مقصوداحمدضیائی
دعا مظہر عبدیت ، بندگی کا نچوڑ اور ایک اہم عبادت ہونے کے ساتھ ضرورت بھی ہے ، اہل علم کہتے ہیں ، دعا مضطرب قلوب کے لئے سامان راحت ہے ، گمراہوں کے لئے ذریعۂ ہدایت ہے ، متقیوں کےلئے قرب الٰہی کا وسیلہ اور گناہ گاروں کےلئے رب ِکریم کی بخشش ومغفرت کی بادِ بہار ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ دُعا میں ہرگز کاہلی نہ کرے ۔
افسوس! عموماً لوگ پریشانی کے وقت مصائب کے دور کرنے کے لئے مختلف تدابیر کو تو اختیار کرلیتے ہیں مگر دعا کو بھول جاتے ہیں جو ہرتدبیر سے آسان اور مفید ہے ۔ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت میں جلدی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دعا کی قبولیت کا وقت معین ہےاور یوں بھی نہیں کہنا چاہئے کہ میں نے دعا کی تھی ، مگر قبول نہیں ہوئی ، ربّ کریم کے فضل سے نا امید ہونا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ دعا کی قبولیت میں اللہ تعالیٰ کبھی کبھی مطلوب سے بہتر کوئی دوسری چیز بندے کو عطا فرما دیتے ہیں یا کوئی آنے والی مصیبت دور کر دیتے ہیں ، غرضیکہ دُعا مؤمن کا ہتھیار ہے اور انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات کے وقت اپنے خالق و مالک کو پکارتا ہے۔اللہ نے انبیاء کرام و صالحین کی دعاؤں کا تذکرہ بھی اپنے کلام پاک میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت ذکریاؑ ہی کو دیکھ لیجئے، آپ ؑنے زندگی بھر کتنی دعائیں مانگی ہوں گی ، خود فرماتے ہیں کہ بال سفید ہوگئے ، اعضا ہل گئے اور بڑھاپا تیزی سے آگیا ، الہا العالمین پھر بھی میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوں ، حق تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ علمائے دین کہتے ہیں کہ دعائوں کا تعلق اسباب سے نہیں ، مسبب سے ہے۔ اسباب سے تعلق سمجھنا کم عقلی اور فضل الٰہی سے ناواقفیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں ، اسباب بھی بناتے ہیں اور عطا و بخشش بھی فرماتے ہیں ، اس کی رضا اور اس کا امر بہت کافی ہے ، اسی لئے کہتے ہیں کہ دعائیں کسی وقت بھی مفید ہیں ۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ جو تکلیفیں آنے والی ہوتی ہیں ، دُعا ان کو بھی ٹالتی ہے اور جو موجود ہیں ،اُن کو بھی ٹھیک کرتی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ دُعا ہر حال میں مفید ہے ، علمائے کرام کہتے ہیں کہ ذکر سے بھی دُعا افضل ہے۔ دُعا، ربّ ذوالجلال کی جو جلالت ِشان ، الوہیت کاملہ ، شہنشاہیت ِمطلقہ ہے ، اس کا علی الاعلان اقرارواعتراف ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو الفاظ انسان کے منہ سے نکلتے ہیں ہمارے پہریدار اُن کو نوٹ کر رہے ہیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ تسبیح کا فائدہ یہ ہے کہ کلام الناس کم ہو جائے گا اور کلام الناس تب ہی کم ہوتا ہے کہ جب تسبیحات الہٰیہ کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ شریعت نے ایک توازن مقرر کیا ہے ، رکوع ، سجود ، صبح و شام کی تسبیحات ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت سلف صالحین قرآن شریف نہیں پڑھتے تھے ، صرف دعا اور تسبیحات میں لگے رہتے تھے ، شاید یہ احتیاط ہو کہ کہیں سجدہ تلاوت نہ آجائے اور وہ اس وقت مکروہ ہے ، بعد میں کرنا پڑے گا ۔ تسبیحات کے معنی ہیں ، حق تعالیٰ سے باتیں کرنا ، اس کی تسبیح ،تکبیر تحمید ، تقدیس اور تعظیم بجا لانا ، بہت بڑا انعام و اکرام ہے۔ حضرت شیخ الہند ؒ نے تفسیر فوائد الہند میں لکھا ہے کہ زیادہ باتوں سے منجملہ خرابیوں کے دل سیاہ و سخت ہوجاتا ہے اور پھر دل خیر قبول نہیں کرتا ، شر کی طرف مائل رہتا ہے ، اس لئے دل کے معالجات اور استفشاء میں سے یہ ہے کہ ضروری کلام کیا جائے ، آنکھیں حق تعالیٰ نے نہ اس لئے دی ہیں کہ آپ انہیں کیمرے بنا لیں ۔ صحابہ کرام کا یہ عمل تھا کہ جب پیغمبراسلام ؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں تو آنکھوں کا بھی حجاب ہے ، لہٰذا آنکھیں بھی بقدر ضرورت استعمال ہوں ۔ ایک دن مالک کائنات کا دیدار نصیب ہوجائے گا اور اگر آپ شوخ چشم بنے رہے تو یہ خطرہ ہے کہ آپ کی بینائی سلب نہ ہو جائے ، خدائے بزرگ و برتر کس شان کے مالک و مختار ہیں ، حدیث پاک میں ہے فرمایا کہ ان کو سمجھاؤ کہ دعا میں اوپر نہ دیکھیں ، ورنہ آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ دعا میں اوپر دیکھنا یہ نبی کی شان ہے ، چونکہ اُن پر تو وحی آتی ہے ، اُمتی کا کیا کام ہے کہ وہ اوپر دیکھے ،وہ تو اپنی ہتھیلیوں کو دیکھے ، سجدہ و رکوع کی جگہوں کو دیکھے اپنی آنکھوں پر بھی قدغن لگائے ، یہ اس کے لیے فائدہ مند ہوگا ۔ اہل نظر کہتے ہیں کہ دینے والا سخی سہی ! مگر مانگنے والے کو بھی سلیقہ ہونا چاہئے ، اگر مانگنے والے کو لینے کا سلیقہ نہ آئے تو ناکامی کا اندیشہ رہتا ہے ۔ حسن طلب سوال کی کامیابی کی روح ہوتی ہے ، حق تعالیٰ ایسے داتا ہیں کہ جن سے نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتے ہیں ، مانگنے والے سے وہ خوش ہوتے ہیں۔ لہٰذا مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے رحیم و کریم رب سے اس طرح مانگے کہ جس طرح مانگنے کا حق ہوتا ہے۔رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ رواں دواں ہے۔ لہٰذا ہر لمحہ کی قدر کیجئے اور اپنے ربّ کے حضور الحاح و زاری کے اس نادر دورانیہ کو ہرگز مت گنوائیے۔دعا ہے خدائے تعالیٰ ہر ایمان والے کو سچا اور پکا مسلمان بنائے اور ماہ مبارک کے ہرہر لمحے کی قدردانی کی توفیق عطا کرے۔آمین