نظر اُن کی زبان اُن کی تعجب ہے کہ اس پر بھی
نظرکچھ اورکہتی ہے زبان کچھ اور کہتی ہے
ساحرؔ ہوشیار پوری
اس وقت جموںوکشمیر میں آئین ہند کی دفعہ 35A ؍کے متعلق عوامی سطح پر زبردست خدشات اور تشویش کا اظہار کیا جارہاہے کیونکہ کسی نام نہاد این جی او کی طرف سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں اس دفعہ کو’’ غیر آئینی‘‘ قراردینے کی درخواست زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ نے اس درخواست کو زیر غور لانے کے لئے منظور کرلیاہے۔ دفعہ 35A؍ پشتینی باشندگانِ جموںو کشمیر کے اہم حقوق کوآئینی تحفظ دینے کے سلسلہ میں آئین ہند میں ایک اہم دفعہ ہے۔ اس دفعہ کے تحت جموںوکشمیر کے مستقل باشندگان ریاست کے خصوصی حقوق اور مراعات کے سلسلہ میں ریاستی قانون سازیہ کو خود مختار اور بااختیار بنایاگیاہے۔ یہ دفعہ آئین ہند میں ایک صدارتی حکم کے تحت ریاستی حکومت کے مشورہ کے عین مطابق 1954ء میں درج کی گئی تھی ۔ اس دفعہ کے تحت مرکزی سرکار یاپارلیمنٹ ریاستی قانون سازیہ کی طرف سے ریاست کے مستقل باشندگان ریاست کو عطاکئے گئے حقوق و مراعات میںکوئی رد وبدل یا ترمیم تنسیخ نہیںکرسکتی ۔
ریاستی عوام اس دفعہ کو اپنے حقوق ومراعات یا صحیح ترالفاظ میں اپنے منفرد تشخص کی برقراری کے لئے مستحکم آئینی گارنٹی سمجھتے ہیں اور جب اس گارنٹی کو حذف کرنے کی کوشش کی جائے توریاست عوام میں فکرو تشویش اور خدشات کا پیدا ہونا قدرتی اور لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہر طبقہ ٔ خیال تشویش اور خدشات کا برملا اظہار کیا جارہاہے۔ ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس حقیقت کا شاید ادراک کر کے طاقت کے ایوانوں کوصاف لفظوں میں پیشگی طور متنبہ کیا ہے کہ اس دفعہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ریاست میں کو ئی ترنگا تھامنے کو نہ ملے گا ۔ اور تو اور ریاستی اسمبلی کی اپوزیشن پارٹیوں نے مشترکہ طو اس دفعہ کے ساتھ مجوزہ چھیڑ چھاڑ کی بیک زبان ہوکر مخالفت کی ہے۔ صورت حال اس قدر سنجیدہ ہے کہ ایسے حساس معاملات پر عداتاً اور ارادتاً چپ رہنے والی حریت کا نفرنس نے بھی چپ کاروزہ توڑ کر علی الاعلان مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو انتباہ دیا ہے اور اسے ریاست کی ڈیموگرافی میں تبدیلی لانے کا اقدام جتلایا ہے ۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے معاملے کی نزاکت دیکھتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے سر پرست اور سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ سے بھی ملاقات کی ہے اور کسی ایسے قدم کو مشترکہ طور روکنے کا عندیہ دیا ہے۔حتیٰ کہ داکٹر فاروق عبداللہ نے وارننگ دی ہے کہ اس سے کشمیر میں ۲۰۰۸ء میں شرائین بورڈ کے خلاف ایجی ٹیشن کا اعادہ ہوسکتا ہے ۔ غر ض اقتدار نواز اور علیحدگی پسند اس سلسلہ میں ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں ۔ اس لئے اس سلسلہ میں صورت حال کی سنگینی اور سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے اورتمام متعلقین کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ آرٹیکل دفعہ۳۵؍ اے مخالفانہ کارروائی متعلقین کے لئے گلے کی ہڈی ثابت ہوسکتی ہے جس سے جموںوکشمیر میں زبردست سیاسی اُتھل پتھل اور عوامی ہیجان کوبعیدازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، بلکہ ایسی صورت حال ملکی مفاد اور قومی ایکتا کے لئے خطرناک رُخ پیدا کرسکتی ہے، امن وامان برباد ہوسکتاہے اور پیش تر ازیں ہی گرداب اور بحران میںپھنسی ہوئی یہ مظلوم وبے نوا ریاست مزید تباہ خیزی کی طرف دھکیلی جاسکتی ہے۔ اس لئے عقل وفہم کا تقاضا یہی ہے کہ متعلقین اس سلسلہ میں اس دفعہ کو مسخ کر نے، تبدیل کرنے یا حذف کرنے سے بہر صورت گریز کریں ، وگرنہ صورت حال قابو سے باہر ہوجائے گی۔
