سرینگر//نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مرکزی سرکار کو انتباہ کیا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 35 اے کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ ریاست میں آگ کے شعلے بھڑکا دے گی۔انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے مرکزی سرکارکوخبردارکیاکہ ایساکوئی بھی قدم اُٹھایاگیاتوکشمیرمیں امرناتھ ایجی ٹیشن سے زیادہ بڑی بغاوت چھڑجائیگی ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈران کی باہمی مشاورت کے بعدہم نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ خصوصی پوزیشن کو بچانے کیلئے ہم سب مل کر مہم چلائیں گے اوراس مہم کیلئے یونائٹیڈفرنٹ یامتحدہ محاذکاقیام عمل میں لایاجائیگا۔کل جماعتی میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فارق نے کہا کہ دفعہ35Aکا تحفظ ہم اُس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک اُن کی جان میں جان ہے اور اس کیساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ ریاست میں آگ کے شعلے بھڑکا دے گی۔انہوں نے مرکز ی سرکار کو باخبر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 2008میں امرناتھ شرائن بورڈ کی زمین کی منتقلی کے بعدوادی میں برپا ہوئے حالات کو ذہن میں رکھ کر ریاست کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کیساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے گریز کرناچاہئے۔انہوں نے کہا کہ یہ تحریک ایسی ہو گی جو نئی دہلی کیلئے مشکل ہو گی ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کا ایجنڈا ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی دفعہ35Aکے بارے میں سٹینڈ لینا چاہئے اور لوگوں کو اس کے منفی اثرات کے بارے میں باخبر کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں دفعہ 35Aکے بارے میں غلط جانکاری پھیلائی گئی ہے اصل میں یہ قانون ریاستی قانون سازیہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ریاست میں مستقل طور پر سکونت کرنے والے لوگوں کے بارے میں کوئی فیصلہ لے سکے تو یہ ہمارے لئے ضروری بنتا ہے کہ ہم لوگوں کو سمجھائیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریاست کی مستقل باشندگی کا قانون ہے اور اسی لئے کسی بھی حال میں اس کے ساتھ کوئی چھیڑ نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس سلسلے میں متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ جموں کشمیر اور لداخ میں لوگوں کو آرٹیکل 35Aکو ہٹانے سے ہونے والے نقصان کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ35Aکے خاتمے سے ریاست کے تینوں خطوں جموں، کشمیر اور لداخ بری طرح متاثر ہونگے جو یہاں کے لوگ کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم دفعہ35Aکیخلاف ہورہی سازشوں کیخلاف لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کُل جماعتی میٹنگ بلانے کا مقصد یہی تھا کہ دفعہ35Aکیخلاف ہورہی سازشوں کا توڑ کیا جائے اور ریاست کے تینوں خطوں کے لوگوں کو اس دفعہ کی خصوصیات اور اس کے نہ رہنے سے پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں جانکاری مہم چلائی جائے۔ ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ سٹیٹ سبجیکٹ قانون ریاست کے تینوں خطوں کی پہچان اور انفرادیت بنائے رکھنے کیلئے قائم کیا گیا تھا اور دفعہ35Aکو ہٹانے کی صورت میں ریاست کے تینوں خطوں کی پہنچان ختم ہوجائے گی۔ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ ہم سب ،جو ریاست کی پہچان اور انفرادیت کے تئیں سنجیدہ ہیں اور ریاست کو اس درپیش اس چیلنج سے باہر نکالنا چاہتے ہیں، آج ملے اور فیصلہ لیا کہ ہم متحد ہوکر یونائیٹڈفرنٹ کے تحت ریاست کے تینوں خطوں کے لوگوں کو دفعہ35Aکے نہ رہنے کی صورت میں پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں جانکاری دیں گے۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ ہم نے جی ایس ٹی قانون کو ریاست میں لاگو کرنے اور جی ایس ٹی کے منفی اثرات کے بارے میں بھی لوگوں کو آگاہ کیا اُس کے باوجود بھی یہ قانون ریاستی سرکار پر تھونپا گیا اور جی ایس ٹی پر ہمارا احتجاج آج صحیح ثابت ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دفعہ35Aکے بارے میں ہم اُ س سے زیادہ زور دار طریقے سے مہم چلائیں گے، تاکہ لوگ باخبر ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی اس کیس کا بھر پور دفاع کرنے کے بارے میں بھی لائحہ عمل مرتب کیا جارہا ہے۔ اس دوران محمدیوسف تاریگامی نے ملکی سطح پرجموں وکشمیرکوحاصل خصوصی پوزیشن کے حق میں رائے عامہ منظم کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں ملکی عوام اورسیاسی لیڈروں کویہ بتاناہوگاکہ آرٹیکل 35کوختم کرنے کے کتنے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کا ایجنڈا ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی دفعہ35Aکے بارے میں سٹینڈ لینا چاہئے اور لوگوں کو اس کے منفی اثرات کے بارے میں باخبر کرنا چاہئے۔واضح رہے کہ سال 2014 میں ’We the Citizens‘ نامی ایک این جی او نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں دفعہ 35A کو چیلنج کیا گیا ۔ گذشتہ ہفتے پٹیشن پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عدالت میں دفعہ 35A کے موضوع کو حساس قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس پر وسیع بحث چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں حلف نامہ پیش نہیں کرنا چاہتے۔ قابل ذکر ہے کہ دفعہ 35 اے غیر ریاستی شہریوں کو جموں وکشمیر میں مستقل سکونت اختیار کرنے ، غیر منقولہ جائیداد خریدنے ، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے ، ووٹ ڈالنے کے حق اور دیگر سرکاری مراعات سے دور رکھتی ہے۔ دفعہ 35 اے دراصل دفعہ 370 کی ہی ایک ذیلی دفعہ ہے ۔ بتایا جارہا ہے کہ 1953 میں جموں وکشمیر کے اُس وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا، جس کی رْو سے بھارتی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔ 10 اکتوبر 2015 کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میںدفعہ 370 کو ناقابل تنسیخ و ترمیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ دفعہ (35 اے ) جموں وکشمیر کے موجودہ قوانین کو تحفظ فراہم کرتی ہے‘۔