گلفام بارجی
وادی کشمیر کے مختلف اضلاع کے مختلف علاقوں میں کوئی نہ کوئی خوبی پائی جاتی ہے اور ان ہی خوبیوں کی وجہ ان علاقہ جات کو جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ان اضلاع میں شمالی کشمیر کا ضلع بانڈی پورہ کا نام ادبی حلقوں میں سرفہرست ہے۔ضلع بانڈی پورہ کے بارے میں ایک مقبول عام کہاوت ہے کہ اس ضلعے میں آب، علم اور ادب کا بیش بہا خزانہ ہے۔ اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے وادی کے ایک معروف قلم کار اور شاعر دلشاد مصطفیٰ کا تعلق نوگام سوناواری سے ہے۔ دلشاد مصطفیٰ 15 مارچ سال, 1971 میں نوگام سوناواری میں ہی پیدا ہوئے اور ایک اوسط درجہ کے گھرانے میں پرورش حاصل کی۔ دلشاد کو بچپن سے ہی ریڈیو سننے کا شوق تھا اور اسی شوق نے دلشاد کو بچپن سے ہی شاعری کی طرف راغب کیا۔ محض 14 سال کی عمر میں دلشاد نے کشمیری شاعری کی طرف قدم بڑھایا اور لکھنا شروع کیا اس کے ساتھ ساتھ دلشاد مصطفیٰ ادبی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہے۔ اپنی تحریروں کو دلشاد مصطفیٰ دوسرے ہمسایہ گاؤں نائید کھے میں استاد قأدر نائید کھے کے پاس اصلاح کرانے کی غرض سے جایا کرتے تھے اس کے علاوہ دلشاد وادی کے ممتاز ادیب، قلم کار اور شاعر مرحوم محمد احسن احسن کے پاس بھی اپنے کلام کو اصلاح کرانے کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ اسی دوران دلشاد مصطفیٰ نے آل انڈیا ریڈیو سرینگر اس وقت کے ریڈیو کشمیر سرینگر سے سال 1991 میں ڈراما آڈیشن پاس کیا اور بحیثیت اداکار کئی مقبول عام ریڈیو ڈراموں میں کام کیا۔ اس سفر میں دلشاد مصطفیٰ آگے بڑھتے گئے اور دوردرشن کیندر سرینگر سے بھی ڈراما آڈیشن پاس کرکے دوردرشن میں اپنی جگہ بنا ڈالی۔ ڈراموں، مشاعروں اور دیگر تحقیقی پروگراموں میں شرکت کرنے سے دلشاد کو ادبی دنیا کی کسی حدتک جان پہچان ہوگئی اور اپنی ادبی تشنگی کو مٹانے کے لئے دلشاد مصطفیٰ نے دلشاد کلچرل فورم نامی ثقافتی انجمن کا قیام عمل میں لایا اور اپنی ادبی پیاس بجانے کے لئے اس فورم کے اہتمام سے وادی کے مختلف علاقوں میں مختلف عنوانات کے تحت ادبی محفلوں کو سجاتے رہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔اپنے ادبی سفر کو جاری رکھتے ہوئے بالآخر دلشاد مصطفیٰ نے کشمیری زبان میں’’أش ٹائری ‘‘نامی کتاب ترتیب دی یہ تصنیف دلشاد کا پہلا کشمیری شعری مجموعہ ہے۔اس شعری مجموعے میں نعت، حمد باری تعالٰی، نوحہ، منقبت، نظموں اور غزلوں پر مشتمل تقریباً سو کلام درج ہیں۔دلشاد مصطفیٰ کی اس کتاب اور دلشاد کے بارے میں وادی کے کئی ممتاز ادیبوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اس کتاب میں باضابطہ درج ہے۔میں نے جب اس کتاب کا سرسری مطالعہ کیا تو کتاب سرورق خوبصورت اور دلکش اندازا میں سجایا گیا ہے اور کتاب کو بڑے ہی ادب سے ترتیب دیا گیا ہے۔کتاب میں درج سبھی کلام ایک سے بڑھکر ایک ہے۔ کتاب میں جہاں اسلامیات پر کلام درج ہیں وہیں دنیاوی کلام کے ساتھ ساتھ آخرت کی عکاسی بھی دلشاد مصطفیٰ کے کلاموں سے جھلکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں دلشاد مصطفیٰ جہاں نعتیہ کلام لکھنے میں ماہر ہے وہیں انہوں نے سنجیدہ شاعری کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کو بھی اپنی تازہ تصنیف کی زینت بنایا ہے جس سے پڑھ کر انسان واقعی سب غم بھول کر چند لمحات کےلئے سکون حاصل کرتا ہے۔
