جموں//آئین ہند میں دفعہ 35Aکے تحت سٹیٹ سبجیکٹ قوانین کو کو ڈوگروں اور ڈوگرہ پردیش کے بقاءکی ضمانت قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے اتوا کو کہا کہ اس دفعہ کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا جموں کے عوام بلا لحاظ مذہب و ملت اور سیاسی وابستگیوں کے ،پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کریں گے ۔ اخباری نمائندوں کو خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے صوبائی صدر دیویندر رانا نے کہا کہ ”ڈوگرہ قوم اپنی اس حیثیت کو بنائے رکھنے کے لئے بھر پور مدافعت کرے گی اور اگر ا س سلسلہ میںکچھ کئے جانے کی ضرورت ہے تو وہ ان جعلی سٹیٹ سبجیکٹ رکھنے والوں کی شناخت کیا جانا ہے جو غیور ڈوگروں کے حقوق پر شب خون مارتے رہے ہیں اوراب بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کر کے اس اہم دفعہ کو تحلیل کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ بی جے پی پر مہاراجہ ہر ی سنگھ کی دور اندیشانہ پالیسیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہاراجہ نے 1927میں یہ قانون بالخصوص ڈوگرہ قوم کے مفادات کے تحفظ کے لئے متعارف کروایا تھا تا کہ بیرون ریاست کے سرمایہ دار یہاں آکر ڈوگروں کی ثقافت، تجارت اور وراثت کو برباد نہ کر دیں۔ رانا نے کہا کہ یہ مہاراجہ کی دور اندیشی ہی تھی جس کی بدولت ڈوگروں کا تشخص وراثت اور معاشی مفادات محفوظ رہ سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 35Aکے تحفظ کی آج جتنی اہمیت ہے اتنی پچھلے 90برس میں کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی کیوں کہ جموں کے نام نہاد ٹھیکیدار اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے جموں کے لوگوں کے مفادات کو سوداکرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کی طرف سے اس دفعہ کے تحفظ کےلئے آواز اٹھانے والوں کو اینٹی نیشنل قرار دیئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے رانا نے کہا کہ یہ نام نہاد قوم پرست ڈوگر دیش کے مخالف ہیں جو بہادروں کی سرزمین ہے جنہوں نے ملک کی آزادی اور یکجہتی کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں، ان بہادروں کے مفادات کی نگہبانی کےلئے آواز بلند کرنے والے اگر اینٹی نیشنل ہیں تو پھر قوم پرست کون ہو سکتا ہے ۔ این سی لیڈر نے بی جے پی کو چیلنج کیا کہ وہ بتائیں کہ کسی بھی طور پر دفعہ 35Aکی منسوخی جموں کے لئے فائدہ مندثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس دفعہ کو ہٹانے کا سب سے زیادہ نقصان ہی جموں صوبہ کو ہوگا۔ تجارت ہو یا روزگار ہر چیز پر بیرونی ریاستوں سے آئے لوگ قابض ہو جائیں گے، یہاں کا تشخص، شناخت ،ثقافت، بولی، رسم و رواج ختم ہو کر رہ جائیں گے اور اس کا خمیازہ جموں کے مہاجنوں، براہمنوں، راجپوتوں، کھتریوں، شیڈیولڈ کاسٹ، ڈوگرہ مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوں کو بھگتنا ہوگا جو دو سرے درجہ کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ اس سوال کے جواب میں دیویندر رانا نے کہا کہ بی جے پی لیڈر روہنگیائی مہاجرین کا مدعا زور وشور سے اٹھا رہے ہیں جب کہ یہی جماعت مرکز اور ریاست میں بر سر اقتدار ہے لیکن وہ حساس معاملات پر عملاً چپی سادھے ہوئے ہیں، صرف بیان بازیاں کر کے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرکز یا ریاستی سرکار کو روہنگیائی مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے کون روک رہا ہے ؟بلکہ انہیں مرکزی حکومت نے ہی بسایا ہے ۔ روہنگیا معاملہ کو دبانے کے لئے دفعہ 35Aکو اچھالنے کا الزام لگاتے ہوئے این سی لیڈر نے کہا کہ بی جے پی کو اس معاملہ پر جموں کے لوگوں کے شدید رد عمل نے بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے ۔