لال دین کی شادی کچھ روز بعد ہی طے پا چکی تھی۔ تقریب کے حوالے سے تمام تر انتظامات مکمل کر لئے گئے تھے۔ اب دوستوں، ہمسایوں اور رشتے داروں کو دعوت پر بھلانے کا مسئلہ تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی نجم دین ایک بڑی تقریب منانے کے حق میں نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کچھ خاص لوگوں کو ہی شادی پر دعوت نامہ بھیج دیا جائے کیونکہ گزشتہ دو سالوں سے نہ میوہ باغات سے کچھ خاص آمدنی حاصل ہوئی تھی اور نہ ہی ماہوار گھریلو آمدنی سے کچھ خاص بچت ہوئی تھی کیونکہ ان کی عمر رسیدہ بیوہ ماں بہت سالوں سے بستر مرگ پر ہے ۔ وہ معدے کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہے ۔ اب دونوں بھائی سوچ وبچار کر رہے ہیں کہ کس طرح اور کن لوگوں کو دعوت دی جائے۔
شادی کے روز انہوں نے ایک بھیڑ اور ایک بکرے کو زبح کرکے وازوان تیار کیا ۔ نجم دین نے اپنے بڑے بھائی کیساتھ مشورہ کرکے شادی کے روز ہی مہمانوں کو بُلانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لال دین شش وپنج میں مبتلا تھا کہ کس طرح اور کن لوگوں کو اسکا چھوٹا بھائی دعوت دے گا ۔
نجم دین اپنے مکان سے باہر نکلتے ہوئے پکارنے لگا۔۔۔
ارے لوگو ! ہماری مدد کرو ۔ میرے بھائی کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے ۔
یہ سُنتے ہی کچھ لوگ مکان کے صحن میں جمع ہوئے جبکہ باقی لوگ اپنے کاموں میں مصروف رہے، جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ۔ نجم دین نے ان سبھی لوگوں کو ایک کمرے میں جمع کیا اور اصل حقیقت بیان کی ۔
جب لال دین نے لوگوں کو دیکھا تو کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ ارے ان لوگوں کو تو بُلانا ہی نہیں تھا ۔ جن لوگوں کو ہمیں دعوت دینی تھی وہ تو یہاں ہیں نہیں ۔۔۔۔
نجم دین اپنے بڑے بھائی سے واپس مخاطب ہو کر کہنے لگا ۔۔۔
یہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ہماری مدد کے لئے آئے ہیں۔ہمارے گھر میں لگی آگ کو بجانے کے لئے آئے ہیں ۔ اصل میں یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے دوست ہیں ۔ دعوت کے مستحق ہیں اور جن کو ہمیں دعوت پر بُلانا تھا ۔