ریاست جموں کشمیر کے آئینی تشخص کو نیست ونابود کرنے کے لئے بہت ساری فرقہ پرست تنظیمیںاور بہت سارے کشمیر مخالف قوتیں یکجا ہوکر کام کر رہی ہیں ۔ ان میں سرفہرست بی جے پی ہے جس کا نظریہ کشمیر کے حوالے سے شیاما پرساد مکھرجی کا نعرہ’’ ایک پردھان ایک نشان ایک ودھان ‘‘ہے۔ لگتا ہے کہ موجودہ ہندوستانی حکومت جس کی پشت پناہی کٹر فرقہ پرست آرایس ایس کر تی ہے، ۳۷۰؍ کو کالعدم قرار دینے کے لئے وجود میں آئی ہے ۔اسی کی کسی ذیلی تنظیم نے د فعہ ۳۵؍ اے کے خلاف سپریم کورٹ میں دفعہ ( ۳۵اے)کی جوازیت کو چیلنج کیا ہے ۔ ا س نے یہ اعتراض جتلایا ہے کہ یہ دفعہ آئین ہند کے دفعہ ۳۷۰ ؍کی شق (۱)کے تحت ایک صدارتی حکم نامہ کے ذریعے ۱۴؍اگست ۱۹۵۴ء میں نافذ العمل ہوا اورا س کو کالعدم قرار دینے سے ملکی باشندوں کو جموں کشمیر میں بھی ملک کی باقی ماندہ ریاستوں کی طرح تمام حقو ق مساویانہ طور دئے جائیں۔ اس دفعہ کی منسوخی کے لئے دوڑ دھوپ اس وجہ سے کی جارہی ہے تاکہ ریاست کی اکثریتی مسلم آبادی کا تناسب اتناکم کیا جاسکے کہ وطن ان کے لئے فلسطین جیسابن جائے اور اقوام متحدہ کی کشمیر قراردادوں کو کمزور کیا جائے ۔دوسرے لفظوں میں اصل سوچ اور مقصد دفعہ ۳۵اے کی منسوخی سے ریاست کے پشتینی باشندوں کے اختیارات ختم کر نا ہے تاکہ وہ سٹیٹ سبجکٹ کے جملہ مراعات سے یکسرمحروم ہوں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے خدا نخواستہ اس دفعہ کو کالعدم قرار دینے کی صورت میںغیر ریاستیوں کے لیے کشمیر کے دروازے کھل جائیں گے ، وہ یہاں کی زمینوں ، ملازمتوں اور اسکالرشپوں پر قابض ہوں گے ۔ یہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کو روکنے میں حکمران پارٹی کی خاموشی یا عدم دلچسپی کشمیر دشمنوں کے لئے راستے ہموار کر رہی ہے ۔ دراصل زیر بحث دفعہ کو ختم کرنا ریاستی مسلمانوںکوذبح کر نے کے مترادف ہے ، یہ تاریخ سے بغاوت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر نے کے برابر ہو گا جن میں رائے شماری کاوعدہ دیاگیا ہے۔اس دفعہ کے خاتمے سے ا یک جانب یہاں ظلم وبربریت کا بازار گرم ہوگا ، ودسری جانب غیر ریاستی لوگوں کو یہاں نوکریاں حاصل کر نے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل ہو گا ۔ واضح رہے کہ آئین ہند کے کے مطابق جموں کشمیر بھارت میں ضم نہیں ہوا ہے بلکہ آئین کی رُو سے جموں کشمیر نے ہندوفاق کے ساتھ محدوومشروط الحاق کیا ہے ۔ ان حقائق کے باوجود بی جے پی کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کے لئے دفعہ ۳۵؍ اے کو عدالت کے ذریعے’’ اجتماعی ضمیر کی تسکین ‘‘کے نام پر ہٹوا نا چاہتی ہے ۔ جموںکشمیر کے خلاف زعفرانی بمباری کر نے کے باوجود پی ڈی پی کی خاموشی بھاجپا کی اعلانیہ تائیددکھائی دے رہی ہے ۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جموں کی ہندوآبادی جو بلا سوچے سمجھے دفعہ ۳۷۰؍ کی مخالف ہے ،یہ نہیں جانتی کہ ڈگر دھرتی اور ڈوگرہ نسل اس دفعہ کی منسوخی کے بعد کہیں بھی نظر نہیں آئے گی بلکہ یہاں گجراتی ، مراٹھی ، بنگالی ، بہاری ، مراٹھی نسلیں آباد ہو ں گی۔ اغیار کو صرف اس دن کا انتظار ہے جب دفعہ ۳۷۰؍ منسوخ ہو، اگلے ہی دن غیر ریاستی باشندے جموں کے زمیندار اور ٹھیکیدار کہلائیں گے اور پھر پلک جھپکتے ہی جموں میدانی کے لوگوں کے سروں پر سے سوار بھوت اُتر جائے گا اور ان کی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے تعلق سے جموں کی اصل صورت حال کچھ اور ہے، صرف جموں میدانی کے چند اضلاع کو چھوڑ کر یہاں کا بڑاخطہ اور آبادی کا اکثریتی حصہ کسی بھی حال میں۳۷۰ یا ۳۵ ؍اے کی مجوزہ منسوخی کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ انہیں یہ کبھی برداشت نہیں ہو گا کہ ان کی زمینیں اور یہاں کی گوجر اورپہاڑی آبادیاں ہوا میں تحلیل ہوکر ان کا نام نشان صرف تاریخ کے گم گشتہ اوراق میںباقی رہے ۔
جموںکشمیر کا تابع رائے شماری ا لحاق ہندوستان کے ساتھ تین امور دفاع، مواصلات، کرنسی پر ہو اتھا ۔ ہمارا اپنا وزیر اعظم ، اپنا صدر ریاست،ا پنا آئین ، اپنا ریاستی پرچم تھا مگر دلی نے اپنے وظیفہ خوروں کو کرسی کے لالچ میں یہ سب کچھ بدلوادینے کا انتظام فراڈ اور مکر و فریب سے کیا۔ریاستی عوام کی بہتری اور ریاست کے تشخص کی برقراری کے لئے یہ آئینی ضمانت بھی دی گئی تھی کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں جو کوئی نیا قانون وجودمیں لایا جائے ،وہ ریاست میں اس وقت تک لاگو نہیں کیا جائے گا جب تک ریاستی اسمبلی اسے لاگو کر نے کی اتفاق رائے سے ہاں نہیں کہتی اور اگر وہ کسی پارلیمانی قانون کو ناں کہتی ہے تو اس کا اطلاق ریاست پر ہوگا ہی نہیں۔ اس آئینی بندش کو بھی بالائے طاق رکھا گیا ۔ جموںکشمیر کا کوئی بھی باشندہ ہندوستان کی کسی بھی ریاست یا نشست سے کوئی بھی انتخابات لڑ کر ممبر پارلیمنٹ بن سکتا ہے لیکن بیرون ریاست کوئی بھی شخص ریاست کی سر براہی تو دور ایک ممبر پنچایت کے طور اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل نہیں کروا سکتا ہے کیونکہ کسی غیر ریاستی شہری کو یہ حق یا اختیار حاصل نہیں کہ وہ جموں کشمیر میں کسی بھی سیاسی عہدہ پر فائز ہو سکے ۔ بیرون ریاست کا کوئی بھی شخص ریاست کے اندر ایک انچ زمین خرید نہیں سکتا ہے اور نہ ہی زمین کا کوئی ٹکڑا اپنے نام کر کے مالکانہ حقوق حاصل کر سکتا ہے۔ کشمیر کی ملکیت صرف کشمیریوں کو ہی ہے، اس کے اصلی مالک کشمیری عوام ہے ،لیکن الحاق کے چند ہی سال میں ملک کی سیاسی قیادت کو یہ بات کھٹکنے لگی اور وہ ریاست کی خصوسی پوزیشن کے درپیٔ آزار ہوگئے ۔اب آج کھلم کھلا ریاست کے آئینی انفرادیت کے خلاف تلوار اور ترشول میدان میں اُتارے گئے ہیں ۔
[email protected] 9419170548