آئین ہند کی دفعہ35-Aکے حوالے سے ریاست کےاندر جو بے یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے، وہ فی الوقت عدالت عظمیٰ کی جانب سے معاملے پر سماعت کو مؤخر کرنے کے سبب وقتی طور پر چندہفتوں کے لئے ٹل گئی ہے۔ ان ایام میںاس سلسلہ میں عوامی یا حکومتی سطح پر کیا ڈیولپمنٹس سامنے آتی ہیں وہ آنے والے دنوں میں ہی واضح ہوگا۔ دفعہ35-Aجو ریاست جموںوکشمیر کے باشندگان کی مستقل باشندگی حقوق کو کو تحفظ فراہم کرکے جموںوکشمیر کو ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں منفرد وممتاز بناتی ہے، کے بارے میں پیدا شدہ خطرات کے تئیں ریاست کے طول وعرض میںعوامی سطح پر اتحاد ،بیداری اور احساس ذمہ داری کاجو مظاہرہ دیکھنے کو ملا وہ حالیہ برسوں میں ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے اور اسکا ایک زبردست فائدہ یہ ہوا ہے کہ یہ متفقہ طرز عمل سیاسی و سماجی صف بندیوں کے آر پار پیدا ہوا ہے۔ جہاں کچھ انتہا پسند حلقے دفعہ35-Aکے بارے میں اپنے تحفظات کو کشمیر مرکوز قرار دینے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے تھے، وہاں جموں خطہ کے ہر علاقہ سےاس دفعہ کو درپیش خطرات پر نہ صرف کھلم کھلا تشویش کا اظہار کیا گیا ، بلکہ جموں خطہ کے کم و بیش سبھی اضلاع میں لوگوں نے اس دفعہ کو برقرار کے حق میں مظاہروں کا اہتمام کیا۔ یہ کم از کم اُن عناصر کےلئے صاف لفظوں میں ایک پیغام ہے، جو اس معاملے کو کشمیر کی سیاست سے جوڑنے پر اصرار کرتےہوئے اسے علاقائیت اور فرقہ واریت کی رنگت دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جہاں تک وادیٔ کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں ریاستی باشندگان کے اس بنیادی حق کے حوالے سے علیحدگی پسند اور مین اسٹریم حلقوں میں یکسان نوعیت کی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس طرح کم ا ز کم دونوں خیموں کے درمیان نظریاتی اختلافات سے بالا تر ہو کر ایک نکتہ ارتکاز کی گنجائش پیدا ہوگئ ہے، جہاں پر وہ آپس میں مل بیٹھ کر غور وفکرکا وسیع تر ماحول پید اکرسکتے ہیں۔ اگر اس طرز فکر کو تقویت بخشنے کی کوشش کی جائے تو یقینی طور رپ اس سے ایک مثبت اور حوصلہ افزاء فضاء جنم لے سکتی ہے، جو آنے والے ایام میں عوام کےلئے راحت رسانی کا سبب بن سکتی ہے،جسکے توسط سے کشمیر کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی خاطر مرکزی حکومت کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ ریاست کی خصوصی آئینی پوزیشن کےخلاف مخصوص میڈیائی حلقے اور دیگر ذرائع کے توسط سے ملکی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کےلئے جو مہم چلائی جارہی ہے، موجودہ اتحاد و فکر اُ س کا توڑ کرنے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ نیز اس مسئلہ پر جموں کے متعدد سیاسی و سول سوسائٹی حلقوں کی جانب سے فرقہ وارانہ بنیادوں سے بالا تر جو ردعمل ظاہر کیا گیا ہے وہ جموں اور کشمیر کےمختلف خطوں کے مابین سیاسی مقاصد کی غرض سے پیدا کئے جارہے فکری تضادات کا توڑ کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگر سیاسی قیادت سنجیدگی کے ساتھ اس سمت میں اپنی توجہ مرکوز کرنےکی کوشش کریگی تو یقینی طور پر ایک ایسا طرزفکر تشکیل پاسکتا ہے، جو ریاست کے سبھی خطوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش سبھی طبقوں کے فکر و خیال کی ترجمان کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