جموں//جموں کے متعدد نامور وکلاء نے آئین ہند کی دفعہ 35Aکو برقرار رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ “Different Facets of Article 35-A”کے عنوان سے گزشتہ روز ہائی کورٹ بار روم میں منعقدہ ایک مباحثہ میں متعدد وکلاء نے ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کھلواڑ کی کوششوں کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایسی کسی بھی کوشش کا سب سے زیادہ نقصان جموں کو ہوگا۔ جموں بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر اے وی گپتا نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے آرٹیکل 35Aکی تاریخ پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے یاد دلایا کہ اس کے نفاذ کے لئے مہاراجہ کے دور میں جموں کے لوگوں نے جدو جہد کی تھی جس کی قیادت اس وقت کے نامور لیڈروں کامریڈ دھنونتری اور لالہ روپ چند نندہ نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی باشندوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے جموں میں مسلسل 7دن بند رکھا گیا تھا اور اسی تحریک کے نتیجہ میں جموں کشمیر کا آئین مجریہ 1996بکرمی کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور اسی آئین میں ’سٹیٹ سبجیکٹ ‘ قانون متعارف کروایا گیا جس کے مطابق غیر ریاستی باشندوں کے جموں کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ گپتا نے کہا کہ دفعہ 35Aکی مخالفت کرنے والے عناصر کسی بھی صورت میں ریاست ، بالخصوص جموں خطہ کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ ریاستی باشندوں کو ملنے والی یہ آئینی ضمانت جموں کے لوگوں نے ایک طویل جد وجہد کے بعد حاصل کی تھی۔ اس سے قبل شیخ شکیل احمد نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اس مباحثہ کے عنوان کا مختصر تعارف کروایا۔ سابق سینئر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ایس سی گپتا نے دفعہ 35A کو برقرار رکھے جانے کی بھر پور وکالت کرتے ہوئے اسے ہندوستانی پارلیمان میں مزید مضبوط بنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایس سی گپتا نے متنبہ کیا کہ اس دفعہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے آئینِ ہند کی دفعہ 370پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جس کی روٗ سے جموں کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ چند حقیر مفادات رکھنے والے افراد کی جانب سے آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کا واہ ویلا مچاکر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے ، ایسے میں وکلاء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالہ سے عام لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں اور انہیں آرٹیکل 35A کی تنسیخ کے مطالبہ کے سیاسی محرکات کے بارے میں بتائیں ۔ سابق ایم ایل سی ایڈوکیٹ ایم آر قریشی نے اے وی گپتا اور ایس سی گپتا کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے ملک کے ساتھ الحاق کے موقعہ پر ریاستی عوام سے کچھ عہد و پیماں کئے گئے تھے لیکن اب انہیں توڑے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایڈوکیٹ قریشی نے یاد دلایا کہ اگر اس دفعہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے تو سب سے زیادہ جموں ہی متاثر ہوگا کیوںکہ ملک کے لوگ دیگر خطوں کی نسبت جموں کو ہی ترجیح دیں گے۔ اور 35Aکو منسوخ کرنے کی کوششوں سے امن و قانون کی صورتحال بگڑ جائے گی۔سابق اسسٹنٹ سالسٹر جنرل آف انڈیا کے کے پنگوترہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست کے خرمن امن کو آگ لگانے کے لئے غیر متعلقہ معاملات کو اچھالا جا رہا ہے ، انہوں نے دفعہ 35A کے تحفظ کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ۔ ایڈوکیٹ پون کنڈل کا کہنا تھا کہ دفعہ 35Aہی دفعہ 370کی روح ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کی جانی چاہئے ۔ اسی قسم کے خیالا ت کا اظہار کرتے ہوئے ایڈوکیٹ اے ایم ملک نے ریاست کے خصوصی درجہ کو مزید مستحکم کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آخر میں وکلاء کے اس گروپ نے ریاست بھر میں ایک بیداری مہم چلانے کا فیصلہ کیا جس میں وکلاء کے علاوہ سماج کے تمام مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کو بھی شامل کیا جائے گا تا کہ لوگوں کو اس دفعہ کی حقیقت کے علاوہ اس کی تنسیخ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہ کیا جاسکے۔ آخر میں سینئر ایڈوکیٹ سپریہ چوہان نے اس دفعہ کو متعارف کروانے کے لئے کی گئی جد وجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اگر خدا نخواستہ اس دفعہ کو ہٹا دیا جاتا ہے تو ریاستی باشندگان کو ملنے والی مراعات ختم ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر ہندوستان کی ایک منفرد ریاست ہے اور دفعہ 370کے سپرٹ کا احترام کیا جانا چاہئے کیوںکہ ریاستی عوام نے پاکستان کے آئیڈیا کو ٹھکرا کر سیکولر ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اور اگر اس دفعہ کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے تو یہ لوگوں کے جذبات اور آئین کی توہین ہوگی ۔