دلفریب اور تاریخی سیاحتی مقام(قسط۔۲)

Mir Ajaz
10 Min Read

عبدالرشید شاہ۔درنگ

ررنگ بنگلہ پتھری توشہ میدان پونچھ راستہ اپنے اندر داستانے سموئے ہوئے ہے،گاؤں کو اپنا ایک تاریخی پس منظر ہے ۔کہا جاتاہے کہ دور ماضی میں 1947 سے پہلے بیرونی ملک سے ملانے والے چند راستوں میں سے نزیک، محفوظ اور خوبصورت راستہ درنگ بنگلہ پتھری سے شروع ہو کر مغرب میں پیر پنچال پہاڑی سلسلہ کے جنگل نما پہاڑ سے چڑھ کر دائیں طرف ایک سات منزلہ سرکاری عما رت تھی، جس کو دم دم کہتے تھے۔ دم دم ٹھہرنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔پتھروں سے بنی اس عمارت کی ہر ایک منزل میں چھو ٹی چھو ٹی کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں ۔دم دم اس جگہ پر تھا جہاں سے وادی کشمیر پر نظر تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمارت بھی گر گئی اور آج اس جگہ صرف نشانات ہی موجود ہیں۔یہاں سے یہ تاریخی راستہ توشہ میدان میں داخل ہو کر سر سبز اور خوبصورت نشیب و فراز وادیوں میں سے گزرتا ہوا پونچھ سے ملتا ہے ۔
درنگ گاؤں کو اپنا ایک تاریخی پس منظر ہے۔کشمیر کی تواریخ کی کتاب انسایکلوپیڈیا جو کلچرل ایکاڑمی کی ہے، اس میں درج یوںہے۔ر اج ترنگنی و دیگر سنسکرت تواریخی کتابوں کے مطابق ررنگ سرحدی چوکی کوکہتے ہیں۔ درنگ نام کی اور بھی کچھ جگہیں کشمیر موجودہیں ۔سامان تجارت کے ٹیکس کے علاوہ اجازت نامے ان چو کیوں پر دیکھے جاتے تھے ۔زمانہ ماضی میں کشمیر میں داخل ہونے والی تقریبا تمام راستوں پر یہ چو کیا ں قائم تھیں، ان سرحدی چوکیوں پر فوج ایک افسر کے ماتحت کام کرتی تھی جن کو درنگیش یا درنگدیپ کہا جاتا تھا۔ درنگوں کے سربراہوں کو درنگ پتی کہا جاتا تھا ،مسلمانوں کے دور حکومت میں حفاظت کرنے کا کام ان علاقوں کے جاگیرداروں کی ذمہ رکھا گیا تھا جن کو ملک کہا جاتا تھا۔ تواریخی کتابوں کے مطابق اگرچہ یہ چوکی قائم ہونے کا کوئی خاص وقت درج نہیں ہے لیکن اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ سرحدی چوکی بہت پہلے سے ہی قائم تھی، اسی راستے سے ساتویں صدی میں ہیون سانگ واپس چلے گئے ہیں۔1947 سے پہلے کشمیر کو مغربی پنجاب کے ساتھ ملا نےوالا یہ راستہ سب سے نزدیک خوبصورت اور محفوظ تھا ۔ جس کی وجہ سے لوگ اس راستے سے سفر کرنا پسند کرتے تھے۔کشمیر اور پونچھ کے درمیان اس راستے سے تجارت ہوا کرتا تھا ۔ یہ راستہ گرمیوں میں کھلا رہتا تھا اور سردیوں میں زیادہ برف کی وجہ سے بند ۔ زیادہ تر اس راستے سے نمک وادی میں درآمد ہوتا تھا،اسی وجہ سے اس راستے کو آج بھی نونہ وَتھ یعنی نمک کا راستہ کہتے ہیں ۔بہت سےبادشاہ اور حکمران اسی راستے کے مسافر بنکر کشمیر کی وادی میں آئے ہیں ۔ شاہمیری دور میں اسی راستے سے سلطان قتح شاہ کشمیر سےواپس چلے گئےاور1580ءاسی راستے سے یو سف شاہ چک واپس آکر تخت نشین ہوتے ہیں ۔پونچھ اور کشمیر کے درمیان تجارت کا سلسلہ ملک کی تقسیم ہو نے تک جاری تھا ۔
گرمیوں کا موسم بنگلہ پتھری کا خاموش اور پرسکون ماحول ارد گرد سر سبز خوشنما جنگل اور ریسٹ ہاؤس میں گزاری راتیں تمام پریشا نیوں کو ہضم کرتی تھیں ۔شایقین کا آنا جانا جاری تھا وقت کیا کیا نشیب و فراز دکھاتاہے، وقت کا مزاج بدل گیا ،اتنا بدل گیا کہ یقین نہ تھا، ستمبر 1991 میں یہ خوبصورت عمارت ریسٹ ہاؤس آگ کی نذرہو گئی۔ یہ خبر سنتے ہی پورے علاقے میں غم کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ریسٹ ہاؤس کے خاکستر ی کے بعد بنگلہ پتھری پر آنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی کیونکہ ریسٹ ہاؤس کی جگہ اور کوئی نئی عمارت تعمیر نہیں کی گئی۔ محکمہ جنگلات کا پروگرام تھا کہ یہاں اور ایک عمارت ریسٹ ہاؤس جیسی تعمیر کی جائے گی لیکن آج تک ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا ،مگر محکمہ جنگلات نےچند سال قبل واقعی ایک بڑا کام کیا کہ درنگ بنگلہ پتھری سے تارس پورہ کے مقام تک دیوداروں کے پودے لگائے تھے۔ الحمدللہ ان سے بنگلہ پتھری کی خوبصورتی میں واقعی اضافہ ہوا ہے، لگتا ہے جیسے یہ جنت کا ایک حصہ ہے۔آج اس جگہ بیٹھ کر کچھ لمحات گزارنے کے بعد دل کرتاہے کہ ماضی کی طرح رات اسی طلسم نگری میں گذاریں۔آج بھی درنگ بنگلہ پتھری میں طلوع آفتاب کا منظر اور چاندنی رات کا نظارہ کیا جا سکتا تھا لیکن رات کو ٹھہرنے کے لیے نہ وہ بنگلہ یہاں موجودہے نہ ہی وہ ریسٹ ہاؤس۔امید ہےکہ محکمہ جنگلات اس جگہ ایک نیا ریسٹ ہاؤس تعمیر کروائے گا۔ جس سے علاقے کی دیرینہ مانگ پوری ہو گی۔ بنگلہ پتھری کی خوبصورتی اور ایک وسیع رقبہ مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ سیاحت سے گزارش ہے کہ اس جگہ کو سیاحتی نقشے پر لائیں تاکہ دوبارہ شائقین اس خوبصورت جگہ کو اسی طرح دیکھنے کے لیے آئیں، جس طرح پہلے آتے تھے۔ رات کوٹھہر نے کیلئے عمارتیں بنایئ جائیں۔ جسے یہاں آنے والے بنگلہ پتھری میں بیٹھ کر صبح اور شام کے نظاروں سے بھی لطف اندوز ہونگے ۔
کشمیر ریشیو ں صوفیوں اور ولیوں کی مسکن رہی ہے، درنگ بنگلہ پتھری توشہ میدان پونچھ راستہ یہ سوچنے کی جانب لےجاتا ہے کہ معلوم نہیں کہ کتنے صوفیاء کرام نے اس راستے سے سفر کیا ہوگا۔معلوم نہیں کتنےشایقین فطرت دل میں حسرت لئے ہوئے وادی کشمیر کو دیکھنے کے لئے آئے ہونگے ۔معلوم نہیں کتنے کاروانوں کا گزر اس راستے سے ہوا ہوگا ۔کتنے بادشاہوں کے قافلے اس راستے کے مسافر بنے ہوں گے۔کتنوں نے یہاں سے واپسی کے موقع پر بنگلہ پتھری میں رخت سفر باندھا ہوگا اورکتنے تھکے جسموں نے ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد درنگ بنگلہ پتھری میں بیٹھ کر راحت کی سانسیں لی ہوں گی۔ امید افزا بات یہ ہوئی کہ15 نومبر 2023 کو درنگ بنگلہ پتھری سے توشہ میدان تک ٹریکنگ روٹ کا ابتدا کیا گیا ۔امیدہے اس ٹریکنگ روٹ پر چلتے چلتے شایقین چند اور خوبصورت جگہوں کو ریکھ کر لطف اندوز ہونگے ، جن میں تارس پورہ، تالا پتھری،زم پتھری اور وانگن پتھری قابل ذکر ہیں۔تارس پورہ سنتے ہی لگتا ہے کہ کسی گاؤں کا نام ہے۔ جی ہاں یہ جگہ بنگلہ پتھری کے ساتھ ہی توشہ میدان کے راستے پر آتی ہے ۔گاؤں کے بزرگوں کا کہناہےکہ پرا نے زمانے میں اس جگہ ایک گاؤں آباد تھا، لیکن کسی وجہ سے وہ لوگ یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور صرف گاؤں کا نام ہی رہا۔ اس جگہ آج اینٹیں اور پرانے برتنوں کے ٹکڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں سے دائیں طرف آگے بڑھ کر تالا پتھری آتی ہے۔ اسکے بعد اس راستے پر زم پتھری اور کچھ چڑھائی چڑھ کر ایک اور جگہ آتی ہے جس کانام وانگن پتھری ہے۔ وانگن پتھری میں دائیں طرف سے ایک اور راستہ آتا ہے جو اور ایک خوبصورت گائوں شنگلی پورہ سے شروع ہو کر سر سبز جنگل نما پہاڑ سے چڑھ کر وانگن پتھری میں ملتا ہے ۔بنگلہ پتھری سے توشہ میدان تک اس راستے میں یہ جگہیں اگرچہ رقبے کے لحاظ سے چھو ٹی ہی ہی ہیں لیکن ان جگہوں میں ایک الگ ہی خوبصورتی اور دلکشی نظر آتی ہے ۔راستے پر چلتے چلتے ارد گردسر سبز جنگل کا خاموش اورپُرسکون ماحول اور بائیں طرف نشیب میں شور مچا تا بہتے پانی کا نالہ ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے، اسکا پانی توشہ میدان میں سے آتاہے۔ یہ پانی پہاڑ کا سینہ چیر کر اونچائی سی اُترتے ہوئے ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے، اس نالے کاپر شور بہتا پانی تیز رفتار ی سے تا رس پورہ کے مقام تک پہنچتا ہے ۔تارس پورہ سے اترائی کم ہونے کی وجہ سے پانی کی رفتار میں بھی کمی واقع ہوتی ہے اور یہاں سے جل ترنگ سنا تا یہ پا نی بنگلہ پتھری کے دائیں طرف ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہوانشیب میں اپنے سفر پر رواں دواںہے ۔
(رابطہ۔ 9906660042)
[email protected]

Share This Article