صوفیہ بانو
پہلے زمانے میں جب لوگ کوئی دلہن دیکھ کر آتے تھے تو چرچا ہوا کرتا تھا، کہ دلہن کالی ہے، ساونلی ہے یا گوری ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، اب تو سبھی دلہنیں گوری لگتی ہیں، آخر ایسا کیوں؟کیونکہ یہ سارا کمال بیوٹی پارلر کا ہے ، وہ ایسا میک اپ کرتی ہیں، بڑی بڑی آنکھوں کی پلکیں سنوارتی ہیں، بھوری بھوری آنکھوں کی پتلی پر لینس لگاتی ہیںاور غازہ وپائوڈر ایسا لگاتی ہیںکہ رنگ دودھ کی طرح گورا ہوجاتا ہے، یعنی دلہن کو اس قدر سجایا جاتا ہے کہ وہ کسی حور سے کم نہیں لگتیں۔
بیٹی غریب کی ہو یا امیر کی آج کل سب بیوٹی پارلر جاکر دلہن کی طرح سجتی ہیں، ان کا اپنا کوئی ہنر نہیں ہوتا، جب کہ لڑکی بچپن سے ہی سجتی اور سنورتی ہیں۔ پہلے دلہن کا لباس طرح طرح کا ہوتا تھا، مثلاً بنارسی ساڑی ، شلوار سوٹ، گھاگھرا ہوتا تھالیکن اب تو صرف لہنگا رہ گیا ہے، غریب ہو یا امیر سب ایک طرح کی لباس زیب تن کرنے لگی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دلہن سب ایک جیسی دکھتی ہیں۔ جن کی حیثیت نہیں ہے اس کے لئے تو بہت مشکل ہوجاتا ہے اور جس کے پاس دولت ہے اسے کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی۔
کاش کہ لڑکیاں سمجھ پاتیں کہ حضرت فاطمہؓ کو کافر عورتوں نے دعوت دی وہ اس لئے کہ ان کے پاس اچھا لباس نہیں تھا۔ اُدھر ان کافر عورتوں کا خیال تھا کہ آپ پرانے کپڑے پہن کر آئیں گی تو ہم لوگ ان کا مزاق اڑائینگے اور کہینگے کہ دیکھو تمہاری کیا حالت ہے۔ ایمان والی ہو تو نہ کوئی زیور ہے اور نہ قیمتی لباس ہے، ان کے ایمان کا مذاق اڑایا جائیگا۔ حضرت فاطمہؓ کو بہت فکر ہوا کہ دعوت میں کیسے جائوں، اگر نہیں جائونگی تو وہ کہیں گی کہ شرم سے نہیں آئی، میرے ایمان کا مذاق اڑایا جائیگا۔ لہذا حضرت فاطمہؓ کو اپنے ایمان کی فکر تھی، انہوں نے دو رکعت نماز بارگاہِ ایزدی میں ادا کیا اور رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ پھر کیا تھادعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت سے قیمتی لباس اور زیور بھیج دیاجسے پہن کر حضرت فاطمہؓ دعوت میں گئیں تو عورتیں دیکھ کر حیران رہ گئیں، چہرے پر کیا نور تھا یہ دیکھ کر کافر عورتیں دنگ رہ گئیں۔ الغرض حضرت فاطمہؓ کو جس قدر اپنے ایمان کی فکر تھی کاش کی میری بہنیں اوربیٹیاں بھی اس بات کو سمجھ پاتیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سب کو فضول خرچ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