پچھلے ہفتے بھارت کی عدالت عالیہ کے سامنے دفعہ 35 Aکے ضمن میں پیشی کے دوران بھارت سرکار نے پُر اسرار خاموشی سادھ لی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاستی سرکار کے ساتھ ساتھ بھارت سرکار بھی اس اہم دفعہ سے وابستہ تمام حقائق عدالت عالیہ کے سامنے رکھ لیتی لیکن ہوا یوں کہ موضوع کو حساس قرار دیتے ہوئے بھارت سرکار نے کچھ بھی کہنے سے اجتناب کیا۔بھارت سرکار کے ایڈوکیٹ جنرل کے۔ کے وینو گوپال عدالت عالیہ میں پیش تو ہوئے لیکن اُنہوں نے کہا کہ وہ اِس معاملے میں حلف نامہ پیش نہیں کرنا چاہتے یعنی کوئی کاغذی دستاویز پیش نہیں کرنا چاہتے۔دفعہ 35 Aکو جانچا جائے تو قانون اساسی میں یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق کی ضامن ہے اور اِس میں کوئی ایسی کوئی بات نہیں جو قابل نگارش نہ ہو یا حساسیت کا لیبل چڑھا کے اُسے صیغہ راز میں رکھا جائے۔ دفعہ 35 Aپہ حساسیت کی غلاف چڑھانے کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟کہا جا سکتا ہے کہ کچھ بھی نہ کہنے سے بھارت سرکار نے بہت کچھ کہہ ڈالا بلکہ مسئلے کو حساس قرار دیتے ہوئے شک و شبہ کو ہوا دی۔بھارت سرکار نے ایک وسیع تر بینچ کی پیش نہاد بھی کی تاکہ موضوع کی حساسیت کی مناسبت سے ایک کھلی بحث ہو۔ ایک وسیع تر بنچ کا مفہوم یہ ہے کہ جج صاحباں جو اِس بحث کو سنیں اُن کی تعداد زیادہ ہو۔
دفعہ 35 Aکے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں رہائش ،بود و باش،روزگار اور ریاستی سرکار سے ا سکالرشپ کے حصول کا حق ریاست کے پشتنی باشندگاں کے نام محفوظ ہے۔یہ دفعہ آر ایس ایس سے وابستہ سنگھ پریوار کی مختلف اکائیوں کے نا قابل برداشت ہوتی جا رہی ہے اور جب سے سنگھ پریوار کی سیاسی اکائی بھاجپا دہلی کے راشٹریہ راج سنگھاسن پہ براجمان ہوئی ہے تب سے پریوار کی مختلف اکائیوں نے اِس دفعہ کو اپنی مذموم سازشوں کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ پہلے دفعہ370سنگھ پریوار کے نشانے پہ تھی لیکن یہ جانچ کے کہ اِسے کالعدم قرار دلوانے سے ہند کشمیر عارضی الحاق کی اساس ہی ٹوٹ جاتی ہے اِس دفعہ کو چھوڑ کے دفعہ 35 Aپہ نشانہ تاکا گیا۔دہلی کے راج سنگھاسن پہ براجمان ہونے سے پہلے ہی ارون جٹیلی نے اِس دفعہ کو بھارتی عوام کے حقوق کے منافی قرار دیا تھا، از اینکہ اُن کی صوابدید میں بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کے باوجود بھارتی شہریوں کیلئے ریاست جموں و کشمیر میں رہائش و روزگار کے دروازے کھلے نہیں اور یہ حق صرف و صرف ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے نام ہی محفوظ ہے۔ دہلی کے راج سنگھاسن پہ براجمان ہونے کے بعد جمو ں کشمیر سٹیڈی سنٹر جو آر ایس ایس سے وابستہ ایک اکائی ہے نے یہ اعلان کیا کہ وہ ایک سیمنار میں یہ فیصلہ لے گی کہ کب و کیسے وہ آئین ہند کی دفعہ 35Aکو کالعدم قرار دلوانے کی اپیل بھارتی عدالت عالیہ سپریم کورٹ میں دائر کرے گی البتہ عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ دہلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم (NGO ) ــ’ہم شہری‘(We the citizens)نے لیا اور حالیہ عدالتی کاروائی اِسی سلسلے میں انجام پائی۔ ــ’ہم شہری‘(We the citizens)کے دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ جموں و کشمیر سرکار نے دفعات35A اور 370 کے لاگو ہونے سے ایک خود مختاری کی پوزیشن (autonomous status) حاصل کر لی ہے جس کے بنیاد پہ وہ غیر ریاستی باشندوں کے ریاست میں اقامت ، حصول معاش اور محلی الیکشن میں وؤٹ کے حق کے آڑے آتی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کی اپنی آئینی شناخت ہے جو اُس آئین ساز اسمبلی کی مرتب کردہ ہے جو 1951ء میں وجود میں آئی۔اِس آئین ساز اسمبلی نے ممبراں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جسے ڈرافٹ کمیٹی کا نام دیا گیا جس کے ذمے یہ کام رہا کہ وہ آئین ہند کی مختلف دفعات کا مطالعہ کرے اور اُن دفعات کوریاست میں اجرا یا عدم اجرا کرنے کی سفارش کرے ۔ اِس کمیٹی میں گردھاری لال ڈوگرہ،سید میر قاسم،ڈی پی در،غلام رسول رینزو و ہربنس سنگھ آزاد شامل تھے۔ کمیٹی نے آئین ہند کی بعض دفعات کو بالکل مسترد کر دیا جبکہ بعض دفعات کے بارے میں اپنے اعتراضات پیش کئے چناچہ بعض شقوں کو حذف کیا گیا اور یہ دفعات ترمیمی صورت میں ایک نیا عنواں لے کے ریاست میں لاگو کی گئیں چناچہ دفعہ35کا نیا عنواں 35A رہا جو صرف ریاست جموں و کشمیر میں قابل اجرا ہے۔ جہاں دفعہ35میں کسی بھی بھارتی شہری کو بھارت کی کسی بھی دوسری ریاست میں سکونت اختیار کرنے اور ذریعہ معاش حاصل کرنے کا حق ہے وہی 35A میں ریاست جموں و کشمیر میں صرف ریاست کے مستقل باشندے سکونت اختیار کر سکتے ہیں ذریعہ معاش حاصل کرنے کا حق اُنہی کے نام محفوظ ہے۔ ڈرافٹ کمیٹی نے 11فروری 1954ء کو اپنی سفارشات پیش کی اور15 فروری 1954ء کو جموں و کشمیر آئین ساز اسمبلی نے اِن سفارشات کو منظوری دی۔ جموں کشمیر سرکار نے ریاستی آئین ساز اسمبلی کی سفارشات کو صدرجمہوریہ ہند کے سامنے پیش کیا جنہوں نے من و عن اُن کو قبول کرتے ہوئے 14 مئی 1954ء کے روز اپنے دستخط ثبت کئے اور ایسے میں صدارتی جنرل آرڈر کے طور پہ یہ شایع ہوا اور اُسی روز سے یہ قابل اجراقرار پایا۔
’ہم شہری‘ غیر سرکاری تنظیم کے عدالتی دعوے کی اساس یہ ہے کہ صدر جمہوریہ ہندکو 1954ء کے صدارتی حکم کے ذریعے آئینی ترمیم کا کوئی حق نہیں تھااور اِسے ایک انتظامی حکم سے تعبیر دی جا سکتی ہے بہ معنی دیگر تنظیم مذکورہ یہ کہنا چاہتی ہے صدارتی حکم کی کوئی اساس نہیں ہے جبکہ آئینی پوزیشن یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی سرکار کی سفارش پہ آئین ہند کی دفعہ370شق ( 1) کے تحت صدر جمہوری ہندکو یہ اختیار ہے کہ وہ آئینی ترمیم کا کوئی بھی کوئی بھی حکم صادر کر سکتے ہیں اور ایسے حکم کو آئینی حثیت حاصل ہے ۔ بنابریںتنظیم مذکورہ کا دعوہ بے پرکی کے سوا کچھ بھی نہیں اور آئینی ترازو میں پرکھا جائے توآئین ہند کی دفعہ370شق ( 1) کے برابر پلڑے میں یہ دلیل بے وزن ہے۔ دعوے کی اساس یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر سرکار غیر ریاستی باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہی ہے ۔ عذر داری میں یہ بھی آیا ہے ہے کہ غیر ریاستی باشندوں کو ریاست میں پراپرٹی خریدنے کی اجازت نہیں ،اُنہیں سرکاری نوکری نہیں مل سکتی ،لوکل انتخابات میں اُنہیں وؤٹ دینے کا حق حاصل نہیںاور یہ سب اِس لئے ہو رہا ہے کہ دفعات 370 و 35A کے تحت ریاست اٹونامس ہے یعنی ریاست کو خود مختاری کی حثیت حاصل ہے۔یہاں بلی تھیلے سے باہر آئی در اصل یہ سارا نزلہ اِس لئے گر رہا ہے کہ غیر ریاستی باشندوں کو پراپرٹی خریدنے،نوکری حاصل کرنے اور لوکل انتخابات میں وؤٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔
ــ’ہم شہری‘(We the citizens) کے دعوے کی بنیاد کو گہرائی میں پرکھا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ یہ سنگھ پریوار کی مختلف اکائیوں کی اُس سلسلہ وار سازش کا حصہ ہے جس کا حدف ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے ۔یہ سازش1947ء سے ہی ایک منظم طریقہ کار کے تحت ساری و جاری ہے۔اِن کوششوں میں حالیہ دنوں میں ایک عدالتی درخواست کے ذریعے دفعہ 35 A کو کالعدم قرار دلوانے کی عدالتی اپیل شامل ہے۔قارئین محترم کی اطلاع کیلئے یہ ذکر ضروری ہے کہ بھارتی آئین کی یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیرمیں رہائش کا حق اُن ہی باشندگاں تک محدود رکھنے کی غرض سے آئین ہند میں شامل کر لی گئی ہے جو ریاست کے قانونی طور پہ مستقل باشندے ہیں ۔ ریاست کے مستقل باشندوں کے بارے میں قوانین ڈوگرہ شاہی کے دور میں 1927ء و 1932ء میں مرتب کئے گئے اور پس از 1947ء اُ ن ریاستی باشندوں کو بھی ریاست میں واپس آنے کا حق محفوظ رکھا گیا جو 1947ء کے پُر آشوب دور میں پاکستان مہاجرت کر گئے بشرطیکہ وہ ڈوگرہ شاہی کے دوراں1927ء و 1932ء میں مرتب قوانین کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندے رہے ہوں۔
بیسوی صدی کی دوسری و تیسری دَہائیوں میں یہ قوانین اسلئے مرتب ہوئے تاکہ پنجابی مسلمانوںکی ریاست میں آمد و یہاں مستقل سکونت اختیار کرنے پہ روک لگائی جا سکے۔پنجابی مسلمانوں کی یہاں سکونت جہاں ڈوگرہ شاہی کو کھٹکنے لگی، وہیں آج ڈوگرہ شاہی کے ڈھنڈورچی سنگھ پریوار کی اکائیاں پنجابی ہندؤں کی ریاست میں مستقل سکونت کیلئے تگ دو کر رہی ہیں ۔قارئین ذہن نشین کر لیں کہ بات اُن پنجابی ہندؤں کی ہو رہی ہے جو 1947ء سے ریاست جموں و کشمیر میں مہاجرانہ حیثیت میں گذر بسر کر رہے ہیں اور جن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ اِنہیں جہاں پارلیمانی انتخابات میں حق رائے دہی ہے وہی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں یہ ووٹ سے محروم ہیں اور یہ پروپگنڈا فرقہ پرست جماعتیں شد و مد سے کر رہی ہیں کہ یہ ان کے شہری حقوق سلب کرنے کے متراوف ہے ۔ بھارت کی عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کا محرک یہ رہا کہ قانون ساز ایوانوں میں اُسے کالعدم قرار دلوانے کی کوششیں آئینی مشکلات کا شکار رہیں گی چونکہ دفعہ 35A ایک آئینی مشق کے بعد آئین کا حصہ بن گئی ہے جیسا کہ معروف قانون داں فلی ایس نریمان نے عدالت عالیہ میں اپنی وکالتی ترجمانی میں کہا۔
