وادی کے سیاسی حلقوں کی جانب سے دفعہ35-Aپر وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کےبیان کو ا س اُمید کے ساتھ سراہا جا رہا ہے کہ مرکز ی حکومت اُس وعدے کو اعتبار بخشے گی، جو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ اس دفعہ کے حوالے سے مرکزی حکومت کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائے گی جس سے ریاستی عوام کے جذبات مجروح ہوں۔ انہوں نے دلیل پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حکومت ہند نے نہ ہی اس دفعہ کے خلاف کوئی کاروائی شروع کی ہے اورنہ ہی عدلیہ سے رجوع کیا گیا ہے۔ فی الوقت دیکھا جائے تو وزیر داخلہ کا بیان صحیح ہے لیکن اس دفعہ، جو ریاست میں پشتنی باشندگی کے حقوق کو آئینی تحفظ فراہم کرتی ہے، کے خاتمہ کے لئے عدالت عظمیٰ میں کئی درخواستیں زیر سماعت ہیں جہاں اس کا دفاع کرنا ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کا بھی فرض بنتا ہے۔ مگر اب تک ایسا کچھ نظر نہیں آیا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نےتاحال اپنے مؤقف کی وضاحت میں جوابی بیان حلفی بھی دائر نہیں کیا، جس کی وجہ سے عوام کے اندر یہ تاثر مضبوط ہوا کہ مرکز حکومت کسی نہ کسی سطح پر اس مطالبے کے حق میں ہے۔ فی الاحقیقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد حلیف گروپوں نے مذکورہ دفعہ کےخلاف ایک زبردست مہم شروع کر رکھی ہے بلکہ بی جے پی کے کچھ قائدین نے کھلم کھلا اسکے خاتمہ کی وکالت کرنے میںبھی کوئی پس وپیش نہیں کیا۔ یہ حلقے ملک بھر میں یہ تاثر پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ دفعہ370اور دفعہ35-Aجیسی آئینی دفعات مسئلہ کشمیر کی اصل وجہ ہیں اور اگر انہیں ختم کیا جائے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائیگا۔ کیونکہ انکی دلیل کے مطابق ان حفاظتی دفعات کے خاتمہ سے چونکہ ریاست کے اندر پشتینی باشندگی کا بنیادی تصور ہی ڑھ جائیگا، جو مستقبل میں آبادیاتی تناسب کی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ چونکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریاست کے اندر رائے شماری کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا گیا ہے اور یہ بات بھارت نے بھی تسلیم کی ہے، لہٰذا آبادیاتی تناسب بگڑنے کی صورت میں نتائج وہی سامنے آسکتے ہیں، جسکی یہ حلقے توقع اور تمنا کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر ریاست کےا ند رمزاحمتی حلقہ بھی دفعہ35-Aکے خاتمہ کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے ، حالانکہ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس معاملے میں مزاحمتی قیادت پر یہ طعنہ بھی کسا تھا کہ انہیں اس مسئلے سے کیا لینا دینا ، مگر چونکہ دفعہ35-Aکے خاتمہ سے جہاں ریاستی عوام کے بنیا دی حقوق متاثر ہوسکتے ہیں، وہیں اس سے آبادیاتی تناسب بگڑنے کا بھی شدید خدشہ ہے۔حقیقت میں یہ دفعہ ہی اس غرض سے وجود میں آئی ہے کہ ڈوگرہ شاہی کے دور میں بنائے گئے پشتینی باشندگی کے اُس قانون ، جو بنیادی طور پر ان ہی خدشات کو مدنظر رکھ کر1927میں بنایاگیا تھا،کو تحفظ فراہم ہوسکے۔ کیونکہ اس دور میں ریاست کی افسر شاہی میںغیر ریاستی باشندوں، جن میں زیادہ تر ہمسایہ ریاست غیرمنقسم پنجاب سے تھے، کا غلبہ پید ا ہو رہا تھا۔ چنانچہ اسی رجحان پر قابو پانے کے لئے ڈوگرہ حکمرانوں نے پشتینی باشندگی کا قانون بنایا ۔چونکہ برصغیر کی تقسیم کے نتیجہ میں مغربی پنجاب، جو مملکت پاکستان کا حصہ بن گیا، سے بڑی تعداد میں مہاجرین منتقل ہو کر جموں میں آباد ہوئے ہیں، لہٰذا انکا ابتداء سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں ریاست میں مستقل باشندگی کے حقوق عطا کئے جائیںاور دائیں بازو کی جماعتیں اس حوالے سے کافی سرگرم رہی ہیں، جن میں بی جے پی کی پیش رو جماعت جن سنگھ پیش پیش رہی ہے۔گزشتہ سات دہائیوں کے دوران غیر ریاستی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جموں میں آباد ہوئی ہے اور اُ ن میں سے بیشتر بھاجپا کے حمایتی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ مرکزی حکومت پر ان حلقوں کی جانب سے دبائو ضرور ہوگا مگر دوسری طرف وہ ریاست کے اند ر حکمرانی کےلئے پی ڈی پی کے ساتھ ایجنڈا آف الائنس کے مفاہمت نام سے بندھے ہوئے ہیں لہٰذا وہ سرکاری سطح پہ لب کشائی سے احتراز کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے حالات میں اب جبکہ وزیر داخلہ نے یہ بات صاف کی ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ35-Aکے تعلق سے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جائیگا، جس سے ریاستی عوام کے جذبات مجروح ہوں، تو یہ اُمید پیدا ہو چکی ہے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت کے دوران دفعہ35-Aکا دفاع کرنےمیں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگی۔ پی ڈی پی کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کو اس عمل کے لئے تیار کرے، کیونکہ اس کے ساتھ انکی بقا بھی وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے مین اسٹریم سیاسی حلقوں کی جانب سے وزیر داخلہ کے اظہار کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور یہ اُمید کی جارہی ہے کہ یہ محض وقتی گزاری نہیں بلکہ نیک نیتی اور سنجیدگی پر مبنی سوچ ہوگی۔