علمی دنیاکے مشہور ومعروف محقق وقلمکار ڈاکٹرمحی الدین غازی کی تحریروںکا مجھے ہمیشہ شدت سے انتظاررہتاہے۔ جب یہ معلوم ہواکہ انہوںنے شیخ جاسم محمدالمطوع کی ایک کتاب کاترجمہ کیاہے توکتاب کاشدت سے انتظارتھا۔ ظاہرہے اتنے بڑے محقّق نے جب کسی کتاب کاترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس کی ہوگی توکتاب کی اہمیت ازخودواضح ہوجاتی ہے۔کتاب کے مصنف شیخ جاسم محمد المطوع کویتی اخوانی عالم ہیں۔عالم اسلام کے ایک بڑے مربّی اورفیملی کونسلنگ کے ماہرمانے جاتے ہیں۔آپ کے خاص موضوعات میںتحریک اسلامی کے تربیتی مسائل ، ازدواجی زندگی کے مسائل ،نوجوانوںکی رہنمائی اور ان کوصحیح رُخ دینا شامل ہیں۔ آپ کی اہم موضوعات پر تصانیف کی تعداد تیس تک پہنچ چکی ہیں ۔
۸۰؍ صفات کی کتاب کومصنف نے دوحصوں میں۱۵؍ذیلی ابواب میںتقسیم کیاہے۔ تربیت کی اہمیت کومدّنظر رکھتے ہوئے بہت سی کتابیںلکھی گئی ہیں لیکن اکثرکتابوں میں تر بیت وتزکیہ کے حوالے سے انفرادی اعمال پرزیادہ زوردیاجاتاہے۔ کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں فرد کی انفرادی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی تربیت پرعام فہم مگرپُراثرطریقے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے مترجم پیش لفظ میںلکھتے ہیں:’’تجدید صرف امت کی نہیں فردکی بھی ضرورت ہے۔ امّت مجدد کاانتظاکرتی ہے ، فردکواپنا مجدّدخود بنناہوتاہے۔ زندگی پراللہ کے رنگ کی تجدید ہوتی رہے ۔یہ بہت ضروری ہے تاکہ ہرآن زندگی کے ہرپہلو پر اللہ کارنگ نمایاں نظر آئے۔خاص طورسے جب نئے نئے رنگوںکی ہرطرف برسات ہورہی ہو۔گندے پانی کے نالے ہرچہارسمت بہہ رہے ہوں ۔اورشیطان ہرطرح سے بدی کے رنگوں کوخوشن نمابناکر دکھانے میںمصروف ہو۔مردمسلم کی شخصیت سنورجائے ،وہ اعلیٰ کردارسے آراستہ ہوجائے۔عام لوگوں کے لئے بہترین نمونہ اوردعوت وعظیمت کی راہ پرچلنے والوںکے لئے معاون ومددگاربن جائے۔ یہی اس کتاب کاپیغام ہے۔ اس کتاب کے دوحصّے ہیں۔پہلاحصّہ زندگی کوایمان کی بلندی دکھاتاہے، دوسراحصہ دعوت دین کے شرف سے آشناکرتاہے ۔ ایک ایمان افروزہے تودوسرا تحریک افزاء ۔ دونوںحصّے ہرمسلمان کی ضرورت ہے…..‘‘
مصنف نے تمثیلی کالموںکے ذریعے فردکی تربیت کی کوشش کی ہے۔ان چیزوںسے جن سے انسان کوہمیشہ واسطہ پڑتاہے ،مصنف گفتگوکراتاہے۔ اوراس گفتگو کے ذریعے وہ چیز اپنے سارے راز بتاتی ہے،اس طرح لوگوںکی تربیت کی جاتی ہے ،مثلاً گفتگو دنیاسے ،گفتگوجائے نمازسے،گفتگودیوارسے،گفتگوحوصلہ سے، گفتگوقربانی سے ، گفتگووعدے سے ،گفتگوجمودسے وغیرہ ۔ ’گفتگودنیاسے‘کراتے ہوئے اس طرح فردکوواقف کرایاجاتاہے:
’’دنیا:تمہیں مجھ سے کس بات کاگلہ ہے ،بولو،میںتمہارے سامنے ہوں؟
میں (غمگین لہجے میں ) :مجھے غم اس بات کا ہے کہ تم سے چھٹکارا پانے کا مجھے کوئی راستہ نظرنہیںآتا۔
دنیا:دیکھو مجھ سے تعلق رکھنا ایک فطری ضرورت ہے،کوئی یہ نہیںکہہ سکتا کہ وہ میرے بغیرجی سکتاہے۔میںاللہ پاک کی مخلوق ہوں ،اورمیرے اندردل موہ لینے کی صفت رکھی گئی ہے‘‘۔
دنیامیںرہتے ہوئے انسان کس طرح اپنے آپ کو دنیا میں گرفتارہونے سے بچائے،اس کے لئے ـ’ گفتگو دنیاسے‘کرائی جاتی ہے:
ـ’’میں:میں تمہارے دام سے بچ کر زندگی گزاروں ،اس کے لئے مجھے کیاکرناہوگا؟
