بالاخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ برسراقتدار آنے کے بعد ریاستی بی جے پی قائدین نے ریاست کی خصوصی پوزیشن اور آئینی ضمانتوں پر سر عام رائے زنی کرنے سے احتراز کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی اس کا ملمع اُترنے لگا ہے۔ جبھی نائب وزیراعلیٰ نے ایتوار کے روز صاف لفظوں میں کہا کہ دفعہ370کا خاتمہ بی جے پی کا بنیادی مؤقف ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ اگر انہیں الیکشن میں مطلوبہ اکثریت حاصل ہوئی ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ بہ الفاظ دیگر بی جے پی دفعہ370کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کو ختم کرکے جموںوکشمیر کو ملک کی دیگر ریاستوں کے برابر لے آتی۔ نائب وزیراعلیٰ نے یہ بات آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان کے دوسرے ہی دن کہی جس میں موصوف نے جموںوکشمیر کے عوام کو ہندوستان کے باقیماندہ عوام کے سے خلط کرنے کےلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ نائب وزیراعلیٰ کے بیان سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے خاتمہ میں فی الوقت انکی اپنی مجبوریاں حائل ہیں اور وہ پی ڈی پی کے ساتھ طے پائی دستاویز مفاہمت، جسے عرف عام میں ایجنڈا آف الائنس کہا جاتا ہے، میں بندھے ہونے کی وجہ سے ریاست کی خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کی سمت میں عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس بیان کا اگر بین السطور جائزہ لیا جائے تو دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں اول یہ کہ مخلوط سرکار کی جانب سے گزشتہ 3برسوں کے دوران متواتر جو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، وہ زمینی سطح پر حقیقت نہیں ہے بلکہ بی جے پی یہ کاروائی کرنے کےلئے موقع کی تاک میں ہے، جو اُسے ابھی حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پی ڈی پی کے زعماء کی جانب سے ایسے بیانات کا کھل کر توڑ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ظاہر بات ہے کہ یہ اقتدار کی مجبوریاں ہیں لیکن کیا ایسی حالت میں ریاستی عوام کے بنیادی مفادات کے خلاف کھلم کھلا سامنے آنے والے حلقوں کے ساتھ بغلگیر رہنا اُن ووٹروں کے اعتمادکے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف نہیں ہے، جنہوں نے ریاست میں کشت و خون کے خاتمہ کی خاطر مسئلہ کشمیر حل کرنے، خونی لکیر کے آر پار لوگوں کو ملانے اور ریاست کو خصوصی پوزیشن اور آئینی ضمانتوں کو مستحکم اور محفوظ بنانے کے وعدوں اور یقین دہائیوں پر اس جماعت کو ووٹ دے کر اقتدار میں آنے کی پوزیشن پر کھڑا کیا۔ بی جے پی اور اسکی سیاسی فکر سے ہم آہنگ جماعتوں نے فی الوقت ملک کے طول وعرض میں کشمیر اور کشمیریوں کو بدنام کرکے ریاست کی موجودہ آئینی حیثیت کو ختم کرنے کےلئے جو مہم شروع کر رکھی اس پر عملاً پی ڈی پی کی خاموشی عوامی توقعات سے مطابقت نہیں رکھتی۔حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کے وزراء کے خلاف کچھ عرصہ سے جموں میں برہمی پائی جاتی ہے، جس پر مرکزی قیادت کی جانب سے جموں میں پارٹی کارکنوں کی شکایات سن کر وزراء کو دلی بلا کر ان شکایات کو دور کرنے کی فہمائش کی گئی، اور اس وجہ سے بھی ریاستی بی جے پی قیادت دبائو کا شکار ہے اور ایسے بیانات دفعہ370پر مباحثہ چھیڑ کر ایک طرف اپنے ووٹ بنک کو ایڈرس کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے اور دوسری جانب شریک اقتدار پی ڈی پی کو مسلسل دبائو میں رکھنے کا حربہ ہوسکتا ہے ۔ گو یا بی جے پی دفعہ370کے مباحثے کو ہر حال میں اپنے حق میں استعمال کرنے پر مصر ہے۔ اب ایسے حالات میں یہ پی ڈی پی پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ان کوششوں کا توڑ کرکے عوام کے اس اعتماد کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ، جسکے بل پر وہ اقتدار پر براجمان ہے۔