کئی ایسے مزاحیہ کلام اس کتاب میں درج ہے جنہیں بار بار پڑھنے کو من کررہا ہے۔اس کتاب میں دلشاد مصطفیٰ نے عقیدتی ادب کے ساتھ ساتھ رسائی ادب،مزاحیہ ادب اور حالات واقعات پر بھی قلم آزمائی کی گئی ہے۔ اس کتاب اور دلشاد مصطفیٰ کے بارے میں جن ممتاز ادبی شخصیات نے اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں ان میں ڈاکٹر واحد رضا، منورپروانہ، ڈاکٹر ارشد ملک، ملک ظہور مہدی کشمیری، سیلم یوسف، سید اسداللہ صفوی، مختیار علی اور عنایت گل قابل ذکر ہیں۔ان تمام شخصیات کے تاثرات اور کتاب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ دلشاد مصطفیٰ ایک سنجیدہ، مزاحیہ اور گہری سوچ رکھنے والا ادیب، قلم کار اور شاعر ہے۔اس کتاب کا مطالعہ کرنے کےبعد اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دلشاد مصطفیٰ ایک مکمل اور کامیاب شاعر ہے۔’’أش ٹاری‘‘ نامی کتاب کے علاوہ دلشاد مصطفیٰ کے پاس اس وقت تقریباً 4 کتابوں کے لئے مواد محفوظ ہے اور اپنی کم قلیل آمدنی میں دلشاد یہ سارا مواد کتابوں کی شکل میں آنے والے وقت میں منظر عام پر لانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ دلشاد نے ادبی میدان میں اپنی محنت سے آج تک سرکاری، غیر سرکاری،سماجی اور ادبی انجمنوں سے کئی اعزازات اور اسناد حاصل کئے ہیں اور ان تمام اعزازات اور اسناد کی پوری تفصیل اسی کتاب میں رنگین تصاویر کے ساتھ درج ہیں۔جو چند ایک اعزازات اور اسناد دلشاد مصطفیٰ نے آج تک حاصل کئے ہیں ان میں جے اینڈ کے اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز، ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر بانڈی پورہ، گلستان نیوز، شاہ جیلان پبلک اسکول، علی اصغر علیہ السلام بلڈ بنک کئر فاونڈیشن، کشمیر ہیڈ لائنز، فرنٹ لائن میدیا، اندر کلچرل فورم سمبل، پیام انٹرنیشنل آرگنائزیشن اور بلاک میڈیکل آفیسر حاجن۔ اس کے علاوہ دلشاد مصطفیٰ نے سال 1998 میں کلچرل اکیڈمی کی جانب سے منعقدہ سالانہ ڈرامہ فیسٹیول میں بہترین ہدایت کار کا اعزاز،گلستان نیوز چینل کی جانب سے بہترین مزاحیہ شاعر اعزاز، اندر کلچرل فورم کی جانب سے بہترین اداکار اعزاز، محکمہ ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر بلاک حاجن اورحسینی ریلیف کمیٹی و بلڈ بنک کی جانب سے بہترین سماجی کارکن اعزاز، دلشاد کلچرل فورم کی جانب سے بہترین منتظم اعزاز اور کشمیر ہیڈ لائنز کی جانب سے بہترین رپوٹر کا اعزاز اور اسناد شامل ہیں اور اعزازات اور اسناد حاصل کرنے کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔آخر پر میں ذاتی طور دلشاد مصطفیٰ کو ان کے شعری مجموعہ’’ ‘أش ٹاری ‘‘کے منظر عام پر لانے کے لئے دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
[email protected]>