سید آصف رضا۔ناربل
۔18 مئی 2018ء میں نے جمعہ کی نماز آثار شریف مکہامہ (تحصیل ماگام، بڈگام) میں اداکی۔ آثار شریف مکہامہ اس لحاظ سے کشمیر میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے کہ یہاں موئے مقدّسؐ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے تبروکات بھی ہیں، جن کی نشاندہی خاص مواقع پر کی جاتی ہے۔
نماز سے قبل خطیبِ جامع مفتی محمد منظور رضا صاحب اپنے علمی خطاب بیان کررہےتھے۔ خطاب کے دوران انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا، جو یہ سطور لکھنے کا باعث بنا۔ مفتی صاحب نے واقعہ یوں بیان کیا کہ ’’ہم کچھ علماء جامع ہمدرد (ہمدرد نگر، نئی دلی) کے طالبِ علم تھے اور پاس ہی بطورِ کرایہ دار رہتے تھے۔ وہاں ایک ہندو خاتون اپنے شوہر کے ساتھ رہایش پذیر تھی، جو’’داڑھی والوں‘‘ (مسلمانوں) سے کافی خوفزدہ تھی اور مختلف طریقوں سے نفرت کا اظہار بھی کرتی تھی۔ مفتی صاحب نے مزید فرمایا کہ ایک دن میں نے اس محترمہ کو بتایا کہ ’’آپ اپنے مذہب کے مطابق ہی ہمارے ساتھ معاملات کیجئے۔‘‘ تو اُس نے ہمیں راکھی باندھ کر اپنا بھائی بنا لیا۔ باوجود اس کے کہ ہم نے اُس کو بتا دیا کہ اس طرح راکھی باندھ کر بھائی بنانے کا تصوّر ہمارے مذہب میں نہیں ہے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد رمضان المبارک میں وہ ہندو خاتون اور اُس کا خاوند رات کے تین بجے اُٹھ کر ہمارے لئے سحری کا انتظام کرتے تھے۔
یہ اُس خوش اخلاقی کا نتیجہ تھا جو مفتی صاحب اور اُن کے ساتھی علماء نے اُس ہندو خاتون کے ساتھ روا رکھا۔ ورنہ اگر نفرت کا جواب نفرت سے دیا جاتا تو وہ دونوں میاں بیوی اُن سے قریب ہونے کے بجائے دور ہو جاتے۔
ہمارے اُن ’علماء‘ کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو داعیانہ کردار ادا کرنے کے بجائے نفرت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہی ہم مسلک و ہم مشرب بھائیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے بجائے خارج کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ قوم کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور ایسے عناصر کے خلاف متحد ہونا چاہئے تاکہ اپنی حرکتوں سے باز آسکیں۔
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات!
<[email protected]