرحدیں جنوب میںبھارت کی دو ریاستوں آسام اور ناگالینڈ سے اور مغرب میں بھوٹان، مشرق میں میانمار اور شمال میں عوامی جمہوریہ چین سے جاملتی ہیں۔بھارت نے اس متازعہ علاقے کو 20 فروری 1987میں سلطنت بھارت میں شامل کردیاہے۔2011ء کوکرائی جانے والی مردم شماری کے مطابق اروناچل پردیش کی آبادی 1,382,611نفوس پرمشتمل ہے۔ یہاںمسلمانوں کی تعداد 20,000 ہے،جب کہ اکثریت ہندوؤں کی ہے جن کی تعداد3,70,000 ہے۔ مسیحیوں کی تعداد دولاکھ بتائی جاتی ہے۔ بدھ مت کے ماننے والے ڈیڑھ لاکھ ہیں۔ اروناچل پردیش کے قدیم مذہب ڈونیو پولو کے ماننے والوں کی تعداد 3,30,000 ہے۔ یہ تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے کیوں کہ اس مذہب کے ماننے والے تیزی سے دیگرمذاہب قبول کررہے ہیں۔60؍نشستوں پرمشتمل اروناچل پردیش میں ایک قانون ساز اسمبلی ہے،جب کہ بھارتی پارلیمان کیلئے یہاں دونشستیں رکھی گئی ہیں۔ایٹانگر اروناچل پردیش کادارالحکومت ہے۔لغت میںاروناچل پردیش کے معنی ’’شفق ِصبح‘‘ والے پہاڑ ی سرزمین کے ہیں۔
چین بھارت کااصل تنازع اروناچل پردیش اور جموں وکشمیر کے لداخ علاقے پر ہے۔ چین کا موقف ہے کہ اروناچل پردیش پر ہندوستان نے قبضہ کر رکھا ہے،جب کہ لداخ ک حوالے سے چین کاموقف ہے کہ بھارت نے اس پربھی جبری قبضہ کیاہواہے۔ مسئلہ اروناچل پردیش ایک بارپھر کھڑاہوگیا۔ چین سے ویت نام، لاس ، تھائی لینڈ اور برما سے ملانے والی سڑکوں اور ریلوے کا ایک وسیع نیٹ ورک تیار کیا جا رہا ہے اوراسی پس منظرمیں چین سٹلویل روڈ کو دوبارہ کھولنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں چین کو سپلائی اسی سڑک سے ہوتی تھی، یہ سڑک بھارت کی ریاست آسام سے شروع ہوتی ہے اور ارونا چل پردیش سے ہوتی ہوئی برما کے بالائی علاقے کاچن سے ہوتے ہوئے چین کے صوبے یوننن جا پہنچتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاجغرافیائی تنازعے کی موجودگی میں چین بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات اس طرح استواررکھنے کی پوزیشن میں ہے کہ جس طرح بھارت چاہتاہے اوریہ کہ کیا بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ کا کوئی حل ہے؟ایک طرف تو بھارت چین کے ساتھ باہمی رشتوں کو مضبوط کرنے کی بات کر رہاہے اور دوسری طرف سرحد پر فوج آمنے سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات ان دنوں شدید تلخیوں کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریبا چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کے کئی مقامات پر دیرینہ تنازع ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار جنگ بھی ہو چکی ہے۔سرحدی تنازع حل تو نہیں ہوا لیکن دونوں ملکوں کی سرحد پر گذشتہ 50برس میں کبھی کوئی گھمبیر ٹکرا ئونہیں ہوا لیکن اب یہ صورت حال بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔گذشتہ دنوں بھوٹان کے ڈوکلام خطے میں بھارتی فوجیوں نے چینی فوجیوں کو سڑک تعمیر کرنے سے روکا۔ بھوٹان کا اس علاقے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔چین نے ڈوکلام کے راستے تبت کے شہر لہاسہ اور بھارت کی سرحد پر ناتھو لا درے کو جوڑنے والی ایک سڑک بنا رکھی ہے۔