سرینگر// نیشنل کانفرنس نے مرکزی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے ذریعے آئین ہند کی دفعہ35-Aکو چیلنج کرنے والی مفادِ عامہ عرضی کیخلاف تحریری جواب نہ دینے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ علی محمد ساگر، عبدالرحیم راتھر، محمد شفیع اوڑی، ناصر اسلم وانی اور دیوندر سنگھ رانا نے بیان میں مرکزی سرکار کی طرف سے اس انتہائی حساس معاملے میں مبہم پالیسی اختیار کرنے سے ایسے عناصر کی مدد اور اعانت کرنے کے صاف صاف اشارے مل رہے ہیں جنہوں نے آئین ہند کی دفعہ35Aاور 370کو ختم کرنے کیلئے عدلیہ کا راستہ اختیار کیاہے۔عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بنچ تک پہنچے سے قبل اٹارنی جنرل کی طرف سے اس مفادِ عامہ عرضی کیخلاف تحریری جواب نہ دینے نے بہت سارے شک و شبہات کو جنم دیا ہے اور ساتھ ہی اس عمل سے ایک بار پھر اس بات کا خلاصہ ہوتا کہ نئی دلی کے براجمان پر بیٹھے لوگ مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن اور سٹیٹ سبجیکٹ قانون کیخلاف ہورہی سازشوں کی درپردہ پشت پناہی کررہے ہیں۔یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ مرکزی حکومت اس حساس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرنے سے باز ہے۔ مرکز کا یہ اپروچ انتہائی خطرناک ہے ، جس سے ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن اور سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔لیڈران نے کہا کہ آئین ہند کی دفعہ35Aجموں وکشمیر قانون سازیہ کو مستقل باشندوں کی وضاحت کرنے کا اختیار دیتی ہے اور ساتھ ہی اس دفعہ سے قانون سازیہ کو یہاں کے مستقبل باشندوں کو خصوصی اختیارات اور مراعات دینے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔ لیڈران نے اس معاملے میں ریاستی حکومت کی غیر سنجیدہ پالیسی کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی کی سربراہی والی حکومت مجرمانہ رول نبھا رہی ہے۔ ریاستی سرکار مرکزی حکومت کو اس مفادِ عامہ عرضی کیخلاف تحریری جواب دینے کیلئے دبائوڈال سکتی تھی۔ یہ مرکزی سرکار اور اٹارنی جنرل کی ذمہ داری ہے کہ ایسی مفادِ عامہ عرضوں کا شفاف ، بروقت اور غیر مبہم جواب دیا جائے۔ تاہم مرکزی سرکار کی طرف سے اس معاملے میں مبہم اور غیر واضح پالیسی اختیار کرکے ایسے افراد کی سیاسی سرپرستی کی عکاسی ہوتی ہے جو ریاست جموں و خصوصی پوزیشن کو مختلف طریقوں کے ذریعے ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