یہ دُرست ہے کہ الحاقِ ہند کے موقع پر اورآئین ہند کی تشکیل کے وقت جموںوکشمیر کی ا سپیشل پوزیشن اور مہاراجی دور کا قانون ِپشتینی باشندگان یا سٹیٹ سبجکٹ قوانین ایک دوسرے سے روح وبدن کی طرح بوجوہ مر بوط رکھے گئے اور جو رشتہ یاست اور ہند یونین کا معرض وجود میں لایا گیا اسے زیر بحث گارنٹی دیتا ہے ۔ اس ناقابل تردید امر واقع کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے کوئی ایساقدم اُٹھانے سے گریز کیا جاناچاہیے جو ریاست کی خصوصی پوزیشن اور مستقل باشندگان ریاست کے حقوق و مراعات پر برہ راست یا بلواسطہ ضرب لگائے۔ اس سے بھی زیادہ یہ امر سمجھنے کے قابل ہے کہ ریاستی عوام نے پشتینی یا مستقل باشندگان کے حقوق کے تحفظ کے لئے پیش تر از الحاق بھی طویل جدوجہد کے بعد مہاراجگان کے وقت ہی یہ حقوق اور مراعات اپنی انفرادیت کی بقاء ا ور تشخص کے ودام کے لئے حاصل کئے ہیں۔ آج طویل جدوجہد کے اس ثمرہ کو ووٹ بنک سیاست کی بھینٹ چڑھانے کا کیا تک بنتاہے ؟ یہ سوچنے کی بات ہے ۔
تاریخ کشمیر کے سبھی سنجیدہ فکر طالب علموں اور محققین کومعلوم ہے کہ جب بدنام زمانہ بیع نامہ امرتسر کے ذریعہ مہاراجہ گلاب سنگھ نے 75؍لاکھ روپے کے عوض جموں وکشمیر کی عملداری حاصل کی تھی تو مہاراجہ کے پاس یکمشت یہ رقم ادا کرنے کی کوئی سکت نہیںتھی۔ حالانکہ 75؍لاکھ کا سودا بھی برائے نام تھا۔ اصل میں لاہور دربار سے غداری کے صلہ میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو اس انعام سے نوازا گیاتھا۔ یہ 75؍لاکھ روپے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ایمن آباد کے دیوانوں سے حاصل کرکے ادا کئے تھے اور اس کے عوض ان دیوانوں کے خاندان کا ہی فرد وزیر اعظم مقرر کیاگیاتھا۔ پہلاوزیراعظم دیوان جوالا سہائے تھا اور اس کے ساتھ وادیٔ کشمیر کے مالیہ میں حصہ دینا بھی مقرر کیاگیاتھا۔ دیوان خاندان کو زرعی اراضیات کی ملکیت بھی بڑے پیمانے پر دی گئی تھی۔ 1947ء میں جب زرعی اصلاحات عمل میں لائی گئیں تو دیوان اس وقت سب سے بڑے جموںوکشمیر میں لینڈ لارڈ تھے۔ اس زمانہ میں جموں وکشمیرمیں تعلیم بہت محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ دیوانوں نے پنجاب سے اپنے لواحقین اور رشتہ دار لاکرلا کر تمام سرکاری عہدوں اور اسامیوں پر تعینات کروادئیے اور ریاستی باشندگان کو عملاًملازمتوں سے محروم کردیاگیا۔ بہت مدت تک جموں اور کشمیر دونوں صوبوں میںاس جاگیردارانہ و ساہوکارانہ سسٹم پر عمل درآمد ختم کرواکے بیرون ریاست کے لوگوں کے لئے ملازمت اور اراضیات و مکانات کی خریدو فروخت ممنوع کرکے مقامی لوگوں کے حقوق و مراعات کے لئے آواز بلند ہوتی رہی لیکن اسے نقار خانے میں طوطی کی آواز سمجھ کر نظرانداز کیا جاتارہا لیکن جب ریاست کے پشتینی اور مستقل باشندگان کی احتجاجی تحریک وسیع پیمانے عوام میں پھیل گئی تو 1927ء میںمہاراجہ ہر سنگھ نے پشتینی باشندہ ریاست کا قانون نافذ کیا،جس کے ذریعہ ملازمتوں میں بیرونی عناصر کا داخلہ بند ہوا بلکہ اراضیات کی خریدو فروخت پربھی بیرونی عناصر پر پابندی عائد کردی گئی۔ لہٰذ جموں وکشمیر کے پشتینی اور مستقل باشندگان ریاست کو جو مراعات و حقوق حاصل ہیںوہ اسی سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے تحت ہیںجنہیں آج کچھ حق ناشناس لوگ آئین ہند کی دفعہ 35A؍ کو حذف کرکے ریاست کے مستقل باشندگان کو ان حقوق و مراعارت سے محروم کرنا چاہتے ہیں جو 1927ء سے انہیں حاصل ہیں۔ اس سے بڑا ظلم، بے انصافی اور بے عدلی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس لئے دفعہ 35A ؍کو حذف کرنے کوششوں کے خلاف ریاستی عوام میں بے چینی اور تشویش پایا جانا قابل فہم ہے اور یہ بجا طورپر قدرتی ہے اور لازمی ہے۔
بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس کی پیش رو پرجاپریشد ضرور ایک ودھان ، ایک پردھان، ایک نشان کا نعرہ بلند کرکے دفعہ 35A؍ کو حذف کرکے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن عملاً اس کے ممبران اسمبلی نے بھی دفعہ 370؍ کے تحت ہی ریاستی آئین کی وفاداری کاحلف لے کر اسمبلیوں میںرکنیت اختیار کررکھی ہے اور منسٹر بن کر قومی جھنڈے کے ساتھ ساتھ اپنی کاروں پر ہل والے ریاستی جھنڈے کو بھی لہرا کر حقیقت حال کو چارو ناچارتسلیم کرتے پھر رہے ہیں۔ بھاجپا کی بالائی قیادت نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی مفتی محمد سعید سے سر جوڑ کر سیاسی ساجھے داری کی جو دستاویز’’ ایجنڈاآف الآئنس ‘‘کے عنوان سے تحریر کی ،اس میں دفعہ ۳۷۰ ؍ کو مستحکم کر نے کا قول وقرار باضابطہ طور موجود ہے ۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر ترتیب دیا ہوا ایک سیاسی لائحہ عمل ہے جس کی بنیاد بقول مفتی سعید قطبین کا اتحاد عمل میں آیا ۔ جب پی ڈی پی کے ساتھ مشترکہ سیاسی پروگرام میںبھاجپا نے ریاست کے حوالے سے دفعہ 370؍کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو من وعن تسلیم کیاہے تو آج اس کے پیٹ میں مروڑے اٹھ رہے ہیں ؟اور دفعہ 35A؍ کو تسلیم کر نے میں اسے ہچکچاہٹ کیوں محسوس ہورہی ہے؟ جب GST پر ریاستی اسمبلی کی قرارداد اور اس سلسلہ میں صدارتی فرمان میں بھی دفعہ 370؍ اور دفعہ 35A؍ کے تحفظ کی گارنٹی کا اعادہ درج کیا گیا ہے، جب ریاستی اسمبلی نے اس ضمن میںجو متفقہ قرارداد منظور کی اس میں بھی بھاجپاممبران شامل ہیں، توپھر بار بار کبھی ہائی کورٹ اور کبھی سپریم کورٹ میں ریاست کی خصوصی پوزیشن پر درخواستیں اور عرضداشتیں چہ معنی دارد؟ بجز اس کے اپنی خفت مٹائی جائے اور ووٹ بنک سیاست کے داؤ پیچ کھیلیں جائیں۔موجودہ ناگفتہ بہ سیاسی حا لات کے تناظر ایسا دکھائی دیتاہے کہ ان تما م حقائق کے باوجود بھاجپا کے کچھ لیڈر ریاست کی خصوصی پوزیشن کے مسئلہ کو جوں توں بار بار زیر بحث لاکر دبائو کا حربہ استعمال کررہے ہیں۔ کبھی کسی شخص کے نام پر اورکبھی کسی ادارہ کے نام پر عدالتوں کے دروازے کھٹکانا اور پھر سبھرامنیم سوامی اور جتیندر سنگھ جیسے لیڈروں کا بار بار اس سلسلہ میں منفی بیان بازیاں کرنا، جموں وکشمیر کے بگڑے ہوئے حالات مزید بگاڑ کا موجب ہی بن سکتے ہیں۔ کانگریسی دورِ حکومت کے میں ریاستی کانگرسی سرکاروں اور گورنر راج کے دوران ریاستی حکومتوں کی سفارش پر بیش ترازیں دفعہ 370؍ کو بہت کھوکھلا کردیاگیا کہ اب تو یہ محض نام کی اندرونی اٹانومی ہے۔ بے شک فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس آج کل یک جان ودو قالب ہیں لیکن دفعہ 370؍کو زمین برُد کرنے کی زیادہ تر ذمہ داری کانگریس کے سر آتی ہے لیکن دفعہ 370؍کو زمین برُد کرنے والے کانگریسی آج کل د فعہ370؍کے سب سے بڑے رکھوالے ہونے کا سوانگ رچا رہے ہیں۔ یہ سراسر فریب کاری ہے۔ اگران کے بس میں ہو تو حصول اقتدار کی خاطر رہے سہے دفعہ 370؍کوبھی حذف کروانے میںکوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کریںگے۔بہرصورت آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ بھاجپا سے تعلق رکھنے والے نچلے درجے کے عناصر بھاجپا ہائی کمانڈ کی شہ پر عدالتوں میں پہنچ کر دفعہ 370؍اور دفعہ 35A ؍کو’’ غیر آئینی‘‘ قراردینے کی نامرادکوششیں کررہے ہیں یا اندرونی اختلافات کی بنیاد پر ان کو اچھال رہے ہیں لیکن اس خوف ناک کھیل میں بلاشبہ بھاجپا ئی عناصرہی پیش پیش ہے کیونکہ انہیں ۲۰۱۹ء کے الیکشن پر نظر یں جمی ہوئی ہیں۔ وہ یہ کھیل کھیل رہے ہیں بغیر اس کی پرواہ کئے کہ یہ آگ سے کھیلناہے اور اس کے بیک فائر ہونے کے ا مکانات بھی ہیں۔ اس میں کسی کو ہرگز کوئی شک وشبہ نہیں ہوناچاہیے۔ اس سلسلہ میں بھاجپا پریوار ان سر پھرے عناصر کے ہاتھ مضبوط کرریاہے جن کے عقل وہوش کاکو ئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔دفعہ 370؍اور دفعہ 35A؍ کو حذف کرنے کی عدالتی شوشہ بازیوں سے نہ دفعہ 370؍ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی دفعہ 35A، یہ قانونی ماہرین کی مسلمہ رائے اور فکر کا نچوڑ ہے اور یہ حقیقت بہرحال عنقریب واضح ہوجائے گی۔ البتہ سیاسی طالع آزما پریواری نیتاؤں کو اپنی سیاسی ہانڈی گرم رکھنے کے لئے حساس مسائل پر شوشہ بازیوں کا بازار گرم رکھنے کی مجبوری گلے پڑگئی ہے کیونکہ گزشتہ تین سال سے یہ حکومت کے بل پر عام آدمی کے روز مرہ معاشی مسائل حل کرنے میں تقریریں جھاڑنے کے علاوہ کچھ اور نہ کر سکے ۔ انہیں بہر حال یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی لن ترانیوں کے باعث جموں وکشمیر کے مختلف خطوں، مختلف علاقوں اور مختلف فرقوں میںبد گمانیاں اور غلط فہمیاں ضرور پیدا ہورہی ہیں۔ اس لئے ہر محب ِ وطن اور امن پسند شہری کا فرض ہے کہ وہ ان شوشہ بازیوں اور لن ترانیوں کا قلع قمع کرنے میں اپنا حصہ اداکرے ۔ہماری مسلمہ اورجچی تُلی رائے یہ ہے کہ جموں وکشمیر کا مسئلہ بنیادی طورپر حل کرنے کے لئے ہندوستان اور پاکستان ، حریت کانفرنس سمیت تمام سیاسی گروہوں، تمام علاقائی خطوں جس میںہندوستان اور پاکستان کے زیر انتظام سبھی علاقے شامل ہیں،کے چیدہ چیدہ نمائندوں کے درمیان باہمی بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ ٔ جنبانی شروع ہونا چاہیے۔تمام سٹیک ہولڈروں کو جان لینا چاہیے کہ نہ ریاستی تشدد سے، نہ فرقہ وارنہ منافرتوں سے ، نہ صوبائی اور لسانی تعصبات سے اور نہ ملی ٹینٹوں کی بندوق سے یہ مسئلہ حتمی طور حل ہونا ہے۔ اس لئے تمام صحیح الدماغ اور وسیع ا لنظر لوگوں کو کشمیر حل کے لئے ہمہ گیر مذاکرات ممکن بنانے میں اپنی مثبت کوششوں کا حصہ ڈال دینا چاہیے اور بھولے سے بھی دفعہ 370؍اور دفعہ 35A ؍کو حذف کرنے کی شوشہ بازی نہیں کر نی چاہیے۔، نیزاس سلسلہ میں شوشہ باز سیاسی کھڈ پنچوں کی تگڑم بازیوں سے بھی ہوشیار رہناچاہیے۔ المختصر اس وقت دفعہ 370؍ اور دفعہ 35A ؍کو غیر آئینی قراردینے اور حذف کرنے کے ہر رقص نیم بسمل کی ہم پر زور الفاظ مذمت کرتے ہیں اور ان نامراد کوششوں کو ریاستی عوام میں ایک دوسرے کے تئیں شک وشبہ پیدا کر نے کی ایک دانستہ سازش قراردیتے ہیں جو ہر حال میں ناکام کی جانی چاہیے کیونکہ اسی میں وسیع تر قومی اور ریاستی مفاد مضمر ہے ۔