بیجنگ ڈوکلام کے راستے ریلوے لائن بھی بچھا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کے فوجی چینی فوج کے سامنے آگئے۔اس پرچین کا ردعمل توقع کے عین مطابق سخت تھا۔ چین کے فوجیوں نے سکم سیکٹر میں بھارتی علاقے کے اندر داخل ہو کر فوج کے دو عارضی بنکر بلڈوزر سے تباہ کر دئے ۔ یہی نہیں ناتھو لا درے سے کیلاش ناتھ کی سالانہ یاترا پر جانے والے بھارتی یاتریوں کو بھی چین نے یاترا کی اجازت نہیں دی ۔ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت اپنی غلطی کو سمجھے اور اسے صحیح کرے۔دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشیدگی ایک عرصے سے رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ چین اور بھارت کے درمیان 1962 ء میں ایک مختصر مگر خونآشام جنگ ہو چکی ہے۔دونوں ممالک نے 1996 ء میں لائن آف ایکچول کنٹرول کو تسلیم کرتے ہوئے اس تنازعے پر مذاکرات شروع کئے تھے۔1996ء میںدونوں ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں دونوں ممالک نے فوجی علاقے میں اعتماد بحال کرنے کے لیے ایل اے سی کے تعین کے عمل کو تیز کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اس معاہدے میں کہا گیا تھا، بھارت اور چین کو ایل اے سی کے تعین کے پہلے مرحلے میں ان حصوں پر کام کرنا ہے، جس میں دونوں مختلف الرائے ہیں۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا نقشہ دینے پر بھی اتفاق کیا تھالیکن ایسا ہوا نہیں، 2003 ء میں بات چیت کرنے اور فیصلہ لینے کی ذمہ داری خصوصی نمائندوں کے حوالے کی گئی 11 سال اور17 ؍رائونڈ کی بات چیت کے بات بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا۔اس کے برعکس چین نے جموںوکشمیراوراروناچل پردیش کے شہریوں کوبھارتی باشندگان نہ مانتے ہوئے انہیں چین جانے کے لئے مروجہ ویزاکے طریقہ کارسے ہٹ کرایک سادہ سی پرچی پر،پرمٹ جاری کردئے تھے ،جس پربھارت نے واویلامچائی تھی جب کہ بھارت ’’آزادکشمیر‘‘میں چینی انجینئرزاورورکرزکوچین کی لبریشن آرمی سمجھتے ہوئے بھی چین سے شکوہ کنان ہے۔
ستمبر2014 میں نریندر مودی چینی صدر شی جی پنگ کو بھارت میں خوش آمدید کہہ چکے ہیں لیکن چینی صدر کے دورے کے دوران تقسیم کیے گئے ایک مبینہ نقشے میں اروناچل پردیش اور جموں کشمیر کو متنازعہ علاقے دکھایاگیا۔یہ نقشہ مبینہ طور پر ریاست گجرات کی بی جے پی حکومت نے چین کے صدر شی جی پنگ اور وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں احمد آباد میں ایک معاہدے پر دستخط کے وقت تقسیم کیا تھا۔واضح رہے کہ 23؍ستمبر 2014ء چین کے صدر شی جی پنگ کے بھارت کے دورے کے دوران بھی چینی فوجی جموں وکشمیرکے متنازعہ علاقے لداخ کی سرحد میں گھس آئے تھے۔اس پراس وقت کچھ اسٹریٹجک ماہرین کی رائے تھی کہ یہ دراندازی چین کے صدر شی جی پنگ کی خود کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ بھی سو سکتی ہے، تاکہ وہ بھارت کو اس کی حیثیت بتا سکیں اور یہ بھی یاد ہانی کر سکیں کہ بھارت اور چین کا تنازعہ برقرار ہے۔خیال رہے کہ چین اور بھارت کی تقریبا چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کا واضح طور پر تعین نہیں ہوا ہے اور سرحدی تنازعات نے سال1962 ء میں جنگ کی شکل بھی اختیار کر لی تھی۔