دنیا:…….میںلوگوں کومختلف طرح سے اپنے جال میںپھنساتی ہوں، کسی کو مال ودولت کے جال میں، توکسی کو جاہ ومنصب کے جال میں ، اوریہ سب میرے میک اَپ اورآرائش کاکمال ہے اوریہ تم بھی جانتے ہوکہ میک اَپ کتناہی دلکش ہو وہ عارضی ہی ہوتاہے…دیکھوتمہیں یہاںمیرے ساتھ ہی جیناہے لیکن میرے فتنوںسے بچتے ہوئے جیناہے، یہی نجات کافارمولہ ہے ، اس کے لئے سب سے ضروری صفت ہیں، ہوشیاری اوربیداری‘‘۔
’بدی سے گفتگو‘کراتے ہوئے فردکوبدی سے بچنے کاحل سمجھایاجاتاہے:
’’بدی:…… بندہ جب بدی کاارادہ کرتاہے اوراللہ تعالیٰ کے ڈرسے اسے نہیںکرتا تواس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔حدیث قدسی میںہے کہ جس نے بدی کاارادہ کیا مگراس کاارتکاب نہیںکیا ،اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک مکمل نیکی اپنے پاس لکھ لیتاہے‘‘۔
’فکر مندی سے گفتگو‘کراتے ہوئے فردکی تربیت اس طرح کی جاتی ہے:
’’فکر مندی:…نبی کریم ﷺ کی دعاپرغورنہیںکیا ۔دنیاکومیری سب سے بڑی فکر نہ بنا ۔ فکریںبہت ساری ہوسکتی ہیں ،ان کاتعلق مفیدامورسے ہوسکتاہے البتہ دنیا سب سے بڑی فکرمندی نہ بن جائے ۔حکیم ابن مقفع یہ بات سناکر فکرمندی دوبارہ میرے دل میںلوٹ گئی:کتنے لوگ ہیں جنہوںنے دنیاحاصل کرناچاہی اوراس کے لئے یکسو ہوگئے اورپھردنیاان سے چھین لی گئی۔ کوششیں ان کے رجسٹر پرلکھ دی گئی ، دنیادوسروںکے قبضے میںچلی گئی ۔ اوران کامال ان کے ہاتھ میںچلاگیا جوانہیںپسندبھی نہیںکرتے تھے‘‘۔ اجتماعیت کی اسلام میں کافی اہمیت ہے،لیکن فرداجتماعیت سے غفلت کرتاہے۔
فرد اجتماعیت سے کیسے غافل ہوتاہے ،اس کی ملاقات حوصلے سے کرائی جاتی ہے:
’’میں:ایک سوال مجھے بھی پریشان رکھتاہے کہ حوصلے کمزورکیسے ہوجاتے ہیں؟
حوصلہ: اس کے کچھ اسباب ہیں ۔بعض کاتعلق داعی کی شخصیت سے ہے اوربعض کاتعلق اس ماحول سے ہے جہاںوہ گزربسرکررہاہو‘‘۔
ماحول کس طرح فردکوغافل کرتاہے،اس حوالے سے آگے حوصلہ بتاتاہے:
’’پہلی چیز:اللہ کے دشمن سب مل کراسلام اوراسلامی تحریکات کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔آزمائشیں شدیدہیں اوراللہ کی مددسے صبرکاامتحان لے رہی ہیں، ایسے میںکچھ کارکنان اپنی سرگرمیوںسے اُکتا جاتے ہیںاوران کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں ۔
دوسری چیز :کہیںایساہوتاہے کہ ایک سے زیادہ اسلامی جماعتیں میدان میںکام کررہی ہوتی ہیں ان میںبسااوقات ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے، یاایک ہی جماعت کے افرادمیںگروپ بندی اورباہمی رساکشی کی صورت پیداہوجاتی ہے، اس کامنفی اثر بہت سے کارکنوںپر پڑتاہے اوروہ قبیدہ خاطرہوکر میدان دعوت سے ہی کنارہ کشی اختیارکرلیتے ہیں۔
تیسری چیز: کارکن جس میدان میںاصلاحی کوششیں کرناچاہتاہے ،اس میدان میں بگاڑاتنازیادہ ہوتاہے کہ ان کے حوصے جواب دے دیتے ہیں۔
کوئی بھی اہم کرنے کے لئے ہمت کی اشدضرورت ہے۔ فردمیںہمت اورحوصلہ برقراررہے ،اس سلسلے میں حوصلہ فردسے کہتاہے:
