ڈاکٹر گلزار احمد وانی
انتظار کے بعد اگر کسی چیز میں لطف و انبساط نظر آتا ہے تو وہ بس دعوت پہ جانے میں ہے ۔ جو اس کے ان لمحات میں حظ ہے شاید ہی کسی کے پاس ان کے اظہار کے لئے الفاظ میسر ہوں گے۔ انسان اپنی حیثیت سے بڑھ کر آرائش و آسائش کے ذرایع ڈھونڈ نکالنے لگتا ہے۔ سب کچھ چھوڑ کے کم سے کم اس تیز ترار والی زندگی میں انسان کا من بدن خوش حال نظر آتا ہے۔ بقیہ موقعوں پر انسان کو کیا کچھ میسر ہونے کے باوجود بھی اس طرح کی ذہنی آسودگی خال خال ہی میسر آ سکتی ہے۔
پہلے اگر یوں کہا جائے کہ انسان کا اس سفر پہ نکلنا ہی اس کے وجود کو کئی نئی رعنائیاں عطا کرتا ہے۔پہلے تو انسان ذہنی خاکہ کھینچنے میں لگ جاتا ہے۔ پھر ایک گلکار کی مانند اس خاکے کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے وہ اگلے دن سے ہی شروعات کرنے لگتا ہے تو یوں سب سے پہلے اس کا یہ سفر ذہن سے شروع ہونے لگتا ہے۔ وہ پھر جیسے اپنے ارمانوں کا بل نکالنا شروع کر دیتا ہے۔
انور میاں کا بھی کیا قصور ! اسے بھی ایک دفعہ اپنے یہاں کسی تقریب میں جانے کی دعوت موصول ہوئی ۔ انوٹیشن کارڈ کا گھر آنا مطلب باسی کڑھی میں اُبال آنے کے مترادف تھا۔ پھر کیا کہنا کہ اس نے کارڈ کو الٹ پلٹ اور لفافے سے اندر باہر کرکے کئی بار جیسے اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور وہ اسے ہر بار کھول کے اور پڑھ کے جیسے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ ایسے جیسے کسی بانجھ عورت کے یہاں کوئی اولاد جنمی ہو۔ ابھی دعوت پر جانے کو ایک ہفتہ سے کم کا وقفہ رہا تھا تو اس نے ابھی سے مزے دار خیال کی روٹیاں سینکنا شروع کر دیں اور تمام مورچوں پہ نگاہ رکھنی شروع کردی۔ سب سے پہلے اُس نے نائی کے دکان کی طرف رخ کیا اور اسے بار بار کہنا شروع کیا کہ اسٹائل ٹھیک بنانا، مجھے کسی دعوت پہ جانا ہے۔ نائی نے عادت سے مجبور ہو کر بھی اس کو کچھ زیادہ وقت نہ دیا اور سرعت سے اس کا اسٹائل بنا دیا۔ انہوں نے آئینہ میں اپنے آپ کا کئی بار جائزہ لیا اور غیر تسلی بخش اسٹائل لگی اور پھر سے نائی سے کہنے لگا کہ یہاں وہاں کچھ زیادہ ہی کم کر دیا ، جب پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو اسے دو چار صلواتیں کھری کھری سنائیں، خداخدا کر کے وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔اور گھر تک آتے آتے سو بار سر اور بالوں پر ملائم ہاتھ پھیر دیئے اور خوب تسلی پائی۔اس کے بعد روپے پیسوں کا انتظام کرنےکی سوچ میں ڈوبنے لگ گیا۔ اور اسے اکرم میاں یاد آنے لگا کہ اس نے مجھ سے ایک مہینہ پہلے ہزار روپے ادھار لیے تھے کیوں نہ اسی سے مانگ لیں۔انہوں نے پیسے میسر نہ ہونے کی معذرت جتائی۔