نئی دہلی// دفعہ 370،جس کی رو سے ریاست جموں کشمیر کوآئین ہند میں خصوصی درجہ دیاگیا ہے اور ریاست جموں کشمیر سے متعلق قوانین وضع کرنے سے متعلق پارلیمنٹ کے اختیارات کومحدود کردیاگیا ہے،کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کرکے چیلنج کیا گیا ہے۔عرضی میں بتایا گیا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کودیاگیا خصوصی درجہ آئین ہند کو ترتیب دینے کے وقت عارضی تھا اور دفعہ370(3)،26جنوری 1957کوجموں کشمیرکی آئین ساز اسمبلی کے تحلیل کے ساتھ ہی ختم ہوا۔ بی جے پی رہنمااور وکیل اشونی کمار اپادھیے کی طرف سے دائر کی گئی اس عرضی میں اس بات کی درخواست کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ جموں کشمیرکے الگ آئین کو ’بھارتی آئین کی برتری ‘ اور’ایک ملک ‘،’ایک آئین ‘،’ایک قومی ترانہ‘ اور ’ایک پرچم‘کے برعکس ہونے کی بناپر ’غیر آئینی ‘ اور’بے قاعدہ‘ قراردے ۔اگلے ہفتے شنوائی کیلئے ممکنہ طور اُٹھائی جانے والی اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر کا آئین ناقص ہے کیونکہ اسے بھارت کے صدر کی منظوری ابھی نہیں ملی ہے جو بھارتی آئین کے ضوابط کے مطابق لازمی ہے۔ایڈوکیٹ اپادھئے کے ذریعے دائرکی گئی اس عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دفعہ 370کی زیادہ سے زیادہ معیادجموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے وجود تک تھی،جو26جنوری1950 ہے جب قومی دستاویزکواپنایا گیا۔ عرضی میں بتایا گیا ہے کہ دفعہ370جموں کشمیر سے متعلق ایک’’عارضی بندوبست‘‘ ہے اور یہ جموں کشمیر سے متعلق قوانین وضع کرنے سے پارلیمنٹ کے اختیارات کو محدود کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ریاست اپنے باشندوں کوخاص حقوق اور مراعات دیتی ہے۔عرضی میںکہا گیا ہے کہ یہ دفعہ ریاستی قانون سازیہ کو قوانین وضع کرنے کی چھوٹ دیتا ہے اور آئین ہند کی رو سے جو دوسری ریاستوں کے لوگوں کی برابری کے حقوق کے منافی یا آئین ہند کے تحت کسی اور حق کے برعکس ہو۔