آئین کی دفعہ35-Aکے ساتھ کسی امکانی دست اندازی کے معاملے پر مین اسٹریم سیاسی خیمے میں جو ہلچل نظر آرہی ہے، وہ اس امر کی غماز ہےکہ سیاسی صف بندیوںکے آر پار ان جماعت کے قائدین ریاست کی داخلی خودمختاری پر اس تازہ یورش کے مضمرات سے نہ صرف متفکر و پریشان ہیں بلکہ خوف زدہ بھی، کیونکہ اس آئینی دفعہ، جو ریاست کے پشتنی باشندگی کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے، کے خاتمہ سے غیر ریاستی باشندگان کی ریاست میں آباد کاری سے یہاں آبادیاتی تناسب ا س عنوان سے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے کہ شاید مستقبل میں یہاں کسی بشتنی باشندوں کے لئے پچھلی صرف میں کھڑا ہونے کی گنجائش بھی باقی نہ بچے۔ مذکورہ دفعہ دراصل اُن قوانین کو تحفظ فراہم کرنے کےلئے1954میں ایک صدارتی حکمنانے کے ذریعہ نافذ کی گئی تھی، جو ڈوگرہ شخصی دور میں 1927اور 1932میں اس پس منظر میں بنائے گئے تھے کہ جموںوکشمیر کے انتظامی معاملات میں غیر ریاستی ،خاص طو پر ہمسایہ پنجاب، جو اس وقت ایک بڑی اور قدرے آسودہ حال مملکت تھی، کے لوگوں کا عمل دخل قائم نہ ہو، کیونکہ اس زمانے میں مملکت پنجاب سے پڑھے لکھے لوگ جموںوکشمیر میں بڑے بڑے انتطامی عہدوں پر فائز تھے اور اس بات کے امکانات بڑھنے لگے تھے کہ بیرون ریاست کے لوگ جموںوکشمیر میں رہائش پذیر ہو کر مقامی باشندوں پر بالا دستی قائم نہ کر پائیں۔ چنانچہ الحاق ہند کے نتیجہ میں دفعہ370 کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ریاست کے پشتنی باشندگان کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے دفعہ35-Aمعرض وجود میں آئی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ دفعہ370کا وجود بذات خود الحاق سے منسلک ہے لہٰذا اس کے خاتمے سے بجائے خودالحاق پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے لہٰذا اُسے بہ یک قلم ختم کرنے کی بجائے اُن دفعات کو ختم یا کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہیں ، جو ا سکے مشمولات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں دائیں بازوں، جس میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی پیش رو جماعت جن سنگھ پیش پیش رہی ہے، نے پچاس کی دہائی میں ہی ان آئینی حفاظتی شقوں کے خلاف ملک گیر مہم شروع کرکے، اُس وقت کی مرکزی حکومتوں کو دبائو میں لاکر اس شاہراہ پہ پیش قدمی کی اور اولین فرصت میں غیر ریاستی باشندگان کےلئے جموںوکشمیر کے حدو د میں داخلہ کےلئے پرمٹ سسٹم کو ختم کروانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ چونکہ وقت کی ریاستی حکومت کو ان اقدامات کی مخالفت کرنے کی پاداش میں اس وقت برطرفی کا سامنا کرنا پڑا جب 9اگست1953کو شیخ محمد عبداللہ کو ریاست کی وزارت عظمیٰ سے برطرف کرکے رات کی تاریکی میں گرفتار کرکے گیارہ برس تک پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ان سارے عرصہ میںمرکزی حکومت کو مقامی سطح پر ایسے کارندے ملے جنہوں نے اس سیاسی یلغار کا حصہ بن کر ریاست میں ایک ایسے سیاسی مزاج کی پرداخت کی جس میںریاستی عوام کے مفاد کے مقابلے میں ذاتی مفاد اور اقتدار کو اہمیت حاصل رہی۔ یہ سلسلہ برسہابرس سے جاری ہے اور ایک تجزیہ کے مطابق کشمیر کو موجودہ حالت تک پہنچانے کےلئے ذمہ دار ہے۔ اب موجودہ حالات میںدفعہ35-Aکے خلاف شروع کی گئی یورش کے بارے میں ریاست کی سیاسی جماعتوں اور قائدین ،جو سابق قیادت کی دوسری تیسری پیڑھی سے تعلق رکھتے ہیں، کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہ نہ صرف دیکھنے کی چیز ہوگی بلکہ اس پر ریاست کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے غیر متوقع طور پر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ساتھ ملاقات کرکے اس حوالے سے ایک حوصلہ افزا ء پہل کی ہے، جس پرمؤخر الذکر نے بھی مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔ لیکن اس مرحلے پر عوامی حلقوں میں یہ اندیشےبھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ کہیں یہ سرگرمیاں اس دفعہ کے حوالے سے ایک دوسرے کی سیاسی پیش رفتوں کو قابو میں رکھنے کی کوششیں تو نہیں؟اگر ایسا ہے تو یہ ریاستی عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اس میں شک نہیںکہ کشمیر کی کلیدی مین اسٹریم سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی سیاسی جولانگاہیں ایک ہی ہیں اور اگر وہ اس نازک مرحلے پر ایک دوسرے کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بارے میں سوچنےکی کوشش کریں تو یقینی طو رپر کشمیر کی خصوصی پوزیشن سےخار کھائے بیٹھے حلقے نہ صرف اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائینگےبلکہ غالباً ان جماعتوں کے لئے بھی کوئی جگہ باقی نہیںبچے گی۔ لہٰذا وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اس معاملے پر برملا طور ایک مشترکہ مؤقف اختیار کرکے متعلقہ حلقوں کو صاف لفظوں میں پیغام پہنچائیں۔ صرف بیان بازیوں، ایک دوسرے کی کمزوریوں کو اُچھالنے اور ایک دوسرے کو اس صورتحال کےلئے ذمہ دار ٹھہرانے کے معاملات پر بحث و مباحثہ کا وقت نہیں ہے، بلکہ ایک دو ٹوک اور واضح حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے اور معاملے کو جی ایس ٹی کی طرح بیان بازیوں او رالزام تراشیوں کے گردوغبار سے پید ا ہونے والی دھند میں اُوجھل کر دیا جاتا ہے تو آنے والے نسلیں یقینی طور پر یہاں کی سیاسی قیادت کو کبھی معاف نہیں کرینگی۔