انور میاں نے اسے خوب سنائی جس سے اس کا مقروض سراسیمہ ہو گیا اور وہ ایک دوسرے سے لفظوں لفظوں میں دست و گریبان ہو گئے۔ اور انور میاں کو جب وہاں سے نفی میں جواب آگیا تو اس کے دل سے اس کے دوست کی تکریم و عزت اتر گئی۔ دل شکستہ ہونے کے بعد وہ سوچنے لگا کہ نشانہ خطا کیوں کر ہوا ، پھر ایسے تیسے کر کے انہوں نے پیسوں کا انتظام جب کر ہی لیا تو نشاط و انبساط کا ٹھکانہ ساتویں آسماں پر تھا۔ اس کے بعد درزی کے پاس ایک جوڑا سلوانے کی غرض لے کر گیا اور اسے کچھ غلطی نہ دہرانے کا عندیہ بھی دینے لگا۔ ایسے میں درزی نے باتوں باتوں میں اس کے دل میں جیسے شگوفے کھلائے اور اسے خوب ہنسایا۔ نائی سے لے کر درزی کی سلائی تک کا یہ سفر ابھی تک کھٹا میٹھا رہا۔ پھر آئی باری گاڑی کا انتظام کرانے کی ، کیونکہ اسے اس جگہ پر مدعو کیا گیا جہاں عام طور پر گاڑی ملنا جوئے شیر لانے لے مترادف تھا اس لئے اسے ابھی سے یہ فکر دماغ کھانے لگی اور اس نے اپنے بھتیجے کو بائک لانے کے لیے کہا تو اس کا جواب یہ تھا کہ کیا مجھے بھی دعوت میں شریک ہونا ہوگا اور جب انوٹیشن کارڈ پر دیکھا گیا تو وہاں پہ ایک آدمی کی دعوت لکھی ہوئی تھی باقی خانوں پر ضرب ضرب لگے تھے، جس سے اس کے تمام کئے ہوئے ہوئے منصوبے پر پانی پھر رہا تھا۔ پھر بھتیجے سے یہ طے پا گیا کہ میں آپ کو لذیذ پکوان دوں آپ مجھے چھوڑ دو، پھر آپ واپس لوٹ آؤ۔ اب بھتیجے کے لئے یہ قہر درویش بر جان درویش کی صورت حال تھی۔ اب اس دن کی تیاری تھی تو وہ دن اب آ ہی گیا جب اسے اس لازمی سفر پہ روانہ ہو جانا تھا ۔اب انور میاں آئینے کے روبرو بیٹھ گیا اور اپنے آپ کا جائزہ مختلف زاویوں سے لینے لگا کہ کہیں اس نے کچا دودھ تو نہیں پیا۔ نہانے کے بعد ناک ، ناخن اور بھوئیں سنبھال کر اب خوب تسلی کر لی اور کپڑوں پر استری کرنے کی سوجھی اب بجلی آنکھ مچولی کھیلنے لگ گئی جس پر انور میاں آگ بگولہ ہو کر کچھ گالیاں مذکورہ شعبے کو اور کچھ اپنے آپ کو دینے لگا۔اب استری لگا کر ایک دم ٹھنڈے ٹھنڈے سدھارتا چلنے لگا۔ اور جوتوں میں پالش کم دیکھنے پر اس کی تسلی نہ ہوئی اور پالش کرکے انہیں اور آبدار بنایا اور بالوں میں کنگھا کرکے ایک دم مست دکھنے لگا۔ اب کیا تھا کہ جب دعوت پر جا نکلے تو بائک کے ٹایئر میں بیچ رستے میں پنکچر ہو گیا اور یوں اس کی آواز ہوئی کہ جیسے کوئی زوردار بم پھٹ گیا اور انور میاں کو یوں لگا، گویا آسماں سے اٹکا کھجور میں لٹکا ۔ اب انہیں ایک کلو میٹر کے فاصلے تک بائیک سمیت پیدل چلنا پڑا اب اس کا بھتیجا بائیک کو آگے سے اور انور میاں پیچھے سے دھکا مار مار کر مستری دکان تک لے لے کر جیسے پسینہ پسینہ ہو گئے۔