علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے ؎
تو بچا بچاکے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
گرشکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
یہ بندہ ٔ مومن کا دل ہے جو اللہ کے حضور جتنا شکستہ اور نرم وملائم ہو اُتنا اس کی عبادت کو قبولیت اور دعا ؤںمیں اثر آفرینی آجاتی ہے ۔ دعا خدائے لم یزل کے بے حد ونہایہ خزانوں سے فیضیاب ہونے کا ایک نہایت ہی اہم ذریعہ ہے۔ دعا میں وہ طاقت ہے کہ لکھی ہوئی تقدیر کو تبدیل کردیتی ہے، آنے والے تمام مصائب کو دور کردیتی ہے ،مشکل حالات اورمصائب میں بندے کوگرفتار ہونے سے بچاتی ہے، رب العالمین کے ساتھ قرب بڑھاتی ہے۔
رسول اکر مؐ کا فرمان مبارک ہے کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، لہٰذا دعاء میں عاجز مت بنو، اس لیے کہ دعا کے ساتھ کوئی شخص ہلاک نہیں ہوسکتا۔(ابن حبان)۔ دعا ہر آئی ہوئی اور آنے والی مصیبت کے ازالے میں نافع ہوتی ہے، پس اے خدا کے بندو! دعا کو لازم پکڑو(ترمذی) ۔ ایک جگہ رسول خداؐ نے تصریح فرمائی ہے کہ جو شخص حق جل مجدہ سے نہیں مانگتا تو حق سبحانہ وتعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتا ہے(ابن ماجہ)۔ معلوم ہوا کہ دعا رب العالمین کی جانب سے ہر قسم کی پریشانیوں، مصیبتوں، آفتوں سے بچنے کے لئے رب العالمین کا بتلایا ہوا نسخہ ہے اور دنیا وآخرت میں دست بدعا بندے کی سرخ روئی اور سربلندی کا وسیلہ ہے غرض دعا عبادت اوربندگی کا نچوڑ ، درد کادرماں اور قلب مضطر کا سہارا ہوتی ہے۔ جب اس جہانِ آب وگل میں ہر سمت اندھیرا چھاجائے تو مایوسی کے عالم میں بندہ مؤمن کے پاس ایک دعا کی قندیل ہی رہ جاتی ہے جو اس کے لئے نصرت خداوندی کی ضمانت ہے۔ حسنات کے بعد دعائیں مانگنا مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے، نمازوں کے بعد تو مسلمان دعائیں مانگتے ہیں اپنے لیے، اپنی آل اولاد کی خیر وعافیت کے لیے، عالم اسلام کے استحکام وارتقاء کے لیے اپنے ملک میں امن وامان کے لیے۔ دعاؤں کے اثر سے تقدیریں بدلتی ہیں۔البتہ دعا کے لیے بھی علم اور فہم وذکاء چاہئے۔ دینے والا سخی سے ہے مگر مانگنے والے کو بھی سلیقہ آنا چاہئے۔ اہل نظر کہتے ہیں کہ حسن طلب سوال کی کامیابی کی روح ہوتی ہے۔ دعا مانگنے کے کچھ شرائط ، کچھ ضوابط اور چند ایک آداب ہیں، ان کی رعایت کی جائے تو دعا عند اللہ مقبول ہوگی ۔ بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو عام حالات میں مانگنی مکروہ ہیں جیسا کہ ایک شخص نے یہ دعا مانگی کہ خدایا! مجھے صبردے تو پیغمبر اسلام ؐ اُن سے ناراض ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا : تم نے تو اپنے رب سے مصیبت مانگی ،صبر تو تب ہوگا کہ پہلے حادثہ ہوگا، جلدی حق جل مجدہ سے عافیت کی دعامانگو۔ اس نے دعا کی : الہہ العالمین! میں تجھ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگتا ہوں، خداوندا! میں تجھ سے دین دنیا اہل وعیال ومال سے متعلق معافی اور عافیت کا طلب گار ہوں ۔اس پر پیغمبر اسلام ؐ بہت خوش ہوئے ،فرمایا تونے خوب مانگا اور جو مانگاوہ سارا ملے گا۔ امام احمد ؒنے’’ کتاب زہد‘‘ میں بنی اسرائیل کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کی ایک جماعت ایک مصیبت میں گرفتار ہوگئی ،اس کے ازالہ کے لئے وہ بارگاہ خداوندی میں گڑ گڑاتے ہوئے ایک میدان میں نکل کھڑے ہوئے اور رب ذوالجلال کی بارگاہ میں آہ وزاری کرنے لگے، حق تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ نجس بدنوں کے ساتھ آکر میرے سامنے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا رکھے ہیں، حالاں کہ تم نے ناحق خون سے اپنے ہاتھوں کو گندہ کیا ہوا ہے اور اپنے گھروں کو حرام چیزوں سے بھرلیا ہے، اس سب کے ہوتے ہوئے تومیرا غیظ وغضب تم لوگوں کے لیے سخت ہوچکا ہے ،اب تم مجھ سے دور ہی ہوتے جاؤگے۔ ان دست بدعا لوگوں کی دعاشرائط وآدابِ دعا سے خالی تھی، اس لیے حق تعالیٰ کی جانب سے زجر و توبیخ ملی ۔ پیغمبر اسلامؐ نے دعا کے آداب کو لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: ’’حق تعالیٰ غافل دل کی دعا کو قبول نہیں فرماتا۔‘‘ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعا کی حقیقت واہمیت کو سمجھے ، اس کے آداب سے واقفیت حاصل کرے اور ان آداب کی رعایت کرتے ہوئے صرف حق تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمہ وقت اپنی حاجات کی جھولی پھیلاکر عاجزی وانکساری سے گڑ گڑائے تو اللہ رحیم وکریم قبولیت واجابت سے نوزے گا ۔مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں الندوی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ دعائیں مستقل معجزات اور دلائل ِنبوت میں سے ہیں۔ اگر کوئی بندۂ خدا دعاؤں کا اہتمام کرے تو اس کے شب وروز کی تمام ساعتیں حق تعالیٰ کے ذکر ومناجات سے معطر ہوجائیں گی ۔
دعا کے چند آداب یہ ہیں: اخلاص اور یقین کا ہونا، خشوع وخضوع کا التزام کرنا، دعا کرتے وقت ظاہر اور باطن کو پاک رکھنا،دعا دل سے مانگنا۔ پیغمبر اسلامؐکا فرمان ہے کہ حق جل مجدہ غافل دل کی دعا کو قبول نہیں کرتا(مسلم)۔دعا میں تنگ نظری اور خود غرضی سے بچنا چاہیے ، رب العالمین کی عام رحمت کو محدود سمجھ کر اس کے فیض و بخشش کو صرف اپنے لیے خاص کرنے کی دعانہ کریں، مسنون دعاؤں کااہتمام کریں، جودعائیں رسول اکرمؐ نے مانگی ہیں، ان کا خصوصی اہتمام کریں۔ دعا کے ساتھ ظاہری شرعی اسباب بھی اختیار کرنے چاہئیں ،صرف دعا پر اکتفانہ کریں، دعا برابر مانگتے رہنا چاہئے۔ حق تعالیٰ کے حضور اپنی تواضع وانکسار، اور عبودیت کا اظہار فی ذاتہٖ ایک عبادت ہے۔ پروردگار عالم نے خود دعا کرنے کا حکم دیا ہے ۔فرمایا بندہ جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی سنتا ہوں، اس لیے دعامانگنے سے کبھی نہ اُکتایئے اور اس چکر میں کبھی نہ پڑیئے کہ دعا سے تقدیر بدلے گی یانہیں، تقدیر کا بدلنا نہ بدلنا، دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا خداکاکام ہے جو علیم وحکیم ہے ،بندے کاکام بہر حال یہ ہے کہ وہ ایک حقیر فقیر محتاج اور گداگر کی طرح برابر اس کے دربار میں دعا گو رہا کرے اور لمحہ بھر کے لیے بھی خود کو بے نیاز نہ سمجھے۔ پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو دعا کرنے میں عاجز ہو‘‘(طبرانی) فرمایا :’’جو شخص حق جل مجدہ سے دعا نہیں کرتا۔ حق تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوجاتا ہے (ترمذی) ۔ دعا میں بہ تکلف قافیہ بندی سے پرہیز کرنا چاہئے، دعا سادہ انداز میں مانگنی چاہئے، بہ تکلف قافیہ بندی گانے اور سرہلانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ باوضو ہوکر قبلہ رُخ بیٹھا جائے، خدا کو حاضر وناظر تصور کرلیا جائے ،دونوں ہاتھ اپنے سینے کے مقابل اُٹھائے جائیں، ہتھیلیاں آسمان کی طرف رکھی جائیں اور عاجزی کو اپنے اوپر مسلط کرکے نظریں نیچے رکھی جائیں، پھر خدائے تعالیٰ کی حمدوتعریف کی جائے اور درود شریف پڑھ کر پہلے حق جل مجدہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے، اس کے بعد خدائے تعالیٰ کے سامنے اپنی تمام حاجات رکھی جائیں او رپھر اپنے اقرباء، رشتہ داروں اور تمام مسلمانوں کے لیے خوب دعامانگی جائے، اخیر میں درود شریف پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیرلیا جائے۔ بندہ دل میں یہ پکا یقین کرکے دعا کی عبادت سے اُٹھے کہ میری دعا خدائے رحیم وکریم کی بارگاہ میں ضرور قبول ہوئی۔ دعا ہے خدائے جوادوکریم ہر ایمان والے کو صحیح آداب کے ساتھ دعامانگنے کی توفیق عطا فرمائے ، پوری دنیا ، ہماری ریاست اور خطے کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنائے، بطور خاص اس وقت امت مسلمہ جگہ جگہ جن نامساعد حالات سے دوچار ہے، حق تعالیٰ اپنے خاص فضل و احسان سے تمام بندگانِ خدا کی حفاظت فرمائے ۔(آمین)
رابطہ نمبر : 9682327107/9596664228
E-mail:[email protected]