آئین ہند کی دفعہ 35-اے کو ہٹانے سے جن خطرات کا سامنا ریاست جموں و کشمیر اور پورے ملک کو کرنا پڑے گا ،اُس پر بحث کرنے سے پہلے ہمیں اُن تاریخی واقعات اور حقائق پر بغور نظر ڈالنی ہے جن کے پس منظر میں یہ دفعہ بھارتی آئین میں درج ہوا ۔ یہ بات کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ہند یونینکے ساتھ جموں و کشمیر کا الحاق 1947 میں دُوسری ریاستوں کے مقابلے میں مخصوص حالات اور شرائط کے تحت ہوا۔ ریاست کے حکمران مہاراجہ ہر ی سنگھ نے 27 اکتوبر 1947 کو جب گورنر جنرل لارڑ ماونٹ بیٹن کی وساطت سے ہند یونین کے ساتھ الحاق کیا جس کے تحت مرکز کا ریاست میںدفاع، خارجی امور اور رسل و رسائل (Defence, External Affairs and Communication)پر اختیار تھا۔ ان تین موضوعات کو چھوڑ کر ریاست کے باقی تمام معاملات پر ریاست کے حکمرانوں کا اقتدار قائم رہا۔ اس کی گارنٹی دستاویز الحاق کے پیرا گراف نمبر8 میں تفصیل سے دی گئی ہے۔ دستاویز الحاق کی شقیں اور شرائط بھارت کی نو منتخب آئین ساز اسمبلی نے منظور کیں اور دفعہ 370 کے تحت بھارتی آئین میں درج کیں۔ اس پس منظر میں جب 26 جنوری 1950کو بھارتی آئین ملک پر لاگو ہوا تو ریاست پر اس آئین کی صرف دو دفعات یعنی دفعہ نمبر ۱ یک اور دفعہ نمبر 370 لاگو ہوئے ۔ تاہم بھارت کے صدر کو یہ اختیار حاصل رہا کہ وہ بھارتی آئین کی کچھ دفعات ریاست کی سرکار سے رضامندی حاصل کرکے ریاست پر لاگو کر سکتا ہے۔
بھارت کا آئین 1950میں لاگو ہوا جب کہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے ابھی آئین کو حتمی شکل نہیں دی تھی۔ اس وجہ سے مرکز اور ریاست کو مابین تعلقات کی نشاندہی اور وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ اس معاملے کو سُلجھانے کے لئے ریاست اور مرکز کے درمیان 1952 میں دہلی معاہدہ (Delhi Agreement) طے پایا اور اس معاہدہ کی رُو سے اس بات اتفاق ہوا کہ ریاست جموں و کشمیر میں آزادی سے پہلے مہاراجہ پرتاپ سنگھ اور مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 اور1932 میں ریاست کے پُشتنی باشندوں کو جو حقوق اور مراعات (State Subject Law) کے تحت دئے تھے ،اُن کو جاری رکھا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر اسٹیٹ سبجیکٹ قانون اس امر کے باوجود اپنی جگہ قائم رہے گاکہ بھارتی آئین کی کچھ دفعات جیسے دفعہ نمبر 14، 16 اور19 اس قانون سے متصادم ہیں۔ 1952 کا دہلی معاہدہ جس میں اور باتوں کے علاوہ State Subject قانون کو اپنی جگہ برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا ،جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی میں زیر بحث آیا اور اسمبلی نے اس کو منظور بھی کیا۔ اگست 1952میں اس معاہدہ کو راجیہ سبھا نے بھی اپنی منظوری دی۔ تاہم State Subject قانون کو مزید مستحکم کرنے کے لئے اور اس کے آئینی جواز کو تحفظ دینے کے لئے بھارت کے صدر نے 14 مئی 1954کو ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا جس میں اور باتوں کے علاوہ بھارتی آئین میں دفعہ نمبر 35-A کو داخل کیا گیا یا جوڑ ا گیا۔ اس دفعہ کا مقصد 1952کے دہلی معاہدہ کو آئینی جوازیت دے کر لاگو کرنا تھا۔ بنیادی طور پر یہ دفعہ 370 کی ہی توسیع ہے ۔ آئین میں 35 – Aکا درج ہونا ایک مربوط عمل کا نتیجہ ہے نہ کہ ایک ایسے الگ تھلگ قانون کا اطلاق جس پر کافی دیر تک اور سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا ہو۔ اس دفعہ کے طریقہ کارمیںبھارتی آئین کے ساتھ جوڑنے کے لئے لازمی اور مکمل کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے ایک دم غلط ہے کہ آئین میں ایک نئی شق کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر جوڑا گیا ہے۔ (جیسا کہ اس عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے جو RSS کے کہنے پر دلی کی ایک NGO نے سپریم کورٹ میں دائر کی ہے) ۔دفعہ 35- Aایک ایسی ذیلی شق ہے جو اُن قوانین کو تحفظ فراہم کرتی ہے جو پہلے سے موجود ہیں ۔ یادرہے کہ یہ قوانین ریاست کے اُس وقت کے State Subjectاور آج کے مستقل باشندوں کو کچھ خصوصی رعائتیں اور حقوق عطا کرتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت صرف ریاست کے مستقل باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد، زمین اور مکان وغیرہ خرید سکتے ہیں۔ ریاست کے اندر مستقل طور پر رہائش اختیار کر سکتے ہیں، ریاستی سرکار کی ملازمت حاصل کرسکتے ہیں اور وظائف نیز دیگر سرکاری امداد یا معاونت کے بھی حق دار ہوسکتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس دفعہ کی رُو سے غیر ریاستی باشندے جموں و کشمیر میں نہ تو مستقل طور رہائش پذیر ہو سکتے ہیں نہ ہی یہاں کی سرکار میں ملازمت کے دعویدار ہو سکتے ہیں ۔ یہ اس بات کے باوجود کہ بھارتی آئین کی کئی دفعات جو بنیادی حقوق سے تعلق رکھتی ہیں ،بھارتی شہریوں کے ملک کے کسی بھی حصے میں زمین خرید کر رہائش اختیار کرنے کی اجازت دیتی ہیں اور وہ نوکری کے لئے بھی درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ دفعہ اس لئے وجود میں آیا تاکہ ریاست کی منفرد شناخت کو قائم رکھا جائے اور بھارتی آئین کے اندر جموں و کشمیر کو جو خصوصی پوزیشن حاصل ہے اور جو مرکز اور ریاست کے درمیان مذاکرات کے بعد ریاست کو مل گئی ہے وہ کسی قانونی اور آئینی دخل اندازی کے بغیر قائم و دائم رہے۔
یہ دلیل بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ دفعہ 35-A کی قانونی جوازیت نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے بتا یا گیا اس دفعہ کو ریاستی قانون ساز اسمبلی اور راجیہ سبھا کی منظوری حاصل ہے اور راشٹر پتی نے اس کو دفعہ 370 کے تحت لاگو کیا ہے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئین میں ترمیم صرف دفعہ 368کے تحت ہی ہوسکتی ہے، وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر پر368کا اطلاق ہی نہیں ہے۔
35-A دراصل اُس معاہدے کا نتیجہ ہے جو مرکز اور ریاستی سرکار کے نمائندوں کے درمیان ریاست اور مرکز کے مابین تعلقات کو آئینی اور قانونی شکل دینے کے لئے طے پایا تھا۔ State Subjdect قانون جس کی شروعات 1927میں ہوئی 1932 میں موجودہ شکل اختیار کرکے لاگو ہوا۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ قانون جموں خطے کے پڑھے لکھے ڈوگرہ باشندوں اور کشمیری پنڈتوں کی طرف سے ایک پُر زور تحریک چلانے کے بعد وضع کیا گیا ۔ تحریک چلانے والوں کو شکایت تھی کہ ریاستی سرکار میں جو ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں اُن پر پنجاب ، یو پی اور دیگر ریاستوں کے خواندہ لوگ قبضہ کرتے ہیں۔ ملک کی تقسیم کے فوراً بعد اور جموں و کشمیر کے الحاق ہند کے ساتھ ہی تنگ نظر فرقہ پرستوں اور اکثریتی فرقے کی چودہراہٹ میں یقین رکھنے والے عناصر اس بات کو سرے سے ہی ہضم نہ کر سکے کہ جموں و کشمیر کو اندرونی خودمختاری ملے اور ہند یونین کے اندر اس کی ایک مخصوص پوزیشن ہو۔ چنانچہ ان عناصر نے خصوصی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لئے یا اسے سرے سے ہٹانے کے لئے جموں خطے میں ایک پُر زور شورش برپا کی۔1950 کے اواخر سے ہی آر ایس ایس اور اُس کے زیر اثر کئی سرگرم پارٹیوں اور گروپوں نے جموں پرجا پریشد کے پرچم تلے ایک ایجی ٹیشن شروع کی جو کافی زور پکڑ گئی ۔ آر ایس ایس، بھارتیہ جن سنگھ ، ہندو مہا سبھا اور وشو ہندو پریشد نے ایک ودھان ، ایک پردھان اور ایک نشان کا نعرہ لگایا۔ اس ایجی ٹیشن کی رہنمائی اور سرپرستی انتہا پسند ہندو قوم پرست سیاسی لیڈر شاما پرساد مکھرجی کر رہے تھے۔ اگر چہ اُس وقت ریاست کی خصوصی پوزیشن ایک دم ختم نہ کی جاسکی تاہم اس کو کمزور کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگست 1953 میں شیخ عبداللہ کی نمائندہ سرکار کو ہٹاکر کٹھ پُتلی حکمرانوں کے ذریعے 1975 تک دفعہ 370کو استعمال کرکے ریاست پر کئی سارے مرکزی قوانین لاگو کئے گئے اور آج یہ حال ہے کہ اندرونی خود مختاری اور خصوصی پوزیشن محض ایک ڈھا نچہ بن کر رہ گئی ہیں ۔ یہ سلسلہ تو جاری تھا ہی کہ مرکز میں آر ایس ایس ، بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد RSSنے اپنا ایجنڈہ عملانے کا کام شروع کیا۔ یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ اس نے اپنی ہی طرف سے تشکیل دی گئی دلّی کی ایک NGO (We the Citizens)کے ذریعے سپریم کورٹ میں دفعہ 35-Aکو غیر آئینی قرار دینے کی عرضی داخل کی۔ یہ عرضی 2014 میں داخل کی گئی اور اس میں قانونی اور آئینی نُکتوں سے زیادہ سیاسی نکات اُبھارے گئے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ نے بہت پہلے زیر بحث لائے ہیںاور اُن کے بارے میں فیصلہ بھی سنایا ہے۔ اس سلسلے میں دو معاملات کا نام لینا کافی ہوگا ۔ پہلا معاملہ پورن لال مکھن پال بہ مقابلہ راشڑپتی (SCR 688(1) (1962)اور دوسرا معاملہ سمیت پرکاش بہ مقابلہ ریاست جموں و کشمیر (AJR 1970 SC 1119)سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور سپریم کورٹ نے ان معاملات کو خارج کردیا۔معروف قانون دان اور کالم نگار اے جی نورانی جو جموں و کشمیر کے آئین سے متعلق تاریخ کی ایک کتاب بھی لکھ چُکے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ دفعہ عدالت کے سامنے لایا ہی نہیں جاسکتا اور نہ اس کو ہٹایا جاسکتا ہے،کیونکہ اس طرح کی ترامیم دفعہ371-A) (کے تحت اُس وقت کی گئی ہیں جب مرکز نے ناگالینڈ ، میزورم ، آسام، منی پور، سکم، اورناچل پردیش اور گوا کو کچھ خصوصی رعائتیں دیں۔ اگر چہ یہ بات صحیح ہے کہ اس قسم کی ترامیم عام طور پر دفعہ368 کے تحت کی جاتی ہیں اور ان کی منظوری پارلیمنٹ دیتی ہے جبکہ 35-A آئین میں دفعہ 370 کے تحت درج کی گئی لیکن ایسا اس لئے کیا گیا کیونکہ اُ س وقت جموں و کشمیر پر دفعہ 368لاگو ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اپنی جگہ پر باوزن ہے کہ دفعہ 370 بھی آئین ہند کا ہی ایک اہم حصہ ہے اور دفعہ 35-A اسی دفعہ سے ماخوذ ہے ۔اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے آئین نے جو 1965 میں لاگو ہوا اس دفعہ پر اپنی مہر ثبت کی ہے۔ 35-A کو چلینج کرنے والے یہ بات جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ1954 میں جب راشٹر پتی نے اپنے خصوصی حکم نامے کے ذریعے 35-A کو آئین ہند میں شامل کیا تو اُس وقت جموں و کشمیر پر دفعہ ایک اور دفعہ 370ہی لاگو تھے ۔ اس بات کا اظہار اس موقع پر غیر واجب نہیں ہو گا کہ اگر کشمیر کے باشندوں کو یہ پتہ دیتا کہ چند ایک دہائیاں گزارنے کے بعد متعصب فرقہ پرست اور تنگ نظر عناصر 35-A کی اُس نوٹیفکیشن کو بھی عدالت میں لیں گے اور اُسے بھی آئین سے حذف کرنے پر زور دیں گے جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن اور یہاں کے پُشتنی باشندوں کو اسیِ خصوصی پوزیشن کے تحت چند ایک مراعات حاصل ہیں تو کشمیریوں نے ہند یونین کے ساتھ الحاق کیا ہی نہیں ہوتا ۔