جہاں سرکار ہند نے عدالت عالیہ میں مسلے کو حساس کہہ کے کچھ بھی کہنے سے اجتناب کیا ،وہیں فلی ایس نریمان نے ریاست جموں و کشمیر کی وکالتی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 35Aکی آئین ہند میں ایک مستقل حثیت ہے اور صدارتی حکم جو 1954ء میں صادر ہوا ہے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کو خصوصی حقوق حاصل ہیں جو ایک مانی ہوئی بات ہے اور جس پہ اُس کے اطلاق سے عمل بھی ہو رہا ہے۔ فلی ایس نریمان کی صوابدید میںجس کا اُنہوں نے عدالت عالیہ میں برملا اظہار بھی کیا دفعہ 35Aکو چلینج نہیں کیا جا سکتا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جو پٹیشن (درخواست) اِس کے خلاف دائر کی گئی ہے اُس کا مدعا ایک ایسے قانون کے خلاف عذرداری ہے جسے سب نے نہ صرف قبول کیا گیا ہے بلکہ اُس پہ عملداری بھی ہوئی ہے ۔فلی ایس نریمان نے اپنے دفاع کو آگے بڑھاتے ہوا یہ بھی کہا کی 60 سال سے بیشتر عرصے کے بعد صدارتی حکم کو چلینج کیا گیا ہے اور اِس طویل عرصے میں دفعہ 35A کی مختلف شقوں پہ مسلسل عمل بھی ہوا ہے لہذا اِسے چلینج کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ماہر قانون داں کی دلائل میں کسی بھی با شعور شخص کو منطق نظر آئے گی۔ کسی بھی سماج میں قانون کی اہمیت و افادیت طویل مدت تک اُس پہ عمل کرنے سے واضح ہو جاتی ہے اُس اعتبار سے دیکھا جائے تو 1954ء سے 2017ء تک 63سال کے دوراں دفعہ 35A پہ عمل کرنے سے جموں و کشمیر کے عوام کو جہاں صبر آزمائی کے گوناگوں مراحل پیش آئے جہاں زیاں جانی ہوا،عصمتیں تاراج ہوئیں وہی کم از کم بہت حد تک یہ اطمیناں رہاکہ جموں و کشمیر میں بود و باش کا حق صرف و صرف یہاں کے مستقل باشندوں کو ہی رہے گاوہی اب بیجا عدالتی عذرداریوں سے یہاں کی عوام کی نہ صرف اجتماعی نفسیات سے کھیلا جا رہا ہے بلکہ بود و باش پہ حاوی ہونے کی سازشیں بھی ہو رہی ہیں۔ فلی ایس نریمان کا بھی یہی ماننا رہا کہ ایسی بے معنی عذر داریوں پہ عدالتی کاروائیوں سے ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔
ریاست جموں و کشمیر کے عوامی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اِن بے معنی عذرداریوں کا مطلب ریاست میں آبادی کے تناسب کو متاثر کرنا ہے اور یہ کوششیں مختلف صورتوں میں 1947ء سے جاری ہیں ۔عدالت عالیہ میں جہاں ریاستی سرکار کے وکیل نے کھل کے عذرداری کا جواب دیا، وہیں بھاجپا کی سر کردگی میں بھارت سرکار نے ٹال مٹول سے کام لیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ پی ڈی پی اور بھاجپا نے بھلے ہی جموں و کشمیر میں ایک ملی جلی سرکار تشکیل دی ہے مگر35Aکے دفاع میں دونوں حکومتی اکائیاں ایک ہی صفحے پہ نہیں ہیں ۔دونوں احزاب کے ایجنڈا آف الائنس میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ آئینی حثیت کو متاثر نہیں ہونے دیا جائے گیا۔اِس مناسبت سے بھاجپا موظف تھی کہ موجودہ آئینی حیثیت کے دفاع میں وہ پیش پیش رہتی جس میں دفعہ 35Aکا دفاع بھی شامل ہونا چاہیے تھا لیکن صاف ظاہر ہے کہ اِن تلوں میں جہاں تیل نہیں وہاں نیتوں میں فتور بھی ہے۔