آئین ہند کی دفعہ35-Aکےخلاف جس عنوان سے ماحول تیار کیا جا رہا ہے اُ س نے جموںوکشمیر کے اند ر مزاحمتی خیمے کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم پارٹیوں کو بھی تشویش میں مبتلاء کر دیا ہے ، کیونکہ اگر اس دفعہ ، جو ریاستی عوام کو حاصل خصوصی حقوق کو تحفظ عطا کرتی ہے، کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی توظاہر ہے کہ اس سے مین اسٹریم سیاست کی مرکزیت ختم ہونے کا اندیشہ ہے، جسکا کھلم کھلا اظہار گزشتہ دنوں ریاست کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی میں ایک تقریر کے دوران کھلے لفظوں میں بغیر کسی لاگ لپٹ کے کیا اور جس پرانہیں اپنی ہی حلیف جماعت بی جے پی کے حلقوں اور اُس سے منسلک جماعتوں کی جانب سے زبردست نکتہ چینی کا نشانہ بننا پڑا، حتاکہ قوم پرچم کی توہین کے الزام میں انکے خلاف معاملہ درج کرنے کا بھی مطالبہ کیاگیا۔ اب ریاست کی کلیدی اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس بھی اس صورتحال کے حوالے سے سرگرم ہونے لگی ہے اور اُس نے کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اس حوالے سے صلاح مشورہ کرکے کوئی لائحہ عمل طے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جبکہ مزاحمتی خیمہ نے اپنے بیانات کے ذریعہ پہلے ہی ایسی کسی بھی حرکت کے خلاف شدید ردعمل کا انتباہ دیا ہے۔ حال ہی میں جی ایس ٹی قانون کے ریاست کے اند ر نفاذ کے صدمہ سے ابھی لوگ نکل نہیں پا رہے تھے کہ اس نئے اندیشے نے عوام کو تردد میں ڈال دیا ہے، کیونکہ حساس عوامی حلقوں میں یہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ کہیں جی ایس ٹی معاملے پر سیاست کرنے کے بعد اب اس دفعہ، جو ریاستی عوام کو حاصل خصوصی حقوق کے مو ت و حیات کا معاملہ ہے، پر بھی سیاست کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خوشش کی گئی تو نتیجہ جی ایس ٹی جیسی صورتحال کا سامنے آسکتا ہے اور ہاتھ پیر مارنے کے باوجود ان دونوں حلقوں سے کچھ نہیں بن پائے گا۔ چنانچہ جو صورتحال بن ہی ہے وہ درپیش معاملے پر مین اسٹریم جماعتوں کی طرف سے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی متقاضی ہے۔ چونکہ وزیراعلیٰ نے پہلے ہی اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے شدید تشویش ظاہر کی ہے، لہٰذا مین اسٹریم خیمے کو دفعہ35-Aکے قضیہ پر مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہئے کیونکہ اس دفعہ کے ساتھ ریاست کے پشتنی باشندوں کے ان حقوق کا تحفظ وابستہ ہے جو غیر منقولہ جائیداد ، ملازمتوں اور وضائف کے حصول وغیرہ کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں اور اس دفعہ کو کالعدم قرار دیئے جانے سے غیر ریاستی لوگ ان معاملات میں ریاست کے پشتنی باشندوں کے برابر آجائینگے۔اس طرح یہ اقدام ریاست کی اٹانومی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس کے بعد کوئی ایسی خصوصی پوزیشن نہیں بچے گی جس کی حفاظت کرنے کی ضرورت باقی رہے ۔ ایسے حالات میں ریاستی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی پہلوتہی کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اسے اس دفعہ کا دفاع کرنے کےلئے تمام تر ذرائع اختیار کرنے چاہیں۔ سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کے دورا ن مرکزی حکومت کی جانب سے دانستہ یا غیر دانستہ طور حاضر نہ ہونے کی جس طرح کی کوتاہی کا مظاہرہ ہوا ہے، ریاست اسکی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ ایسے حالات میں ریاستی حکومت کو ضرورت سے زیادہ مستعد رہنا پڑیگا۔ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ریاستی حکومت کو صرف زبانی بیان بازیوں سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ عملی طور پر میدان میں کود کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنی چاہئے اور عوام کی بھی یہ خواہش او ریہی مطالبہ ہے۔