اگر اس دفعہ کو ہٹایا دیا جاتا ہے تو ریاست کا یونین کے ساتھ جو الحاق ہے اُس پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ راشٹر پتی نے صرف 35-Aکو ہی اپنے حکم نامے سے جموں و کشمیر پر لاگو نہیں کیا ہے بلکہ 1954 سے لے کر آج تک آئین ہند کے درجنوں قوانین اور دفعات جموں و کشمیر پر نافذ کی گئی ہیں ، ان میں سے کچھ اضافہ کے طور پر لاگو کی گئیں ، کچھ ترمیم کرکے اور کچھ پہلے سے لاگو کسی دفعہ کو ہٹا کر۔ اگر راشٹر پتی کے اس اختیار کو کہ وہ آئین ہند میں دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی دفعہ یا قانون کی ترمیم نہیں کرسکتے یا آئین ہند میں کوئی نئی دفعہ شامل نہیں کر سکتے یا پہلے سے لاگو کسی دفعہ کو بدل نہیں سکتے تو اس کا راست نتیجہ یہ نکلے گا کہ 1954سے لے کر آج تک مختلف صدارتی فرمانوں کے ذریعے 370کے تحت جو مرکزی قوانین ریاست پر لاگو کئے گئے ہیں وہ سب غیر قانونی اور غیر آئینی ہیںاوراگر اب 35-Aکے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تونہ صرف رشتہ شدید طور متاثر ہوگا بلکہ معاملہ 28اکتوبر 1947 کی پوزیشن پر آئے گا۔ اس کے علاوہ ریاست میں اس وقت جو سیاسی بے چینی ، غیر یقینی صورت حال اور بدامنی کا ماحول ہے وہ مزید پیچیدہ ہوگا۔ ساتھ ہی دفعہ 35-A کی غیر موجودگی میں دفعہ 370 ایک لاش بن کر رہے گا اور اس کی کوئی افادیت نہیں رہے گی۔ ریاست میں غیر ریاستی باشندوں کو زمین خریدنے ، مستقل طور پر رہائش اختیا ر کرنے اور سرکاری نوکریا ں حاصل کرنے کا قانونی حق بھی حاصل ہوگا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ریاست خاص طور سے وادی کشمیر کے عوام میں عدم تحفظ جو احساس پہلے سے موجو د ہے وہ مزید تقویت پائے گا اور آبادی کا تناسب بھی بگڑ جائے گا ۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ریاست کی خصوصی شناخت ختم ہوگی ۔ یہ صورت حال نہ صرف ریاست کے لئے بلکہ پورے ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوگی ۔ تفریق اور شورش پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ریاست میں امن اور معمول کے حالات بحال کرنا ایک خواب بن کے رہ جائے گا۔
آخر میں اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ دفعہ 35-Aکو آئین کے صفحات سے ہٹا نے کی سازش بنیادی طور پر فرقہ پرست، تفرقہ باز اور جمہوریت دُشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے۔ یہ قوتیں غیر یقینی حالات ، بے چینی ، نفرت اور مستقل بدامنی کے ماحول میں پرورش پاتی ہیں ۔ ان عناصر کا مقابلہ کرنے اور ان کی سازشوں کوناکام بنانے کے لئے ریاستی سرکار کو بیدار ہونا چاہئے ، معاملے کو سنجیدگی سے سپریم کورٹ میں (Contest) کرنا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی سرکار کو چاہئے کہ وہ مرکز کی طرف سے دی گئی کھوکھلی یقین دہانی کو خاطر میں نہ لائے اور اپنے طور پر دفعہ 35-Aکے خلاف دائر کی گئی رِٹ( writ)کو خارج کروانے کی بھر پور قانونی کوشش کرے۔ مرکزی سرکار اگر (جیسا کہ وزیر اعلیٰ دعویٰ کرتی ہیں) اپنے اس دعویٰ میں پرُخلوص ہے کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا بگاڑنے کے درپے نہیں ہے تو پھر اس کو سپریم کورٹ میں جواب دعویٰ (Affidavit)دائر کرکے باقاعدہ طور فریق بننا چاہئے ۔ اگر مرکزی سرکار (جیسا کہ ابھی تک اس کا رویہ رہا ہے) ایسا نہیں کرتی، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس وقت مرکز میں برسر اقتدار پارٹیاں بالخصوص BJP( RSS)ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی سمت میں کوئی مثبت قدم اُٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور یہ جماعت ریاست کی موجودہ خصوصی پوزیشن کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا یہی وہ حتمی حل ہے جو مرکزی سرکار اور BJP لیڈرشپ کشمیر مسئلے کے لئے تلاش کررہی ہے اور جس کا ذکر وہ بار بار اپنے بیانات میں کر رہی ہے؟