اور وہاں بخشوانے گیا تھا نماز تو روزے گلے پڑے کے مترادف صورت حال تھی اور مصیبت آن یہ پڑی کہ وہاں مستری کی غیر موجودگی تھی جس پر انہیں کہا گیا ہے کہ بائیک کو رہنے دو اور مستری شام کو گھر لوٹنے والے ہیں آپ جاؤ کہاں جانا ہے ، بائیک واپسی پر لے جائیں تو اور بھی جان نکلنے لگی۔ اب انہوں نے بائیک کو ایک سائیڈ پر رکھ لیا۔ ویسے بھی مستری کی دکان، جو گائوں میں تھی اور اس کا زیادہ کام نہیں ہوتا ہے اس لئے وہاں پر مکڑی کے جالے جگہ جگہ نظر آ رہے تھے اورجوں ہی بائیک ٹھکانے لگانے کے لئے آگے بڑھے تو انور میاں اور اس کے بھتیجے کے سر پر مکڑی کا جالہ چپک گیا اور کپڑوں پر دھول مٹی لگ کر وہ میلے کچیلے نظر آ نے لگے۔ پھر انہیں وہاں سے پھر سے دو کلو میٹر پیدل چلنا پڑا۔ اب وہ کشش اور وہ رونق اُس کے چہرے سے ہی فق ہوئی تھی۔ کہاں وہ جوتوں کی پالش اور اب کہاں وہ ریشمی بال ، اب کپڑوں پر جمی ہوئی دھول کے نشان نمودار تھے ۔ بکھرے ہوئے بال پریشانی کی داستاں بیاں کر رہے تھے۔ اور اب اُسے دیکھ کر یہ فیصلہ کرنے میں کوئی بھی تامل نہیں کر سکتا تھا کہ اُسے تو آبدست کاسلیقہ بھی نہیں تھا ۔ اب جب تک وہ دعوت پر پہنچنے لگا تو دیر ، دیر اور کافی دیر ہو چکی تھی جس سے وہ آدھا گھنٹہ دعوت پر دیرسے پہنچ گیا۔ وہاں سب دانتوں میں تیلی کرتے ہوئے نکلے جا رہے تھے۔بھوک بھی زوروں کی لگی ہوئی تھی تو خداخدا کرکے اُسے الگ سے کھانا پروسا گیا ۔اب کھانا بھی ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اس میں ایسی لذت بھی غائب تھی، جس کے لئے وہ گھر سے نکلا تھا۔ اب پکوان میں شوربے کے ساتھ مزید پانی ملایا گیا اور اس میں وہ لذت ہی نہ تھی اور نہ ہی وہ محفل آراستہ دیکھنے میں آئی۔ انور میاں نے کہا کہ ماں سچ ہی کہہ رہی تھی کہ کسی خوشی کے لئے زیادہ خوشی منانا نیک فعال نہیں ہے۔اور وہاں وہ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گیا۔جوں توں کرکے تو اُسے کھانا کھلایا گیا مگر ان کے پاس کوئی بیٹھنے والا بھی نہ تھا، سب دولہے کے آنے کے منتظر تھے اور بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق وہاں سے ایسے نکلے کہ گویا کسی نے دیکھا تک نہ ہو ۔ کہاں وہ نکلتے وقت مست شرارے ، کہ کوئی راستے پہ پوچھنے ہی والا تھا کہ بابو کہاں نکلے ہو تو بغیر آؤ دیکھے نہ تاؤ کہہ لیتے کہ دعوت پہ نکلے ہیں۔ اور اب کہاں کہ سب مزہ کرکرا ہو گیا۔ اور آتے وقت وہ چھپ چھپ کر گھر کے اندر آگیا گویا اس پر جیسے چوری کے الزام لگے جا رہے تھے۔کسی نے پوچھا بھی کہ اس طرح ہانپتے ہوئے کیوں چل رہے ہو ہم کہاں سے آرہے ہو ؟ تو جواب یہ آیا کہ بس بس ادھر تک گیا تھا۔
موبائل نمبر؛7006057853
[email protected]