’’حوصلہ: اس سلسلے میںدوباتیں بہت اہم ہیں۔پہلی بات کارکن اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس کی تخلیق کامقصد ،اوراس کے وجودکااعلیٰ ترین ہدف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف بلانے والابن جائے ، دل میںیہ شعورہروقت بیداررہے۔دوسری بات اس کادل سوزوتپش سے جل اُٹھے ۔جب وہ ایک طرف بڑتے ہوئے بگاڑ کودیکھے ، اوردوسری طرف مسلمانوں کی بدحالی اورکمزوری کودیکھے ۔یہ سب دیکھ کروہ بے چین ہواُٹھے اوراصلاح ودعوت کے کام میں سرگرم ہوجائے ‘‘۔ اکثریہ دیکھاگیا ہے کہ انسان اجتماعی کام کرتے کرتے اکثرجذباتیت کاشکارہوجاتاہے ۔اس سلسلے میں فردکی ملاقات جذبات سے کرائی جاتی ہے اورجذبات کوصحیح رُخ دینے کی کوشش کی گئی ہے:
’’جذبات:….جذبات دوبر ی کیفیات کے درمیان ایک معتدل کیفیت ہے۔جذبات حدمطلوب سے کم ہوتے ہیں توجمودپیداہوتاہے ۔ جذبات حدسے بڑھ جاتے ہیں تونامطلوب جذباتیت پیداہوتی ہے۔ اس جذباتیت کی صحیح تصویر علامہ یوسف القرضاوی نے بیان کی ہیں کہ وہ مال اور جان کی قربانی دینے کے لئے آگے بڑھ رہاہے مگرجان ومال کی قربانی سودمند اورنتیجہ خیز کیسے ہوتی ہے ،اس کاخیال نہیںکررہاہے‘‘۔
اس طرح کی تمثیلات سے مختلف عنوانات کے تحت فردکی انفرادی اوراجتماعی تربیت کی جارہی ہے۔ کتاب میںمختلف چیزوں کاذکر کرتے کرتے مصنف پیغمبران کرام علیہ السلام،اصحاب رسول ﷺ اور عظیم مفکرین کے اقوال اور افعال کے ذریعے فرد کو اللہ سے قریب کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں ۔ مثلاً ایک بزرگ بنان ؒکہتے ہیں کہ میںعلامہ ابن عربی کے یہاںگیا ،وہ کتابوںسے بھرے ہوئے گھرمیںرہتے ہیں۔ میںنے ان سے کہا کہ ان تمام کتابوںکا خلاصہ مجھے دومفیدجملوںمیںبتادیجئے۔انہوںنے کہا کہ تمہاری ساری کی ساری فکرمندی اس بارے میںرہے جس سے اللہ عزوجل راضی ہو ۔اگردل پر کوئی اورچیزآپڑے تواسی وقت توبہ کرلو ۔
حضرت موسیؑ کے قصّے سے مصنف سوشل سروس کی اہمیت سمجھاتے ہیں:
’’ جب حضرت موسیؑ مدین کے پانی کے پاس پہنچے ،وہاںلوگ اپنے اپنے مویشیوںکو پانی پلارہے تھے ، اوردولڑکیاں الگ الگ کھڑی انتظارکررہی تھیں،حضرت موسیؑ کے پوچھنے پر انہوںنے کہا جب تک سب لوگ پلاکر ہٹ نہیںجائیںگے ،ہم نہیںپلائیںگے اورہمارے باپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں ۔مصنف اس سلسلے میںسیدقطب شہید ؒ کے حوالے سے اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں :’’دیکھوموسی ؑکو تھکے ماندے ،لمباسفرکرکے پہنچے ہیں۔سفربھی ایسا کہ نہ کوئی سامان اورنہ کوئی تیاری،پیچھے سے بے رحم دشمنوںکے تعاقب کااندیشہ ۔یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن انسانیت ،بھلائی ، ہمدردی ، حق کی ادائیگی اورمددکے جذبوںنے آوازدی تویہ سب کچھ ذرارکاوٹ نہ بنا اورانہوںنے بڑھ کر دونوںلڑکیوں کے مویشیوںکوپانی پلادیا‘‘۔ اس طرح سمجھایاجارہاہے کہ داعی ڈرائینگ روم میںبیٹھ کر اجتماعیت اوردعوت کاکام نہیںکرسکتا۔بلکہ داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوںمیںرہے اور لوگوںکے مسائل حل کرتارہے۔ صرف زبانی دعوت کامیاب نہیںہوتی۔ مترجم کایہ کام داداورمبارکبادی کامستحق ہے ۔امیدہے قارئین کتاب خریدکرپڑہیںگے کیونکہ اس کتاب کو باربارپڑھنے کی ضرورت بھی ہے اورآپ محسوس بھی کریں گے۔ کتاب ہدایت پبلیشرز اینڈ ڈسٹربیوٹرس دہلی سے (+91)9891051676پرفون کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